دنیا میں آج تک جتنی بھی جھگڑے یا ہنگامے ہوئے ہیں ان میں ہسپتالوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا گیا اور اگر کبھی ایسا ہوا تو اس کی پوری دنیا میں مذمت کی گئی لیکن گزشتہ روز جس طرح پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال پر حملہ کیا گیا اس کی نظیر دور دور تک نہیں ملتی۔ کمزور سے کمزور ملک میں بھی ایسا واقعہ کبھی پیش نہیں آیا کہ کوٹ ٹائی سوٹ پہنے جتھے دل کے ہسپتال پر حملہ آور ہوں‘ ایمرجنسی کے شیشے توڑ رہے ہوں‘ مریضوں اور ان کے لواحقین پر اینٹیں برسا رہے ہوں حتیٰ کہ آپریشن تھیٹر میں گھس کر مریض اور عملے کو بھی نہ بخش رہے ہوں۔ یہ اعزاز بھی صرف پاکستان کے حصے میں ہی آنا تھا کہ آج دو پڑھے لکھے طبقے ایک دوسرے کے جانی دشمن ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹروں اور وکلا میں گزشتہ دنوں جھگڑے کے بعد صلح ہو چکی تھی لیکن گزشتہ روز وکلا نے یہ موقف اپنایا کہ ڈاکٹروں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور وکلا کی تضحیک آمیز ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈالی۔ سوال یہ ہے کہ ڈاکٹروں نے اگر غلط کیا تو اس حوالے سے وکلا وزیر صحت یاسمین راشد سے شکایت کر سکتے تھے‘ عدالت میں کیس کر سکتے تھے لیکن جو کچھ انہوں نے کیا‘ اس کی تو دنیا کا کوئی بھی معاشرہ اجازت نہیں دے سکتا۔ سوشل میڈیا پر آئے روز ویڈیوز آتی رہتی ہیں۔ اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ فریقین ایک دوسرے پر حملہ آور ہو جائیں‘ خود ہی تشدد اور خود ہی انصاف کرنا شروع کر دیں۔
اس ملک میں جتھوں کا کلچر نیا نہیں۔ طلبہ جماعتوں کی شکل میں تعلیمی اداروں میں آج سے تیس برس قبل تک جو یونینز بنائی جاتی تھیں‘ انہیں بھی سیاستدانوں نے اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا۔ طلبا کے کچھ لیڈران براہ راست سیاسی جماعتوں کے باقاعدہ کارندے بن کر ہر جائز‘ ناجائز کام کروانے لگے۔ حتیٰ کہ یونیورسٹیوں کی حدود سے باہر بھی طلبا کو سیاسی مقاصد‘ فوائد اور مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ جو طلبا ان کا حصہ نہیں بنتے تھے انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا اور دیوار سے لگا دیا جاتا۔ اب جو ڈاکٹروں اور وکلا کے گروپس بن گئے ہیں ان کے پیچھے بھی سیاسی تنظیمیں کارفرما ہو سکتی ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ پنجاب کارڈیالوجی پر حملے میں بھی چند شر پسند عناصر کو استعمال کیا گیا ہو جنہوں نے باقاعدہ سازش کے تحت پلان بنا کر دیگر وکلا کو ساتھ ملایا اور پنجاب میں امن و امان کی فضا کو خراب کرنے کے لئے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہو۔ یہ تو خفیہ والوں کو تفتیش سے معلوم کرنا چاہیے کہ اتنے بڑے حملے کے ماسٹر مائنڈ کون تھے اور کیا ان کا پروگرام صرف ڈاکٹروں کو نشانہ بنانا تھا یا پنجاب کی پوری کی پوری مشینری کو جڑ سے ہلانا اور حکومت کو کمزور کرنا تھا؛ تاہم اس حملے میں جن مریضوں کی وفات ہوئی وہ حکومت کو اس لئے ٹیکس نہیں دیتے تھے کہ وہ ہسپتال جائیں اور ان پر کوئی جتھہ ٹوٹ پڑے تو حکومت ان کو بچا بھی نہ سکے۔ یہ معاملہ یقینا محکمہ صحت اور پولیس کے علم میں تھا۔ پل پل کی انہیں خبر تھی اور اگر نہیں تھی تو اس سے بڑی بد قسمتی کی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ بد قسمتی سے صبح گیارہ بجے سے ٹی وی چینلز اس واقعے کی براہ راست کوریج کر رہے تھے لیکن اس دوران پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کی جانب سے ہسپتال کے گرد کوئی حفاظتی حصار نہ بنایا جا سکا۔ جب معاملہ ہاتھ سے نکل گیا‘ چار مریض جان سے چلے گئے‘ پورا ہسپتال کھنڈر بن گیا تب جا کر معاملے کا نوٹس بھی لے لیا گیا۔ اس دوران جو شہری سڑکیں بند ہونے سے رُلتے رہے ان کی کہانیاں تو ابھی سامنے آنا باقی ہیں۔ اس وقت چھٹی کا ٹائم تھا۔ میرے اپنے بچے قریبی سکولوں میں گئے ہوئے تھے۔ دو بجے چھٹی ہوئی لیکن وہ پانچ بجے جا کر گھر پہنچ سکے۔ ان بچوں کے سامنے یہ جو ساری فلمیں چل رہی ہیں اور ان کے ذہنوں میں جو سوالات آ رہے ہیں ان کا کم از کم میرے پاس تو کوئی جواب نہیں۔ میں انہیں کیا بتائوں یہ حملہ کس نے کیا۔ کیوں سڑکیں بند ہیں۔ یہ کالے اور سفید کوٹ والے کون ہیں‘ یہ آپس میں گتھم گتھا کیوں ہیں۔ حکومت کہاں ہے۔ ادارے کہاں ہیں۔ کیا ڈاکٹروں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ دیکھ کر میری بچی بڑی ہو کر ڈاکٹر بنے گی؟ جب وہ ٹائی کوٹ والے گروہ کے ہاتھوں ڈاکٹروں کے سر پھٹتے دیکھے گی تو میڈیکل کے انتہائی مشکل امتحان کا کبھی سوچ بھی پائے گی؟ جب اس کے ساتھ بھی بڑے ہو کر یہی ہونا ہے تو پھر وہ ڈاکٹر کیوں بنے گی۔ ہمارے بچوں کو معلوم ہے کہ قائد اعظم نے پاکستان بنایا اور وہ ایک وکیل تھے تو ان کے ذہنوں میں وکالت کے شعبے کے بارے جو سوالات پیدا ہوں گے‘ ہم ان کا کیا جواب دیں گے؟ چلیں یہ گروہ آپس میں لڑتے تو اور بات تھی لیکن جو مریض جان سے گئے جو راہ گیر لواحقین زخمی ہوئے ان کا مقدمہ کون لڑے گا؟ وہ کس عدالت میں جا کر کس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرائیں؟ ڈاکٹروں کو بھی عقل کرنی چاہیے تھی کہ جب معاملہ رفع دفع ہو گیا تھا تو پھر سوشل میڈیا پر تیلی لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ جب دو روز قبل خود ڈاکٹروں کے نمائندے نے ٹی وی پر ان سے معافی مانگی تھی تو پھر سوشل میڈیا پر یہ مسئلہ کھڑا کرنے کی کیا سوجھی تھی اور جب اس معاملے کو جاری ہی رکھنا تھا تو پھر وکلا سے معافی کیوں مانگی تھی۔ متعلقہ ڈاکٹر بھی اس معاملے میں قصور وار ہیں۔ جس طرح آئے روز ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشنز کی جانب سے ہڑتال کی جاتی ہے اور مریضوں کو خوار کیا جاتا ہے وہ کسے معلوم نہیں۔ میری ایک عزیزہ ڈاکٹر ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ڈاکٹر ہڑتال میں شریک ہونے کے لئے دیگر ڈاکٹروں کو مجبور کرتے ہیں اور ایسا نہ کرنے والوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ اب ان حالات میں کون ڈاکٹر بنے گا اور بن گیا تو کیسے ملکی ہسپتالوں میں کام کرے گا؟ آپ حیران ہوں گے کہ گزشتہ دو برسوں میں بیرون ملک نوکری کے لئے منتقل ہونے والوں میں سب سے زیادہ تعداد ڈاکٹروں کی تھی۔ جو یہاں کام کر رہے ہیں یا تو وہ مجبور ہیں یا پھر وہ کسی نہ کسی یونین سے وابستہ ہیں۔ جہاں تک وکلا کی بات ہے تو ان کو بھی ڈاکٹروں کی طرح خود اپنے اندر سے کالی بھیڑوں کو نکالنا ہو گا اور خود نہیں نکالتے تو یہ کام حکومت کو کرنا چاہیے۔ ویسے یہ ہونا نہیں ہے کیونکہ ان طبقات میں اب تک جتنی سیاسی ہوا بھری جا چکی ہے نہ ڈاکٹروں نے آسانی سے قابو آنا ہے نہ وکلا نے۔ وکلا البتہ قانونی لحاظ سے ڈاکٹروں سے زیادہ مضبوط ہیں کیونکہ ہر لڑائی جھگڑے کا اختتام بالآخر تھانوں اور پھر عدالتوں میں ہوتا ہے اور وہاں ڈاکٹروں کی چلتی نہیں۔ ڈاکٹر زیادہ سے زیادہ ہڑتالیں کر سکتے ہیں لیکن وکلا ''قانون‘‘ کے پلیٹ فارم پر ہونے کی وجہ سے اپنا دفاع زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں بلکہ پولیس یا دیگر اداروں پر دبائو ڈال کر مخالف کو سخت مشکل میں بھی ڈال سکتے ہیں۔ اب امتحان تو اصل میں حکومت کا ہے کہ وہ کیا کرتی ہے۔ اس واقعے کے حوالے سے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے ‘ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ماضی کی کمیٹیوں کی طرح اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
اس سارے عمل میں خوار صرف اور صرف عام عوام ہو رہے ہیں کیونکہ وہی علاج کے لئے سرکاری ہسپتالوں میں جاتے ہیں اور مقدمات کے حل کے لئے عدالتوں میں۔ امیر طبقہ تو نجی ہسپتال چلا جائے گا‘ لیکن غریب طبقہ مزید رُل جائے گا۔ اسی طرح وکلا کی بھی اب چند روز میں مزید ہڑتالیں اور احتجاج ہوں گے۔ ممکنہ طور پر عدالتوں کی تالا بندی ہو گی اور ملک قرب و جوار سے آئے سائل اپنے مقدمات کے لئے خوار ہوتے رہیں گے۔ یاد رہے‘ یہ وہی عام طبقہ اور سائل ہیں جن کے کندھے پر بیٹھ کر حکمران اقتدار میں آتے ہیں لیکن آج وہی سائل‘ وہی مریض اور وہی غریب ہسپتالوں کی ایمرجنسیوں اور آپریشن تھیٹروں میں بھی پتھر اور ٹھڈے ہی کھا رہے ہیں۔ حکومتیں بدل گئیں۔ چہرے بدل گئے لیکن اس طبقے کے حالات نہیں بدلے۔ فرق صرف یہ پڑا ہے کہ پہلے اسے ہسپتالوں کے باہر مار پڑتی تھی اب اسے ہسپتالوں میں گھس کر مارا جانے لگا ہے۔