''اصل معذور وہ نہیں جو چلنے پھرنے‘ سننے بولنے یا دیکھنے سمجھنے سے محروم ہیں‘ بلکہ اصل معذور وہ ہیں جو ان سب نعمتوں کے باوجود زندگی کو بے قدری کے انداز میں گزارتے ہیں‘ جو مخلوق خدا کا خیال نہیں کرتے اور جو ہاتھ پائوں ہلائے بغیر راتوں رات سب کچھ سمیٹنا چاہتے ہیں۔ جن لوگوں کو خدا نے ان سب نعمتوں سے نوازا ہے اصل امتحان تو ان کا ہے کہ وہ کیسے ان لوگوں کے کام آتے ہیں جو دیکھنے‘ سننے‘ بولنے اور چلنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اسلام کی نگاہ سے دیکھیں تو اسلامی معاشرے میں معذور یا خصوصی افراد پر کوئی بھی معاشی بار نہیں ہونا چاہیے۔ اسلامی فلاحی ریاست میں ایسے افراد کی رہائش‘ معاش‘ تعلیم اور علاج سب کچھ مفت ہونا چاہیے۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں اسلامی حکومتیں ایسے خصوصی افراد کا بوجھ اٹھاتی دکھائی دیں گی۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے ایک نابینا کو دیکھا جو گلی میں کھڑا بھیک مانگ رہا تھا۔ حضرت عمرؓ قریب آئے اور پوچھا: تمہاری اس حالت کی وجہ کیا ہے؟ نابینا شخص بولا: میں بوڑھا ہو چکا ہوں‘ روزمرہ کی ضروریات کے لیے محتاج ہوں‘ کوئی کمانے والا نہیں اور میں نے قرض بھی دینا ہے‘ اس لیے مجبوراً یہ کام کر رہا ہوں۔ آپؓ نے اس شخص کو ساتھ لیا اور بیت المال سے اس کے لیے زندگی بھر کا وظیفہ مقرر کر دیا۔ ایک اور واقعے کے مطابق حضرت عمر ؓ نے ایک شخص کو دیکھا جو بائیں ہاتھ سے کھانا کھا رہا تھا۔ آپؓ نے وجہ پوچھی تو بولا: جنگ میں میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس شخص کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا اور اس کے لیے ایک مستقل غلام مقرر کیا جو ان کی مکمل دیکھ بھال کرتا۔ آج پاکستان میں معذور افراد کی تعداد 53 لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں سے 65 فیصد دیہات میں مقیم ہیں۔ ان 53 لاکھ میں سے 13 لاکھ بچے بھی ہیں جو پولیو اور دیگر وجوہ کی بنا پر نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہیں۔ ان 53 لاکھ خصوصی افراد کے لیے تعلیم‘ علاج اور روزگار کا انتظام ریاست کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کو ایسا کوڈ آف کنڈکٹ بنانا چاہیے جس کے تحت ایسے افراد نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔ ان کی آمدورفت‘ معاش‘ رہائش‘ علاج‘ تعلیم اور دیگر سہولیات کا ایسا مناسب انتظام کیا جائے کہ یہ اپنے خاندان پر بوجھ کم کر سکیں۔ ان کے لیے خصوصی شناختی کارڈز کا اجرا ہونا چاہیے۔ تمام سرکاری و نجی اداروں میں ان کے لیے روزگار کا کم از کم تین فیصد کوٹہ مقرر کیا جانا چاہیے۔ عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ سرکاری اداروں میں معذور افراد کی لیے مختص سیٹوں پر سفارشی صحت مند لوگ براجمان ہو جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ بھی ختم ہونا چاہیے۔ تمام بلدیاتی اداروں میں انہیں متناسب نمائندگی حاصل ہو جائے تو یہ خود اپنے مسائل بہتر انداز میں اجاگر اور حل کر سکیں گے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں معذور افراد کو فی کس کم از کم بیس ہزار روپے ماہوار ملنے چاہئیں تاکہ وہ گھر کا خرچ چلانے کے قابل ہو سکیں۔ یہ لوگ سرکاری یوٹیلٹی سٹورز پر شناختی کارڈ دکھائیں تو انہیں خریداری میں چالیس فیصد رعایت دی جائے کیونکہ مہنگائی نے جہاں عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے وہاں بھلا معذور شخص کیسے گزارہ کر رہا ہو گا‘‘۔
متذکرہ بالا خیالات کا اظہار جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے تین دسمبرکو معذوروں کے عالمی دن کے موقع پر منصورہ میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں کیا‘ جس میں مہمان خصوصی صرف معذور افراد تھے‘ جنہیں نہ صرف انتہائی عزت و احترام کے ساتھ بٹھایا گیا تھا بلکہ انہیں ایک ہزار ویل چیئرز اور علاج و دیگر سہولیات بھی مفت فراہم کی جا رہی تھیں۔ میں نے معذور افراد کے حوالے سے ہمیشہ ایک بات نوٹ کی ہے کہ نہ جانے کیوں وہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ متحرک‘ خوش اور زندہ دل دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چلنے پھرنے سے عاری ہوتے ہیں لیکن ان کی آنکھوں کی چمک بتاتی ہے انہیں یقین ہوتا ہے وہ ایک دن چل پڑیں گے۔ کسی نابینا سے مل کر دیکھیں آپ کو لگے گا اسے یقین ہے کہ وہ ایک دن دیکھنے کے قابل ہو جائے گا اور کسی گونگے بہرے شخص سے مل کر دیکھ لیں آپ کو لگے گا وہ ابھی بول پڑے گا۔ یہ سب لوگ آپ کو خدا کا شکر کرتے دکھائی دیں گے لیکن ان کے مقابلے میں آپ ہٹے کٹے لوگوں سے ملیں گے تو وہ اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کی داستانیں سنا سنا کر آپ کا سر کھپا دیں گے۔ ہمیں یہ نہیں ملا وہ نہیں ملا‘ ہمارے پاس پیسہ ہوتا تو ہم فلاں کاروبار کر لیتے‘ فلاں ملک کا ویزا مل جاتا تو ہم آج کروڑ پتی ہوتے‘ فلاں یونیورسٹی میں داخلہ ہو جاتا تو ہم آج بڑے آدمی بن جاتے اور لاکھوں روپے تنخواہ لے رہے ہوتے۔ یہ سب گلے شکوے آپ کو صرف اچھے بھلے صحت مند افراد کی جانب سے ہی ملیں گے۔ میں نے اس ایونٹ پر ایک ایسے نابینا نوجوان کو بھی دیکھا جو ایک یو ٹیوب چینل چلا رہا ہے اور اس کی رپورٹنگ بھی خود کرتا ہے۔ اسی طرح ویل چیئر پر دو تین ایسے افراد ملے جو کمال کے موٹی ویشنل سپیکر تھے اور جو اپنے لیکچرز کے ذریعے لوگوںکی زندگیاں تبدیل کر رہے ہیں۔ ایک با ہمت نوجوان لڑکی کو بھی دیکھا جو بلائنڈ کرکٹ ٹیم کی کپتان تھی۔ ان سب کے ہاتھ میں سفید چھڑی تھی اور یہ یوں نقل و حرکت کر رہے تھے جیسے انہیں سب کچھ دکھائی دیتا ہو۔ شاید یہ دل اور دماغ کی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ میں نے اس خوبصورت تقریب کے منتظم مرکزی سیکرٹری جنرل امیرالعظیم صاحب سے پوچھا: کیا آپ بھی وہی سوچ رہے ہیں جو میں سوچ رہا ہوں۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک نابینا لڑکے سے جا ملایا۔ یہ لڑکا ایم اے اردو اور ایم اے انگریزی کر چکا تھا اور اب ایم فل کی تیاری کر رہا تھا۔ اس سے بات چیت کے بعد ہم ایک اور خصوصی دوست کے پاس گئے۔ یہ ماسٹرز کر چکا تھا اور شاعری کی کتاب کا مصنف بھی تھا۔ ایسی درجنوں بلکہ سینکڑوں مثالیں تقریب میں موجود تھیں جنہیں دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ انسان کے ارادے بلند اور امیدیں زندہ ہوں تو کوئی بھی معذوری انسان کو ترقی کرنے اور خوش رہنے سے نہیں روک سکتی۔
میں نے چند ماہ قبل ایک نوجوان طالب علم انجینئر کی ایسی ویل چیئر کی ایجاد پر لکھا تھا جو خود سیڑھیاں چڑھ اور اتر جاتی تھی۔ یہ کمال کی ایجاد تھی۔ ایسی ہی ایک ویل چیئر فائز ارباب نامی نوجوان نے بنائی ہے جو بلانے پر اسی فٹ کی دوری سے بھی خود کار طریقے سے معذور افراد کے پاس آ جاتی ہے۔ یہ موبائل فون کے ذریعے بھی کنٹرول کی جا سکتی ہے اور اس پر موجود بٹنوں سے اسے ادھر اُدھر بھی لے جایا جا سکتا ہے۔ معذور افراد کا سب سے بڑا مسئلہ نقل و حرکت کا ہے جس کے لیے انہیں دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس ویل چیئر کو بنانے کا مقصد معذور افراد کو خود انحصار بنانا ہے تاکہ وہ کہیں آنے جانے اور دور پڑی ویل چیئر پر بیٹھنے کے لیے ویل چیئر کو آواز دے کر خود اپنے پاس بلا سکیں۔ ایسی ویل چیئر بیرون ممالک سے منگوائی جائے تو اس پر بہت زیادہ لاگت آتی ہے لیکن فائز یہ انتہائی کم قیمت پر پاکستان میں ہی تیار کر رہا ہے۔ اسی طرح ڈس ایبل افراد کی سہولت کے لیے کمپیوٹر اور موبائل فون پر مختلف سافٹ ویئرز بھی دستیاب ہیں جنہیں استعمال کر کے وہ اپنی زندگی کے معمولات کو چلا سکتے ہیں۔ اگرچہ خصوصی افراد کا مکمل معاشی بوجھ ریاست کو اٹھانا چاہیے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ معذور افراد بھی اسی طرح خودداری اور عزت نفس رکھتے ہیں جیسے دوسرے انسان۔ اس لیے ریاست اور نجی شعبے کو ان کے لیے روزگار کے انتظام کا سوچنا چاہیے۔ یہ عام لوگوں کی طرح بلکہ کئی شعبوں میں ان سے کہیں زیادہ ذہین اور قابل ہوتے ہیں۔ بس ضرورت ان کی رہنمائی کی ہے۔ جو چلنے پھرنے سے معذور ہیں انہیں فری لانسنگ اور انٹرنیٹ سے کام سکھایا جائے تو وہ معقول آمدنی کما سکتے ہیں۔ فیصل آباد کی اس خاتون کی کہانی میں لکھ چکا ہوں جو پولیو کی وجہ سے بچپن میں ہی معذور ہو گئی تھی لیکن فری لانسنگ کے ذریعے اب گھر بیٹھے انٹرنیٹ سے ایک لاکھ روپے ماہانہ کما رہی ہے۔ حکومت اور نجی شعبہ اس طرف توجہ کر لے تو ایسے ہزاروں خصوصی افراد معاشی طور پر خود مختار ہو سکتے ہیں۔