تعلیم اور کیریئر پلاننگ ایسے مسائل ہیں جن کا سامنا ہر طالب علم اور ان کے والدین کو رہتا ہے۔ بدقسمتی سے اس حوالے سے قومی سطح پر کوئی ایسا مرکزی پلیٹ فارم موجود نہیں جہاں سے طلبہ اور والدین رہنمائی لے سکیں۔ جس طرح باقی چیزوں میں اِدھر اُدھر سے جگاڑ اور اندازوں سے کام چل رہا ہے‘ اسی طرح بچے اور والدین بھی ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ہی فیصلے کرنے پر مجبور ہیں۔ بچے ساتویں جماعت پاس کرنے کے قریب ہوتے ہیں تو نجی سکولوں میں انہیں ایک فارم دے دیا جاتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کر لیں کہ آگے انہیں میٹرک کرنا ہے یا او لیول کا انتخاب کرنا ہے۔ اب بچوں کو یہ چیزیں تو معلوم نہیں ہوتیں کہ انہیں کس شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے‘ کون سا ان کیلئے بہتر ہے اور کس میں یہ زیادہ اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ یہ کام والدین کر سکتے ہیں یا پھر سکول انتظامیہ۔ فن لینڈ جیسی جدید ریاستوں میں یہ ذمہ داری ریاست بھی اٹھاتی ہے اور بچوں‘ ان کے والدین اور اساتذہ کے باہمی تبادلہ خیال کے بعد ہی یہ طے پاتا ہے کہ بچے نے کون سی فیلڈ یا کون سے مضامین منتخب کرنے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اسّی فیصد والدین کو تو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کے بچے پڑھ کیا رہے ہیں۔ خود زیادہ تر چونکہ میٹرک والے نظام سے نکل کر آتے ہیں اس لئے انہیں کیمبرج کی تعلیم کے اسرارورموز سے واقفیت نہیں ہوتی‘ نہ ہی اس کے فوائد کے بارے میں وہ زیادہ علم رکھتے ہیں۔ والدین کی زیادہ سے زیادہ خواہش اگر ہوتی ہے تو یہ کہ ان کا بچہ بس اعلیٰ ترین نمبر لے‘ پورے صوبے میں ٹاپ کرے اور ان کا نام روشن کرے۔ جب سے میٹرک کرنے والے بچوں کے نمبر گیارہ سو میں سے ایک ہزار بانوے آنے لگے ہیں اور پچاس ساٹھ فیصد بچوں کے نمبر اسّی فیصد سے زیادہ آ رہے ہیں تو سبھی والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ بھی بس میٹرک میں اعلیٰ نمبر لے اور ان کی زندگی بن جائے گی‘ حالانکہ ایسا نہیں ہوتا۔ میٹرک میں نمبر کس طرح آتے ہیں یہ بچے بچے کو پتہ ہے۔ شاید طوطا بھی الفاظ کو دہراتے ہوئے ایک آدھ لفظ یا حرف اوپر نیچے کر دیتا ہو لیکن میٹرک کے بچوں کو اساتذہ اور سکولوں کی جانب سے سخت ہدایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے اگر نمبر حاصل کرنے ہیں تو صرف وہی جواب لکھنا ہو گا جو انہوں نے درسی کتاب سے یاد کیا ہے۔ اس سے دو جملے یا دو حرف زیادہ نہ کم۔ حتیٰ کہ اپنے انداز میں لکھنے کی کوشش کی غلطی بھی نہیں کرنی کیونکہ اگر وہ صحیح جواب لکھ دیں گے لیکن اپنے الفاظ میں لکھیں گے تو انہیں دس میں سے دو نمبر ملیں گے؛ تاہم اگر ہو بہو رٹا رٹایا لکھ دیں گے تو پورے دس بھی مل جائیں گے اور یہ نمبر اردو جیسے پیپروں میں بھی مل رہے ہیں جہاں مضمون نگاری ہزاروں مختلف اور بہتر انداز میں کی جا سکتی ہے لیکن بچے کے دماغ سوئچ آف کرکے اس کے سوچنے سمجھنے اور اپنے خیالات پر مکمل پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ میٹرک سسٹم کی سب سے بڑی خرابی بھی یہی ہے۔ دوسری جانب او لیول اے لیول ہیں‘ جن میں رٹے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ میٹرک والے بچے رٹا لگا کر اعلیٰ نمبر تو لے لیتے ہیں اور انہیں اچھے کالجوں میں داخلہ بھی مل جاتا ہے لیکن آگے ایف ایس سی میں یکدم نصاب اور امتحانی نظام تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہی بچے جو میٹرک میں پچانوے چھیانوے فیصد نمبر لے کر آتے ہیں وہ ان حالات میں ایڈجسٹ نہیں ہو پاتے وہ رٹا لگانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن امتحان میں سر کھجاتے ہیں کہ اب اسے حل کیسے کریں۔ بعض بچے تو رٹے کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ سوالات میں اگر صرف نام اور اعداد و شمار ہی تھوڑے سے تبدیل کر دئیے جائیں تو وہ بھی ان سے حل نہیں ہوتے۔ میٹرک کا نظا م عملی زندگی سے انہیں دور لے جاتا ہے کیونکہ زندگی میں آپ کو کبھی بھی آئیڈیل یا طے شدہ صورت حال نہیں ملتی۔ مختلف جگہوں پر مختلف اوقات میں مختلف مسائل درپیش ہوتے ہیں۔ آپ نے ان کا نہ صرف سامنا کرنا ہوتا ہے بلکہ بروقت حل بھی نکالنا ہوتا ہے۔
