مسئلہ عورت مارچ کا نہیں بلکہ اس نعرے کا ہے جس کو لے کر یہ مارچ کروایا جاتا ہے۔ صرف جسم کو نعرے میں میری مرضی کے ساتھ منسلک کر نے سے یہ مارچ متنازعہ ہو گیا ہے۔ خواتین کو حقوق ملنے چاہئیں۔ اس سے کون انکار کرتا ہے۔ ویسے اس معاشرے میں مردوں کو بھی کون سے حقوق ملتے ہیں۔ چلیں اپنے ملک کو چھوڑیں امریکہ جیسے ملک کو دیکھ لیں جہاں آج بھی کالے مرد اور کالی عورت کو نیچ سمجھا جاتا ہے۔ اگر امریکہ جیسا جدید ملک آج بھی نسلی تضاد سے باہر نہیں آ سکا تو بھائی یہ پاکستان ہے۔ یہاں ان خواتین یا مردوں کو حقوق ملتے ہیں جن کے پاس سفارش‘ طاقت اور پیسہ ہوتا ہے۔ غریب اگر مرد ہے اور سامنے امیر عورت ہے‘ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہے تو غریب مرد کی کیا مجال کہ اس کے ساتھ چوں بھی کر سکے۔ باقی یہ عورت مرد کے حقوق والی باتیں ایسے ہی چلتی رہیں گے۔ مردوں کے ذہن اگر تبدیل ہونے والے ہیں تو خواتین کو بھی بہت کچھ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسائل اور غلط فہمیاں دونوں طرف ہیں۔ برابری والی بات سمجھ سے باہر ہے۔ چلیں عزت تو دونوں کو ایک دوسرے کی برابر کرنی چاہیے لیکن کہیں گاڑی کا ٹائر بدلنا پڑ جائے وہاں خواتین کیا کریں گی۔ کیا آپ نے آج تک زندگی میں کسی عورت کو گاڑی کا ٹائر بدلتے‘ مشقت بھرے کام کرتے دیکھا ہے۔ مشقت بھرے مزدوروں والے کام مرد ہی کر رہے ہیں۔ دیہات اور پہاڑی علاقوں کی عورتیں البتہ مردوں والے سخت کام بھی کرتی ہیں اور بچے بھی پالتی ہیں‘ لیکن کبھی گلہ نہیں کرتیں۔ جبکہ شہروں اور پوش علاقوں کی یہ عورتیں جو مرد سے آزادی یا برابری چاہتی ہیں انہوں نے کانا نہیں توڑا ہو گا۔ اگر جسم کی بات ہی کرنی ہے تو عورت اور مرد کے جسم کی بناوٹ اور کپیسٹی ہی مختلف ہے۔ اگر اس کا جسم اس کی مرضی پر چلتا ہے تو پھر اسے مردوں کے برابر نظر آنا چاہیے۔ ویسے یہ عورتیں ڈبل گیم کر رہی ہیں۔ یہ کہتی ہیں کہ جسم کے نعرے کا صرف جسم سے تعلق نہیں بلکہ ہم اصل میں عورتوں کو ان کے حقوق دلوانا چاہتی ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے کہ بھلے اس مارچ کا نام عورت مارچ رکھ لو لیکن اپنے نعرے میں جسم کو مرکزی حیثیت دینے کی پھر کیا ضرورت ہے؟ اس سے تو یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو صرف جسمانی پراڈکٹ کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے‘ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ یہاں عورت ماں‘ بہن‘ بیٹی‘ خالہ‘ پھوپھی وغیرہ جیسے رشتوں کی وجہ سے پہچانی اور مانی جاتی ہے جبکہ یہ عورتیں کہتی ہیں کہ ہم طلاق یافتہ ہیں اور ہم خوش ہیں۔ ہماری مرضی ہم شادی کریں نہ کریں بچے پیدا کریں نہ کریں۔ اس طرح کے نعروں کے بعد تو لامحالہ یہ شک یقین میں بدلنا ہی ہے کہ یہ مغرب کا ایجنڈا ہے جسے یہاں پھیلایا جا رہا ہے۔
