میرا اور ان کی عمر کا فرق 53برس کا تھا‘ لیکن آپ حیران ہوں گے میں کالج یونیورسٹی کے زمانے میں اپنے دو دو ستوں کو گاڑی میں پیچھے بٹھاتا ‘ آگے نانا جی بیٹھتے اور ہم مری کی سیر کو روانہ ہو جاتے۔ ہمارا یہ پروگرام اتنا اچانک بنتا کہ سوائے دو جوڑے کپڑے رکھنے کے کسی کو فرصت نہ ملتی۔ عمر کے اتنے فرق کے باوجود ہمیں کبھی نہ لگتا کہ ہم کسی بزرگ کے ساتھ سفر کر رہے ہیں۔ ہم لطیفوں سے پھوٹنے والے قہقہوں پر لڑکوں کی طرح ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے‘ وہ ہمیں بچپن اور جوانی کے یادگار اور دلچسپ قصے سناتے اور ہم ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ جاتے۔ شاید ان کی خوش کن طبیعت کے پیچھے بے شمار غم پنہاں تھے‘ جنہیں چھپانے کیلئے وہ مزاح کا سہارا لیتے ۔ خدا نے انہیں بیٹے بھی دئیے‘ لیکن چند برس میں ہی فوت ہو گئے‘ صرف ایک بیٹی رہیں جو میری والدہ تھیں۔ اتنے دکھوں کے باوجود 97برسوں میں کبھی ان کی زبان پر ناشکری کے الفاظ نہیں آئے۔ صرف علم ہی نہیں غیر نصابی سرگرمیوں سے بھی جنون کی حد تک محبت تھی۔ 1938ء میں تیز دوڑنے سے لے کر ہیمر تھرو تک کے کالج مقابلوں میں اول پوزیشنیں‘ تعریفی اسناد جن کی آج بھی الماری میں جگمگا رہی ہیں۔عالم دین بھی تھے‘مصنف بھی‘ شاعربھی‘طبیب بھی‘ثالث بھی‘ مزاح نگار‘ماہرلسانیات بھی‘تاریخ دان بھی‘ کھلاڑی بھی اور ورسٹائل شخصیت رکھنے والے بہترین منتظم بھی ‘لیکن اتنی خداداد صلاحیتوں کے باوجود درویشی کی زندگی کو فوقیت دی ۔ 1923ء میں نانا جان چودھری غلام حسین کا شروع ہونے والا ایک صدی کا یہ تابناک سفر گزشتہ منگل21جنوری کو تمام ہوا۔
وہ کیا تھے میں کیا بتائوں‘ ان کی خود نوشت سرگزشت کے کچھ اقتباسات ان کا تعارف زیادہ بہتر کرا سکتے ہیں۔ لکھتے ہیں ''خودنوشت سوانح عام طور سے بڑے آدمیوں کا کام ہوتا ہے۔ انہیں اپنی ڈائری لکھنے کی بھی عادت ہوتی ہے۔ اس ڈائری کی مدد سے اور کچھ اپنے حافظے کی مدد سے بوقت ضرورت وہ اپنی سوانح معرض تحریر میں لے آتے ہیں‘ مگر افسوس کہ میرے پاس یہ دونوں چیزیں موجود نہیں ہیں۔ ادیبوں‘ صحافیوں اور اچھے مصنفین کے متعلق تو سمجھا جاتا ہے کہ جب لکھنے بیٹھتے ہیں تو وہ الفاظ کو منتخب نہیں کرتے‘ بلکہ الفاظ خود منتخب ہو کر نہایت ادب سے قطار بنا کر ان کے حضور آ کھڑے ہوتے ہیں اور نہایت سلیقے اور تیزی سے کاغذ پر جمتے جاتے ہیں اور میرا یہ حال ہے کہ جو الفاظ دماغ میں موجود ہوتے ہیں وہ بھی موقع پا کر ادھر اُدھر کھسک جاتے ہیں اور بعض اوقات ذہن کے دریچے سے جھانکتے رہتے ہیں ''صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں ''میں گائوں میں تقریباً دو سال رہا۔ گرمی ہو یا سردی ماشا اللہ پانچ وقت کی نماز مسجد میں جا کر پڑھتے۔ باقی وقت زیادہ توجہ پڑھائی کی طرف دیتے تھے‘ کبھی کبھار گلی ڈنڈا بھی کھیل لیتے تھے‘ ہم نے ہل اور کنواں چلانے کیلئے ایک اونٹ اور چار بیل رکھے ہوئے تھے۔ اونٹ سواری کیلئے بھی استعمال ہوتا تھا‘ وہاں لوگوں سے سنا ہوا تھا کہ اونٹ سے کوئی آدمی گر جائے تو اونٹ ''بسم اللہ‘‘ پڑھتا ہے یعنی ''خیر اللہ کی‘‘ اس طرح گرنے والے کو چوٹ نہیں لگتی تھی‘ گدھے سے کوئی گر جاتا ہے تو وہ بددعا دیتا ہے اور گرنے والے کو چوٹ ضرور لگتی ہے‘ میں نے ان دونوں چیزوں کی تصدیق ہوتی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ ہمارے گائوںکے بڑھئی کا لڑکا محمد شریف اپنے گدھے پر ہمارے کنوئیں سے اس کیلئے چارا لینے گیا ‘ واپسی پر راستے میں گدھے نے بھاگنا شروع کر دیا محمد شریف چارے سمیت اس پر سوار تھا اس نے اس کی باگیں بہت کھینچیں ‘مگر وہ تیز ہی ہوتا گیا اور محمد شریف پیچھے کو کھسکنا شروع ہو گیا یہاں تک کہ نیچے گر گیا۔ عین اس وقت کمبخت گدھے نے زور سے دولتی چلائی جو اس کی پیشانی پر لگی اور اس سے خون کا ایک فوارہ چھوٹا اور محمد شریف کی چیخیں نکل گئیں۔ چارا اور محمد شریف وہاںگرے پڑے ہیں اور گدھا دوڑتا ہوا گائوں پہنچ گیا۔ ''گدھا کہیں کا‘‘۔ میرے تو یہ دیکھنے کی بات ہے‘ مگر ہمارے عزیز جناب اسد اللہ غالب کے دوست اور مشہور ادیب و مزاح نگار جناب مشکور حسین یاد ؔکو خود اس کا تجربہ بھی ہوا‘وہ اپنی کتاب ''لاحول ولا قوۃ‘‘ کے صفحہ 176 پر رقمطراز ہیں: آپ میری طبیعت کو جانتے ہی ہیں اپنے گائوں گیا ہوا تھا ‘جی میں آئی کہ کسی نوخیز گدھے کی سواری کی جائے؛ چنانچہ ایک بچہ خچر پکڑا اور اس پر سوار ہو گیا ‘لیکن تھوڑی دور چلا تھا کہ ظالم نے گرا دیا اور پھر چلتے ہوئے ایک لات بھی رسید کر دی اور ادھر میری کھوپڑی پر ٹن کی آواز گونجی ادھر دن میں تارے نظر آ گئے اور اس دن سے میں دن میں تارے نظر آنے کا قائل ہو گیا‘‘۔
ریلوے میں ملازمت کا ایک دلچسپ واقعہ بھی سن لیجئے ''یہ میری بطور ریل گارڈ ملازمت کا آخری واقعہ ثابت ہوا۔ ایک رات جب میں گاڑی چھوڑ کر اپنے کوارٹر میں آیا تو نماز فجر میں تقریباً آدھ گھنٹہ تھا‘ سوتا تو نماز قضا ہونے کا خطرہ تھا قبل از وقت نماز بھی نہیں پڑ سکتا تھا۔ آخر پتلون اور جوتوں سمیت ٹیڑھا سا ہو کر لیٹ گیا‘ تاکہ نیند نہ آئے اور نماز پڑھ کر سوئوں۔ ساری رات کا جاگنا اور تھکاوٹ‘ لیٹتے ہی نیند غالب آ گئی‘ نیند کے دوران ہی میں جوتے وغیرہ اتار کر بستر میں سیدھا ہو گیا‘ معلوم نہیں کب تک سویا رہا بہرحال جب اٹھا باہر نکل کر دیکھا تو ہلکی ہلکی دھوپ تھی‘ سردی سی محسوس ہوئی تو میں کرسی لیکر دھوپ میں بیٹھ گیا اس خیال سے کہ ذرا دھوپ اونچی ہو اور سردی کم ہو تو رننگ روم میں جا کر نہا دھو کر نمازِ فجر پڑھتا ہوں اور ناشتہ کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد سردی زیادہ ہونے لگی میں نے گھڑی پر دیکھا چھ بجے تھے میں سمجھا کہ گھڑی کھڑی ہو گئی ہے‘ کیونکہ اس وقت آٹھ نو بجے کا وقت ہونا چاہیے تھا میں نے ساتھ والے کوارٹر کی کھڑکی سے اندر جھانکا تو وہاں پر بھی چھ بجے تھے‘ میں نے کہا کہ ساری گھڑیوں کو کچھ ہو گیا ہے‘ پھر اچانک مجھے خیال آیا سورج کو تو دیکھوں دیکھا تو سورج مغرب میں نیچے کو جا رہا تھا‘ بہت افسوس ہوا پھر خوب ہنسی آئی جیسا کہ مجھے ان موقعوں پر آیا کرتی ہے۔مجھے ایک نماز فجر کی فکر تھی اب فجر‘ ظہر‘ عصر تینوں نمازیں قضا ہو چکی تھیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ ایسے موقعوں پر ہنسی آنے کی وجہ ایک شاعر نے اس طرح بیان کی ہے۔؎
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
مغرب کی نماز کے بعد میں نے استعفیٰ لکھا اور اسٹیشن ماسٹر کی میز پر رکھ کر رات کی گاڑی سے لاہور آ گیا ‘‘۔
جیسا کہ اوپر انہوں نے بتایا کہ نمازیں قضا ہوئیں تو انہوں نے ایسی نوکری کو لات ماری اور گورنمنٹ کالج راولپنڈی اور بعد ازاں گوجرانوالہ میں چیف لائبریرین تعینات ہوئے۔ 15 جولائی 1983ء کو 30 سال سروس کرنے کے بعد 60 سال کی عمر میں نظامتِ تعلیمات کالجز پنجاب لاہور سے ریٹائر ہوئے اور تلونڈی گائوں میں جا کر قیام پذیر ہوگئے۔ یونین کونسل کے وائس چیئرمین بنے۔ صدر ضیا الحق نے انہیں نظامِ صلوٰۃ کا مرکزی کوآرڈینیٹر مقرر کیا‘پھرمسجد بنائی‘ ورزش کیلئے اوپن جم بنایا اور دیرینہ ساتھی مولانا معین الدین لکھوی کے ساتھ مل کر دین کی تبلیغ کا کام کرنے لگے۔ مجھے ان کی الماری سے ایک کتاب ''صحت اور غذا‘‘ ملی۔ یہ کتاب پچاس کی دہائی میں شائع ہوئی۔ وہ اس کتاب پر گزشتہ ستر اسی برس سے عمل کر رہے تھے۔ اس کتاب میں بڑھاپا صحت مند انداز میں گزارنے کے بہترین اصول موجود ہیں۔ وہ بڑھاپے کے مسائل سے پیشگی آگاہ تھے اس لیے سختی سے صحت کے اصولوں پر عمل کرتے رہے۔ کھانے کا وقت نہ ہوتا تو ایک لقمہ نہ لیتے۔ ضرورت سے زیادہ نہ کھاتے۔ زود ہضم غذاپسند کرتے۔ کبھی فارغ نہ بیٹھتے۔ ہروقت کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے۔ سینکڑوں بچوں بچیوں کو قرآن پڑھایا‘ دور دراز سے بیمار لوگ اُن سے دَم کروانے آتے‘ وقت پر حج کر لیا‘ تین کتابیں لکھیں‘ ہر سال اعتکاف بیٹھتے‘ خاموشی سے صدقات و خیرات کرتے رہتے۔ غرض دینی او ر دنیاوی اعتبار سے بھرپور ‘صحتمند‘ اور آئیڈیل زندگی گزاری جو آج کی نسل کیلئے کسی سنہرے خواب سے کم نہیں۔ خدا سب کو ایسی بھرپور زندگی سے نوازے۔ آمین!