آج کل جیسے حالات بن گئے ہیں اس میں تو انتہائی محتاط اور تیز ترین بندہ ہی گزارہ کر سکتا ہے اور محتاط وہی ہو گا جو ہر قسم کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار ہو گا۔ اب جن بچوں کو آپ اس عمر میں ایک چھوٹے سے دائرے میں محدود رکھتے ہوئے انہیں اپنا دماغ استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں دیں گے تو آگے چل کر وہ کیا کریں گے اس کا اندازہ لگا لیجئے۔ جدید ممالک میں یا ہمارے ملک میں بھی چند مہنگے نجی سکولوں میں تعلیمی نصاب عالمی سطح کا پڑھایا جا رہا ہے۔ تین سال کے بچے کو شروع سے ہی پروجیکٹس پر مبنی تعلیم دلائی جاتی ہے بلکہ تعلیم کی بجائے ایک ایسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے کہ جس میں وہ خود کو مطمئن محسوس کرتا ہے۔ اس کا خود سکول جانے کو دل کرتا ہے۔ یہ نہیں کہ جیسے ہمارے ہاں عام ہوتا ہے کہ بچے سکول بیزاری سے جاتے ہیں اور تعلیم کو ایک سزا تصور کرتے ہیں۔ تعلیم کا فائدہ بچے کو تب ہو گا جب وہ اسے اس طرح حاصل کرنے کی کوشش کرے گا جیسے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے کیلئے انتہائی خوشی‘ شوق اور نکھرے جذبات کے ساتھ نکلتا ہے۔ کیا آپ نے کوئی بچہ ایسا دیکھا ہے جسے چاکلیٹ دی جائے اور اس نے منہ بسور لیا ہو۔ بچے‘ اساتذہ اور سکول کی اصل کامیابی بھی تبھی ہوتی ہے کہ جب بچے کو کتاب پڑھنے یا سکول جانے کو کہا جائے تو اس کے چہرے پر وہی خوشی آئے جو وہ چاکلیٹ کو دیکھ کر اور ساتھیوں کے ساتھ کھیل کر حاصل کرتا ہے۔ زبردستی کرکے نہ آپ کسی کو پڑھا سکتے ہیں نہ اس میں وہ جذبات پیدا کر سکتے ہیں جو آگے بڑھنے اور کامیابی کیلئے ضروری ہوتے ہے۔ بچوں کی اپنی پسند کیا ہے‘ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں‘ کس مضمون میں زیادہ اچھے ہیں اور کن نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں‘ یہ تمام چیزیں طے کرتی ہیں کہ بچے نے بڑے ہو کر کیا بننا ہے۔ جو بچہ بہت زیادہ چپ رہتا ہو وہ آپ کے جبر اور خواہش سے بہت اچھا مقرر تب تک نہیں بن سکتا جب تک اسے خود یہ کام دلچسپ نہ لگے۔ زیادہ خاموش رہنے والے بچے مشاہدے میں دیگر بچوں سے زیادہ تیز ہوتے ہیں۔ وہ حالات اور واقعات کا بہتر انداز میں تجزیہ کرسکتے ہیں۔ کچھ بچے حساب کتاب میں بہت تیز ہوتے ہیں وہ بہترین چارٹرڈ اکائونٹنٹ بن سکتے ہیں لیکن آپ اگر انہیں زبردستی ڈاکٹر بنانے کی کوشش کریں گے تو کام خراب ہو جائے گا۔ نہ وہ اچھا ڈاکٹر بن سکے گا نہ اچھا انسان۔ باقی رہی نصاب کی بات تو وہ ملک میں اتنے زیادہ چل رہے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ہر سکول سسٹم ہر ضلعے اور ہر صوبے کا اپنا نصاب ہے۔ سرکاری سکولوں میں اب کوئی جاتا نہیں سوائے غریب کے بچے کے۔ نجی سکولوں کی فیسیں آسمانوں پر ہیں۔ بعض غیرملکی سکول تو کے جی کلاس کے بچے کا ماہانہ پچاس ہزار روپے بھی وصول کر رہے ہیں۔ والدین کیلئے ان کے بچے ہی سب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ وہ اچھا پڑھ جائیں اچھی جاب پر لگ جائیں یہ ان کی بنیادی خواہش ہوتی ہے لیکن آج کے دور میں کسی بھی اچھے نجی سکول میں دو بچے پڑھانے کا مطلب ماہانہ چالیس پچاس ہزار روپے کا خرچہ ہے۔ دوسری جانب مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔ ڈالر کی اڑان نے ان چیزوں کو بھی آگ لگا دی جو مقامی ہیں۔ سفر کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ آئے روز بجلی گیس و دیگر کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں والدین کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی محدود تنخواہ میں بچوں کو اچھی تعلیم دلائیں یا گھر کا کچن‘ یوٹیلٹی بلز اور دیگر اخراجات کریں اور ان ساری چیزوں کے بعد جب تعلیمی نصاب بھی ایسا ہو جو ان کے بچوں کو رٹو طوطے بنا رہا ہو اور جو عملی زندگی میں چیلنجز کا مقابلہ ہی نہ کر سکے تو ان کی پریشانی اور بڑھ جاتی ہے۔ ایجوکیشنل اور کیریئر پلاننگ میں رہنمائی کے حوالے سے سکولوں اور کالجوں میں اگر شعبے بنا دئیے جائیں تو طلبہ اور والدین کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ چونکہ اب نئی نسل موبائل فون کی زبان بہتر سمجھتی ہے اس لئے ایسی موبائل ایپ بنائی جانی چاہئیں جن میں شامل کوئز وغیرہ کے ذریعے طلبا کے تعلیمی اور کیریئر رجحان کا پتہ چلایا جا سکے۔