اگر آپ خدانخواستہ رات کو اچھی طرح سو نہیں سکتے‘ کم خوابی کا شکار ہیں یا چند گھنٹے کی نیند لینے کے لئے بھی خواب آور دوائوں کی ضرورت پڑتی ہے تو یقینا آپ کے جسمانی نظام کے اندر کوئی خرابی موجود ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ رات بھر سو لینے کے باوجود تازگی اور آسودگی محسوس نہیں کرتے تو یقین کیجئے آپ کی جسمانی یا نفسیاتی ساختِ ترکیبی میں ضرور کوئی نہ کوئی خامی موجود ہے۔
گزشتہ دنوں نانا جان کچھ دن ہسپتال داخل رہے تو وہاں روزانہ بے انتہا مریضوں کی آمد اور ان کی حالت دیکھ کر یہی حقیقت سمجھ آئی کہ واقعی تندرستی ہزار نعمت ہے۔ یہ ہو تو اس کی اہمیت کا اس طرح احساس نہیں ہوتا اور اگر چھن جائے تو دنیا کی تمام نعمتیں ہیچ دکھائی دیتی ہیں۔ نانا جان کی الماری سے صحت اور غذا کے عنوان سے چالیس پچاس برس پرانی کتاب ملی جس کے اصولوں پر آج بھی عمل کیا جائے تو نہ صرف بیماریوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے بلکہ ان کی طرح صحتمند طویل عمر بھی پائی جا سکتی ہے۔ مصنف کے مطابق اچھی صحت کی ماہرین یوں تعریف کرتے ہیں‘ جس میں آپ زندگی سے لطف اندوز ہوں‘ خوش اور مسرور ہوں اور آرام و استراحت کے وقت اپنے افکاروآلام کو نظر انداز کر سکیں اور سوتے جاگتے ان سے مغلوب نہ رہیں؛ تاہم ہم دیکھتے ہیں لوگ اپنے موبائل‘ اپنے لیپ ٹاپ اور اپنی گاڑی کا جتنا خیال رکھتے ہیں اتنا اپنے جسم کا نہیں رکھتے۔ اگر آپ قبل از وقت بڑھاپے سے بچنا چاہتے ہیں تو چلتے پھرتے رہیے‘ اچھی خوراک کھائیے اور سگریٹ نوشی سے دور رہیے۔ یہ وہ سیدھا سادہ نسخہ ہے جو عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔ متوسط عمر اور معمر اشخاص کے لئے ورزش اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ نوجوانوں کے لئے۔ ہر شخص کو اپنی جسمانی قوت کے مطابق ورزش کرنی چاہیے۔ عالمی ادارہ صحت نے جسمانی اور دماغی صحت کیلئے کام کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ کام سے انسان میں جوانی رہتی ہے اور بڑھاپا آنے کی رفتار کم ہو جاتی ہے لیکن کام آدمی کی صلاحیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ سب سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ انسان میں حسِ ظرافت برقرار رہنی چاہیے۔ خوش رہنا چاہیے۔ باتیں سننا اور قہقہے لگانے چاہئیں۔ زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔ مردہ دلی بڑھاپے سے بھی بدتر ہے اس لئے زندہ دلی کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا چاہیے۔ بڑی عمر میں آنتوں کے فعل کی سستی کیلئے لوگ دوائیں تلاش کرتے ہیں۔ قبض کا بہترین علاج ورزش ہے۔ یہ کم خرچ ہی نہیں بلکہ بے خرچ اور بالانشیں ہے۔ بہت سے لوگ جن تکالیف کو بڑھاپے سے منسوب کرتے ہیں وہ دراصل ورزش نہ کرنے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ایک کہاوت ہے کہ تم اتنے ہی بوڑھے ہو جتنا بوڑھا اپنے آپ کو خیال کرتے ہو۔
ماہرین کے مطابق اچھی صحت برقرار رکھنا کچھ مشکل کام نہیں۔ اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ اس مقصد کیلئے اچھے اصولوں کو اپنانا ایک بالکل ہی آسان عادت ہے۔ اچھی صحت قائم رکھنے کے چار اصول بیان کئے گئے ہیں۔ صفائی اور ستھرے پن کی عادت‘ ورزش‘ متوازن خوراک اور مناسب مقدار میں نیند۔ ان چاروں نکات پر توجہ دینے سے کوئی بھی شخص زندگی کا زیادہ سے زیادہ لطف اٹھا سکتا ہے۔ روزانہ غسل کرنا صحت مند رہنے کا آزمودہ اور پہلا نسخہ ہے۔ دوسرا اصول ورزش ہے جو ہر اس شخص کے لیے ضروری ہے جو اپنی صحت اچھی رکھنا چاہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کھانا کھانے کے دو یا تین گھنٹے کے بعد ورزش کرنی چاہیے۔ اچھی صحت کیلئے متوازن خوراک بھی ضروری ہے۔ بہت سے لوگ بہت زیادہ اور بہت تیز تیز کھاتے ہیں۔ یہ طریقہ صحیح نہیں۔ غذا آہستہ آہستہ کھائی جائے تاکہ وہ معدے میں پہنچ کر اچھی طرح ہضم ہو سکے۔ کافی مقدار میں سبزی اور موٹا اناج یا موٹے آٹے کی روٹی کھانی چاہیے۔ غذا میں پروٹین والی اشیا جیسے گوشت وغیرہ بھی مناسب مقدار میں استعمال کرنی چاہئیں۔ چوتھا اصول مناسب نیند ہے۔ ہماری پوری زندگی میں سے ایک تہائی نیند میں گزرتی ہے۔ بستر اور سونے کا ماحول مناسب ہو تو بے خوابی کے مریضوں کو بھی نیند آ جاتی ہے۔ سوتے وقت موبائل فون کو کمرے میں نہیں رکھنا چاہیے۔ صرف کوئی کتاب پاس رکھ لیں اور چند صفحات پڑھ کر سو جائیں۔ مستند ماہرینِ طب کا دعویٰ ہے کہ اگر ہم اپنی غذا کو دودھ اور سبزی تک محدود کر دیں تو بیماریاں بڑی حد تک کم ہو جائیں گی۔ یہ اور بات ہے کہ اب خالص دودھ حتیٰ کہ خالص سبزیاں بھی نایاب ہو چکی ہیں۔ سبزیوں کی جہاں تک بات ہے تو وہ گھروں میں بھی اگائی جا سکتی ہیں۔ کچن گارڈننگ کا تصویر دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ گھروں کی چھتوں پر جگہ کو اس مقصد کیلئے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ غذا کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ جسم شکر اور نشاستہ دار غذائوں کو بہت جلد جذب کر لیتا ہے؛ چنانچہ اگر آپ صرف دلیہ اور اناج دار غذائوں سے ناشتہ کریں گے تو دوپہر سے بہت پہلے ہی بھوک محسوس ہونا شروع ہو جائے گی‘ لیکن اگر صبح کے ناشتہ میں پروٹین والی غذائیں جیسے انڈے‘ دودھ اور گوشت استعمال کریں گے تو دیر گئے دوپہر تک بھوک لگنا شروع ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پروٹین اور چربی معدے میں زیادہ دیر تک ٹھہری رہتی ہے جس سے احساس طمانیت دیرپا ہوتا ہے۔ اعضائے ہضم میں سب سے زیادہ قابل غور معدہ ہے۔ اگر معدے کا فعل اعتدال پر ہے تو تمام جسم کی حالت بہتر رہتی ہے اور اگر معدہ اپنا فعل اچھی طرح ادا نہ کرے تو جسم بیماریوں میں مبتلا ہو سکتا ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ معدہ بیماریوں کا گھر ہے اور سب سے بڑا علاج پرہیز ہے۔ ہاضمے کو تباہ کرنے والے بڑے اسباب میں نشہ آور اور مصالحے دار چٹ پٹی چیزوں کا بے جا استعمال ہے۔ غصہ‘ حسد اور غم و فکر میں مبتلا رہنے والے بھی معدہ خراب کر بیٹھتے ہیں۔ کھانے کے بعد شدید محنت و مشقت بھی نہیں کرنی چاہیے۔ کھانے کے فوراً بعد سونا اور کھانا ہضم ہونے سے پہلے ہی کچھ کھا لینا بھی معدے کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگوں کو نئے نئے ریسٹورنٹ دریافت کرنے اور طرح طرح کے کھانے کھانے کی عادت ہوتی ہے۔ بعض لوگ اسے سٹیٹس سمبل خیال کرتے ہیں اور ہفتے میں ایک دو مرتبہ باہر کھانا کھا کر فیس بک پر تصویریں اپ لوڈ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ بازار کے کھانے کتنے ہی مزیدار اور بظاہر خوش نما ہوں صفائی اور تازگی کے حوالے سے گھر کے کھانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ گھر کے مقابلے میں بازاری کھانوں کو ترجیح دینا اپنی صحت کے ساتھ سراسر دشمنی کے مترادف ہے۔ اس طرح بہت سے لوگوں کے بال قبل از وقت گر جاتے ہیں یا سفید ہو جاتے ہیں تو اس کی بھی بنیادی وجہ غذائی ضروریات سے لاپروائی اور غم و فکر کی زیادتی ہے۔ جو لوگ بہت زیادہ سوچتے ہیں وہ بھی وقت سے پہلے بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں‘ جو کچھ انسان کے اختیار میں نہیں‘ اس کے بارے میں پریشان ہونا مناسب نہیں۔ جو چیز اختیار سے باہر ہے اس کے بارے میں سوچنا بے وقوفی ہے۔ مثلاً اس بات پر پریشان ہونا کہ آج سورج نہیں نکلا آج دھوپ نہیں‘ بالکل بے تُکی سی بات ہے۔ بارش طوفان‘ اچانک جانی و مالی نقصان اور اس طرح کے معاملات جن پر انسان قدرت نہیں رکھتا انہیں خدا پر چھوڑ دینا چاہیے۔ توجہ صرف اس پر دینی چاہیے جس کام کا انسان کے پاس اختیار اور طاقت ہے۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے انبار کی ایک اور وجہ یہ لائف سٹائل ہے جس نے ہر گھر میں بیماریوں کی فصل کھڑی کر دی ہے۔ صاف پانی کا نہ ملنا ہیپاٹائٹس جیسی بیماریوں کو بڑھانے اور اس سے گردوں اور جگر کی خرابیوں کو بڑھا رہا ہے۔ ڈائلیسز کے مریضوں کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ہسپتالوں میں جگہ اور آلات محدود ہیں۔ ہسپتال کی تعداد بڑھانی چاہئے لیکن لوگوں کو اچھی صحت کے اصولوں کے بارے میں آگاہی خود بھی لینی چاہیے۔ آج کل موبائل کا دور ہے۔ کتابیں خریدنا اور پڑھنا اگر مشکل ہے تو انٹرنیٹ اور یوٹیوب میں صحت کے حوالے سے کچھ بھی لکھ کر دیکھ لیں‘ آپ کو درجنوں ویڈیوز مل جائیں گی جن کے ذریعے آپ خود کو اور اہل خانہ کو بیماریوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ سادہ غذا اور سادہ زندگی بھی اچھی صحت اور خوشیوں بھری زندگی کا ایک سادہ سا نسخہ ہے جس پر عمل کرکے خوش و خرم زندگی بسر ہو سکتی ہے۔