''امریکہ میں حالیہ کچھ عرصہ میں مہنگائی کے باعث شہریوں کے خود کشی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے۔ امریکہ کے طبی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق 2008ء اور 2010ء کے دوران ہر ایک لاکھ افراد میں سے 12 افراد نے خودکشی کی۔ امریکہ کے محکمہ روزگار کی طرف سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق‘ اس کے باوجود بیروزگاری کی شرح بڑھ کر سات اعشاریہ نو فیصد ہو گئی ہے، جو ستمبر کے مہینے میں سات اعشاریہ آٹھ فیصد تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکتوبر میں زیادہ لوگوں نے نوکری ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔ امریکہ میں صرف انہی لوگوں کو بیروزگار سمجھا جاتا ہے جو سرگرمی سے نوکری ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔
یہ خبر آج سے ٹھیک دس برس قبل شائع ہوئی تھی مگر کم ہی لوگ ایسی خبروں پر یقین کرتے ہیں کہ امریکہ میں بھی مہنگائی ہو سکتی ہے اور وہاں بھی لوگ اس سے تنگ آ کر خودکشیاں کر سکتے ہیں۔ امریکہ کے بارے میں ان کے ذہن میں پہلا خیال یہ آتا ہے کہ یہ امریکی اور غیرملکی عوام کے لئے جنت سے کم نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی امریکہ کو گالیاں دیتا ہے لیکن امریکہ کا ویزا بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے ہاں عوام کا ایک مخصوص گروپ مسلسل برین واشنگ کر رہا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی ذمہ دار ہماری حکومتیں ہیں اور یہ چاہیں تو مہنگائی ایک دن میں ختم ہو جائے۔ مجھے یاد ہے یوسف رضا گیلانی جب وزیراعظم تھے تو لاہور میں سیون اپ پھاٹک کے سامنے ریل کی پٹری پر بشریٰ نامی خاتون دو بچوں سمیت ٹرین کے نیچے آ گئی تھی۔ اس کے بارے میں بھی ایسی ہی خبریں سامنے آئیں کہ اس نے مہنگائی کی وجہ سے خودکشی کی۔ آج آپ کسی بھی بندے سے پوچھیں تو وہ یہی کہے گا کہ گزشتہ دور حکومت بڑا اچھا تھا‘ تب مہنگائی بہت کم تھی‘ اب تو گزارہ ہی نہیں ہوتا‘ تنخواہ آدھی رہ گئی ہے اور اخراجات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں بھی مگر ہر طرف یہی شوروغوغا تھا کہ حکمران سب کچھ بیچ کر کھا گئے۔ قرض لے لے کر ملک کو ایم آئی ایف کے سامنے گروی رکھ دیا۔ لندن میں فلیٹس بنا لئے۔ آف شور کمپنیوں میں جا کر پاکستانی عوام کی لوٹی ہوئی ساری دولت چھپا دی وغیرہ وغیرہ۔ اگر وہ سب کچھ صحیح تھا تو پھر آج یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ سابق دور میں مہنگائی کم تھی۔ اگر مہنگائی کم تھی اور دور اچھا تھا تو اینکر اور صحافی تب یہ کیوں کہتے تھے کہ ملک دیوالیہ ہو گیا اور عوام بدحال ہو چکے ہیں۔ نواز شریف سے قبل زرداری حکومت تھی۔ تب بھی حکومت مخالف پروپیگنڈا بہت عروج پر ہوتا تھا۔ یہ اور بات کہ آصف علی زرداری بطور صدر اس طرح کے ٹارگٹڈ ایجنڈے کا نوٹس نہیں لیتے تھے اور صحافیوں اور میڈیا کی رپورٹوں پر سیخ پا نہیں ہوتے تھے۔ تب ملک میں کوئی بھی اکنامک ایکٹیوٹی ہوتی‘ تو یہ خبریں چلا دی جاتیں کہ انہوں نے اس میں سے کمیشن یا کک بیکس لی ہیں۔ حتیٰ کہ موبائل کے سو روپے کے کارڈ پر جو ٹیکس کٹتا‘ اسے بھی زرداری ٹیکس کا نام دے کر انہیں بدنام کیا جاتا۔ راجہ پرویز اشرف کے حوالے سے ہمارے جغادری تحقیقاتی صحافیوں نے کیسے کیسے سکینڈل نکالے لیکن آج تک راجہ صاحب کا بال تک بیکا نہیں ہو سکا۔ وہ سکینڈل جھوٹے تھے یا ایسے سکینڈلز کا فیصلہ کرنا ہمارے سسٹم کے بس کی بات نہیں یہ تو خدا جانتا ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ جیسے ہی زرداری صاحب کی حکومت کا دور مکمل ہوا اور نواز شریف صاحب الیکشن کے نتیجے میں وزیر اعظم بنے تو انہوں نے آتے ہی پاور کمپنیوں کو پانچ سو ارب روپے کا ریلیف دے دیا تھا۔ پھر کہیں تھوڑی بہت آٹے کی شارٹیج ہو گئی یا کوئی واقعہ ہو گیا تو نواز شریف کے خلاف یہ مہم شروع کر دی گئی کہ انہوں نے غریبوں کو چوسنا شروع کر دیا ہے۔ تب اسی پروپیگنڈا گروپ نے شور مچانا شروع کر دیا تھا کہ اس سے تو زرداری کا دورغریبوں کیلئے بہتر تھا۔ زرداری دور سے بھی پہلے مشرف دور میں چلے جائیں تو تب بھی یہی پروپیگنڈا گروپ سرگرم تھا‘ جو کسی حکومت کو چلنے نہیں دینا چاہتا اور عوام کا نام نہاد نمائندہ یا ٹھیکیدار بن کر من مانیاں کرتا ہے۔ اس نے مشرف دور کو بھی سیاہ دور قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ فردِ واحد کی حکومت‘ ڈکٹیٹر کی حکومت اور پتہ نہیں کیسے کیسے القابات کے ذریعے عوام میں صدر پرویز مشرف کے بارے میں نفرت پیدا کرنے اور فاصلے بڑھانے کی کوشش کی گئی۔ کچھ حلقوں نے یہ آواز اٹھائی کہ لوگ پرویز مشرف کا دور یاد کریں گے اور دعائیں دیں گے‘ لیکن پرویز مشرف کی وردی اور ان کے اقتدار پر جبری قبضے کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ایک منتخب جمہوری حکومت ہی عوام کے دکھ درد کا مداوا کر سکتی ہے‘ حالانکہ عوام کو اس بات سے کیا لینا دینا کہ ملک میں صدارتی نظام ہے یا کچھ اور۔ اگر انہیں ان کے حقوق مل رہے ہیں‘ ان کے حالات میں بہتری آ رہی ہے‘ ملکی معیشت میں استحکام آ رہا ہے‘ سڑکیں بن رہی ہیں‘ کسان خوشحال ہو رہا ہے تو ان کی بلا سے‘ ملک میں کون سا نظام چلے۔
میں نے آج کالم کا آغاز امریکہ میں مہنگائی سے خودکشیوں بارے ایک خبر سے کیا‘ جو دس برس پرانی ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ مہنگائی اور غربت صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں۔ اس کا سامنا دنیا کے پچانوے فیصد ممالک کو ماضی میں بھی تھا‘ آج بھی ہے اور کل بھی رہے گا۔ سوئٹرزلینڈ جیسے اکا دُکا ممالک کو چھوڑ کر دنیا کے دو سو ممالک کے عوام اپنی حکومتوں سے خوش نہیں ہیں۔ اگر کچھ ممالک اپنے عوام کو اچھی سہولتیں اور بنیادی حقوق مفت دے رہے ہیں تو بدلے میں بھاری بھرکم ٹیکس بھی لے رہے ہیں۔ یہ اتنے زیادہ ہیں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ صرف امریکہ یا کینیڈا جیسے ممالک میں آمدنی کا ساٹھ فیصد ٹیکس کٹوتی میں چلا جاتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے روزانہ دس سے بارہ گھنٹے کام بھی کرنا ہے تب جا کر مفت تعلیم یا ہسپتال جیسی چند سہولیات ملتی ہیں اور آپ پاکستان کی طرح نہ وقت ضائع کرنے کی عیاشی کر سکتے ہیں نہ فضول خرچی کا سوچ سکتے ہیں۔ ان جدید ممالک میں لاکھوں افراد ایسے ہیں جو روزانہ رات سڑکوں پر گزارتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ امریکی شہری نہیں یا ڈونلڈ ٹرمپ یا مقامی میڈیا کو ان کا علم نہیں۔ وہاں حکومت کے پاس الٰہ دین کا چراغ نہیں کہ سب کو نوکریاں‘ گھر‘ راشن اور مختلف قسم کی سہولیت مفت دے دے کیونکہ امریکہ کا سارا نظام ہی ٹیکسوں پر چل رہا ہے۔ ہمارے ہاں مگر ٹیکس دینے کو کوئی تیار نہیں اور اگر حکومت تھوڑا بہت ٹیکس بڑھا دے تو شوروغوغا کیا جاتا ہے۔ آپ مجھے امریکہ یا کینیڈا میں کوئی ایک ایسا گھر دکھا دیں جہاں گیس ہیٹر بیس بیس گھنٹے چل رہے ہوں اور وہاں بل بھی نہ آئے یا کم آئے۔ ہمارے ایک وزیر نے درست کہا کہ گیس کا گیزر ایک عیاشی ہے۔ آپ دنیا میں کہیں چلے جائیں آپ کو چوبیس گھنٹے گرم پانی سوائے ہوٹلوں کے کہیں نہیں ملے گا۔ سڑکوں اور گھروں میں گاڑیاں دھوتے وقت کہیں اتنا پانی نہیں ضائع کیا جاتا جتنا ہم کرتے ہیں۔ ہم صرف چیزیں اور وسائل ضائع کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت یہ چیزیں ہمیں مفت‘ بلا تاخیر اور مسلسل دیتی رہے اور بدلے میں نہ تو قیمت بڑھائے نہ ٹیکس کا کوئی سوال کرے۔ بدقسمتی سے وہی پروپیگنڈا گروپ جو گزشتہ بیس تیس برس سے کسی حکومت کو نہیں چلنے دے رہا‘ ایک بار پھر متحرک ہو چکا ہے۔ سوال یہ ہے اگر موجودہ دور میں مہنگائی بڑھ رہی ہے تو کیا اگلی حکومت آ کر قیمتوں کو ساٹھ کی دہائی میں واپس لے جائے گی؟ چنانچہ خاطر جمع رکھیں‘ حکومت کو کچھ وقت دیں اور حکمرانوں سے زیادہ اس پروپیگنڈا گروپ سے نجات کی دُعا کریں جو ہر دور میں اپنا ڈھول بجا کر توجہ سمیٹتا اور ملک کو دو قدم پیچھے لے جانے کا باعث بنتا رہا ہے۔