گھروں میں بزرگوں کا ہونا برکت اور سکون کی علامت سمجھا جاتا ہے جبکہ مغرب کا آپ مجھے کوئی ایک گھر دکھا دیں جہاں بزرگوں کو گھروں میں رکھ کر ان کی عزت کی جاتی ہو‘ ان کا خیال رکھا جاتا ہو اور ان کی خدمت کی جاتی ہو؟ یہ عورتیں جس قسم کی آزادی مانگ رہی ہیں وہ دراصل ایک ایسی تنہائی ہے جس میں انسان پل پل جیتا اور پل پل مرتا ہے۔ اگر ایک عورت شادی نہیں کرنا چاہتی یا طلاق لے کر بیٹھ جاتی ہے اور اپنے گھر میں بھی نہیں رہتی‘ کسی فلیٹ میں مقیم ہو جاتی ہے تو یہی عورتیں بتائیں ان کی کیا زندگی ہو گی۔ ہر وقت اکیلا پن۔ نہ گھر میں بچوں کی چہچہاہٹ نہ رشتہ داروں کا آنا جانا۔ نہ خاندانی رسموں اور رواج کی روایات اور نہ خوشی غمی میں ایک دوسرے سے ملنا جلنا۔ ایسی عورت زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتی ہے؟ صرف ٹی وی کا ریموٹ پکڑ کر چینل بدل سکتی ہے‘ نئی نئی فلمیں دیکھ سکتی ہے لیکن کتنی دیر؟ فلمیں ڈرامے دیکھنے کا مزا بھی گھر والوں کے ساتھ آتا ہے۔ تنہائی میں ٹی وی دیکھنے میں انسان خود کو اور بھی تنہا محسوس کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اکیلی عورت کیا کر لے گی؟ نوکری پر چلی جائے گی۔ وہاں سے واپس آئے گی تو کھانا کہاں سے کھائے گی؟ خود بنائے گی یا بازار سے کھائے گی؟ بازار سے روز روز تو نہیں کھایا جاتا جبکہ ایسی عورتیں تو زیادہ تر خود کھانا بنانا جانتی ہی نہیں۔ وہ ریڈی میڈ قسم کی زندگی چاہتی ہیں جس میں آرڈر کرو اور ہوم ڈلیوری سروس سے چیزیں ملتی جائیں۔ یہ عورتیں شاید سمجھتی ہیں کہ زندگی صرف صبح اٹھ کر کام پر جانے اور شام سے رات گئے تک پارٹیاں کرنے کا نام ہے۔ دوسری طرف ایک شادی شدہ جوڑے کی زندگی کا آغاز شرعی انداز میں ہوتا ہے۔ اس بندھن کی وجہ سے دو خاندان ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ سب ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں۔ شادی کے بعد بچے ہوں تو ان کی خوشیوں اور کلکاریوں سے گھر کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔ اب بچے کی پیدائش کیلئے بھی خدا نے عورت کا جسم بنایا۔ وہ چاہتا تو یہ ذمہ داری مرد کو سونپ دیتا۔ عورت کو یہ ذمہ داری دے کر اس نے عورت کا مقام و مرتبہ تین گنا بڑھا دیا۔ جس طرح وہ حمل کو سنبھالتی اور مشکلات سے گزرتی ہے اس پر وہ خدا کی طرف سے بڑے انعام کی حقدار ٹھہرتی ہے۔ اب اگر یہ دس بیس عورتیں اٹھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم نے بچہ نہیں پیدا کرنا تو یہ سیدھا سیدھا خدائی قوانین سے جنگ کرنے والی بات ہو گی۔ اگر یہ خواتین یہ کہنا چاہتی ہیں کہ مرد بچے پیدا کرنے کے حوالے سے ان کی رائے نہیں لیتے یا دو بچوں کے دوران مناسب وقفہ ہونا چاہیے تو یہاں تک تو ان کا مطالبہ درست ہے لیکن یہ معاملات بھی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر اسی طرح طے کئے جا سکتے ہیں جس طرح کہ دیگر مسائل۔ لیکن اگر ایک عورت کہتی ہے کہ میں نے پہلے دس سال بچہ پیدا نہیں کرنا تو پھر شوہر کا پارہ چڑھنا ہی ہے۔ ویسے اللہ معاف فرمائے یہاں یہ کلچر شروع ہو چکا ہے اور بہت سے جوڑے اس لئے ابتدا میں اولاد نہیں لیتے کہ انہوں نے زندگی کو انجوائے کرنا ہوتا ہے۔ دنیا دیکھنا ہوتی ہے۔ ان سے کوئی پوچھے کہ دنیا بچوں کو ساتھ لے کر نہیں دیکھی جا سکتی۔ دوسرا یہ کہ انہیں یہ کیسے یقین ہوتا ہے کہ پانچ چھ سال بعد وہ جب چاہیں گے بچہ پیدا ہو جائے گا جبکہ اس میں صرف خدا کی مرضی چلتی ہے۔ ایسی عورتوں کو مردوں کے ساتھ ساتھ بچوں سے بھی دشمنی ہے اور ان کے کئی نعرے اس بات کے غماز ہیں۔
جس طبقے کی یہ دس بیس عورتیں شور مچا رہی ہیں ان کے ہاں بچوں کو پالنے کے لئے گھر میں چار چار ملازمائیں رکھی جاتی ہیں۔ وہی ان کو فیڈر سے دودھ پلاتی ہیں‘ وہی پیمپر کپڑے بدلتی ہیں وہی ان کے ساتھ باتیں کرتی ہیں۔ اس طرح کی جدید مائیں تو اپنے بچوں کو وقت دینے کو بھی تیار نہیں ہوتیں اور ایسی ہی خواتین کے گھروں سے یہ خبریں آتی ہیں کہ گھر میں ملازمہ کا سر پھاڑ دیا یا حبس بے جا میں رکھا۔ یہی عورتیں ہوٹل میں جاتی ہیں تو ان ملازمائوں کو اسی میز پر بھوکا بٹھائے رکھتی ہیں۔ یہ عورتیں سوائے اپنی ذات کے کسی کو کچھ سمجھنے کو تیار نہیں۔ ان کے پلانٹڈ ایجنڈے کا سب سے بڑا ثبوت ان کے وہ پلے کارڈز ہیں جو انہوں نے گزشتہ برس آٹھ مارچ کو اٹھا رکھے تھے۔ ان پر ایسے ایسے بیہودہ اور طنزیہ جملے درج تھے جن کا خواتین کے حقوق سے کوئی لینا دینا نہ تھا۔ ان نعروں سے درحقیقت دین اسلام کی مخالفت کی بُو آ رہی تھی کیونکہ جب انسان قدرت کو چیلنج کرنا شروع کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ شعائر اسلامی کا مذاق اڑاتا ہے۔ ایک ایسا جسم جس کے ایک خلیے کا بھی وہ مالک نہیں اسے اپنے مرضی کے استعمال میں لانے کا اعلان کرتا ہے۔ آخر بیٹھے بٹھائے انہیں سال بعد ہو کیا جاتا ہے کہ یہ کبھی عافیہ صدیقی یا کشمیری خواتین کے حق میں تو منہ سے ایک لفظ نہیں نکالتیں لیکن آٹھ مارچ کو عورت کے نا م پر بیہودہ پلے کارڈ اٹھا کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ مرد نے تو پتہ نہیں انہیں جنسی کھلونا بنایا ہے یا نہیں لیکن یہ خود عورت کو جسم اور جنس کے نام پر ایک کھلونا بنانے پر ضرور تُلی ہیں اور بالآخر جسم پر مرکوز یہ نعرہ ہی ان کے ایجنڈے کو لے ڈوبے گا۔