ابھی تک چین سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک کورونا وائرس کی دوا ایجاد کرنا تو دور کی بات اس کی حقیقت بھی سمجھ نہیں سکا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں اور جتنے سوشل میڈیا اکائونٹس اور اتنے ہی ٹوٹکے سامنے آ رہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے این 95 ماسک کورونا سے بچاتا ہے کیونکہ یہ وائرس کو سانس کے ذریعے اندر جانے سے روکنے میں 95 فیصد کارآمد ہے۔ کوئی کہتا ہے N99 زیادہ کارآمد ہے‘ یہ جراثیم کو 99 فیصد تک روکتا ہے۔ کوئی کہتا ہے سینی ٹائزر کے استعمال سے جراثیم مرجاتے ہیں۔ کوئی ڈیٹول کو جراثیم کش کہتا ہے۔ کوئی بھاپ سے کورونا کو ختم کر رہا ہے تو کوئی دستانے پہننے کو ضروری قرار دے رہا ہے۔ یہ سب چیزیں اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب احتیاطیں برطانیہ اور کینیڈا کے وزرائے اعظم‘ اٹلی کے وزیر خارجہ اور دیگر اہم افراد نے نہیں کی ہوں گی لیکن اس کے باوجود انہیں کیسے کورونا وائرس چمٹ گیا؟ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن تو آئی سی یو تک پہنچ گئے تھے۔ اصل معاملہ کچھ اور ہے اور کسی کو معلوم نہیں۔ فی الحال قیاس آرائیوں کا وقت ہے جو ہر بندہ اپنے اپنے انداز میں کررہا ہے۔ غور کریں تو ہر ایک کی باتوں میں کچھ نہ کچھ وزن دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً یہ کہ چین میں اگر ووہان صوبے میں وائرس پھیلا اور اس دوران میں یہاں سے دیگر ممالک میں جانے والے افراد یہ وائرس اپنے ساتھ لے گئے اور اپنے ملکوں میں جا پھیلایا تو پھر ووہان میں لاک ڈائون سے قبل ووہان سے چین کے دیگر صوبوں اور شہروں میں بھی تو لاکھوں چینی باشندوں نے سفر کیا ہو گا۔ اگر ووہان میں ہزاروں کیسز آ گئے تو بیجنگ اور چین کے دیگر شہروں میں اس تعداد میں کیوں نہیں پھیلے؟ اسی طرح پاکستان میں جب کورونا پھیلنا شروع ہوا تو حکومت پر تنقید ہوئی کہ اس نے ایران سے آنے والے زائرین کو ٹھیک طرح سے نہیں سنبھالا۔ پھر جب اٹلی اور دیگر ممالک میں لاکھوں کیسز سامنے آنے لگے تب سبھی سوچنے لگے کہ ان ممالک میں تو ایرانی زائرین نہیں گئے۔ اسی طرح بھارت میں جب کورونا کے سینکڑوں کیسز سامنے آئے تو اس نے سارا معاملہ تبلیغی جماعت پر ڈال دیا۔ ایسے چند لوگوں کے ٹیسٹ مثبت آئے تو حکومت نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کئی ایسی ممالک جہاں یہ وائرس نہیں پہنچا تھا جہاں کوئی زائرین‘ کوئی تبلیغی نہیں گئے اور جہاں بہت زیادہ انٹرنیشنل فلائٹس بھی نہیں جاتیں اور نہ ہی سیاح ادھر کا رخ کرتے ہیں‘ وہاں بھی کورونا کے کیسز سامنے آئے ہیں جیسے روانڈا‘ صومالیہ جیسے ممالک جہاں بھوک اور قحط کا ناچ سارا سال جاری رہتا ہے۔ دیہات جو اب تک اس مصیبت سے بچے ہوئے تھے‘ وہاں بھی یہ عفریت پہنچ گیا ہے۔ اب تک دس برس سے کم عمر بچوں کا اکا دُکا کیس ہی سامنے آیا ہے لیکن گزشتہ روز پتوکی کے نواحی گائوں میں ایک سالہ بچے کا ٹیسٹ پازیٹو آنے پر پوری فیملی کو لاہور لاکر قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔ اب خدا بہتر جانا ہے ایک برس کے بچے کو یہ کیسے ہو گیا اور کیا ٹیسٹ کے رزلٹ پر واقعی اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ اس بارے بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن انہونیاں تیز رفتاری سے جاری ہیں۔ ہر روز کہیں نہ کہیں سے نئی خبریں آ رہی ہیں‘ جو گزشتہ دنوں میں آنے والے ''حقائق‘‘ کو جھٹلاتی جا رہی ہیں۔ اس لئے کسی بھی چیز کو آخری اور مصدقہ نہیں کہا جا سکتا جب تک ایک مناسب عرصہ نہ گزر جائے اور اس بارے میں ہر طرف سے یکساں تجربات اور ان کے نتائج سامنے نہ آ جائیں۔ امریکہ میں کورونا ویکسین کا ایک تجربہ ہو چکا ہے‘ گزشتہ روز دوسرے تجربے کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ ویکسین اگر کامیاب ہوتی ہے تو کتنے عرصے میں عام استعمال کیلئے دستیاب ہو گی اس بارے بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کوئی چھ ماہ کوئی ایک سال کوئی دو برس کہہ رہا ہے۔ پھر سازشی تھیوریاں جنم لے رہی ہیں۔ یہ سب فلاں ملک نے کیا تاکہ ویکسین بنا کر دنیا کو بیچے اور اربوں کھربوں ڈالر دنوں میں کما لے۔ کوئی کہہ رہا ہے چین اس کے پیچھے ہے۔ وہاں اموات کیسے تین ہزار پر رُک گئی ہیں اور اب چین دنیا کی دیوالیہ ہونے والی کمپنیوں کو دھڑا دھڑ خرید رہا ہے‘ پھر خود ہی ویکسین لے آئے گا اور یوں دنیا پر حکومت کرے گا۔ ویسے بھی چین دنیا میں جنگوں میں شریک نہیں ہوتا۔ یہ معیشت کی جنگ میں البتہ حاوی ہے اور دنیا کو سرنگوں کئے ہوئے ہے۔ اگر یہ ایک گولی چلائے بغیر اس طرح سے دنیا میں چھا جاتا ہے تو دنیا میں تیسری عالمی جنگ کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ بعض کے خیال میں تیسری عالمی جنگ کورونا وائرس کی شکل میں شروع ہو بھی چکی ہے۔ اس جنگ میں ہر وہ ملک ہارے گا جس کے ہاں زیادہ کورونا کے کیسز اور اموات ہوں گی اور اس کے نتیجے میں اس کی معیشت بیٹھ جائے گی۔ یہ بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ اس سب کے پیچھے امریکہ ہے کیونکہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں ڈالر کا راج ہے اور ڈالر کی قیمت اس بحران کے دوران تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگر ڈالر دو سو تک پہنچ جاتا ہے تو پاکستان غالباً نوے ارب ڈالر کا مزید مقروض ہو جائے گا اسی طرح دیگر ملک۔ جب سب کی مقامی کرنسی کمزور ہو جائے گی اور قرض کے انبار بڑھ جائیں گے تو امریکہ ویکسین سامنے لے آئے گا‘ اسے مہنگے داموں بھی بیچے گا اور اس کے بعد دنیا کی کمزور معیشتوں کی ہمیشہ لکیریں نکلواتا رہے گا۔ انیس مارچ تک یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ روس اس کے پیچھے ہے کیونکہ روس میں اس وقت تک کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا۔ لیکن پھر یکایک روس بھی اس کا شکار ہوا اور ان دو ہفتوں میں روس میں آٹھ ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے ہیں اور ساٹھ اموات ہو چکی ہیں۔ اس سے پہلے ہم اسرائیل کو نشانہ بنارہے تھے کیونکہ اسرائیل بہرحال تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر سامنے آیا ہے۔ دنیا کی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں یہودیوں کی ہیں اور ان کے مرکزی دفاتر اسرائیل میں ہیں۔ پھر جب عمرہ بند ہوا اور تمام ملکوں میں مساجد میں جمعہ اور دیگر اوقات پر پابندیاں لگیں تو لوگ یہ کہنا شروع ہوئے کہ ہو نہ ہو یہ کورونا اسرائیل کی سازش ہے جو مسلمانوں کو مساجد سے دور رکھنے کیلئے برپا کی گئی ہے۔ مساجد کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں چرچ‘ مندر سب کچھ بند ہو چکا تھا لیکن مسلمان اس میں اسرائیل کو ہی ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے اسی اسرائیل میں آج نو ہزار سے زیادہ کیس اور ستر سے زائد اموات ہو چکی ہیں؛ چنانچہ یہ تھیوری بھی ساتھ ہی دم توڑ چکی ہے۔
ایک تھیوری بہرحال سچ ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان پر جب بھی کوئی مصیبت آتی ہے اس کے نامہ اعمال کی وجہ سے آتی ہے۔ آج امیر اور غریب ملک‘ غریب عوام اور امیر شہزادے سبھی اس کا شکار ہو رہے ہیں تو آخر اس کی کوئی تو وجہ ہو گی وگرنہ کوئی تو علاقہ کوئی تو شخص‘ کوئی تو مذہب اور کوئی تو فرقہ اس بلا سے محفوظ رہتا۔ یہ تھیوری بہرحال سچ ہے کہ اللہ ہم سے ناراض ہے اور ہم نے اللہ کو ناراض کرنے میں آج بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ آج بھی ہم سچے دل سے توبہ کرنے کو تیار نہیں اور یہ ٹائم کھیل کود میں گزار رہے ہیں۔ آخر وہ کون سا گناہ ہے جو اس سرزمین پر نہیں ہو چکا۔ کون سا انسان ہے جو خود کو رب کا فرمانبردار کہہ سکتا ہو۔ بعض ممالک نے جدیدیت کے نام پر ایسے ایسے غیرشرعی اقدامات کئے‘ جو یاد کریں تو روح کانپ جاتی ہے۔ افغانستان میں چند سو طالبان کو ختم کرنے کیلئے ہزاروں لاکھوں مظلوم عوام کو بی باون طیاروں کے ٹنوں وزنی بموں سے نشانہ بنایا گیا اور اس مشترکہ فوج میں کس کس ملک کی فوج شامل نہیں تھی۔ شام میں سمندر کنارے جب نو سالہ بچے کی لاش ملی تھی تو کتنے ملکوں نے مظلوم ممالک پر بمباری کرنے اور انہیں نشانہ بنانے سے انکار کیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں ستر برسوں سے جب خواتین کی عزتیں تار تار کی جا رہی تھیں‘ بچوں جوانوں اور بوڑھوں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا تھا تب عالمی دنیا اور اس کے عوام کہاں سوئے ہوئے تھے اور جو جاگ رہے تھے انہوں نے پانچ فروری کو چند نمائشی جلوس نکالنے‘ بیانات دینے اور چھٹی انجوائے کرنے کے علاوہ کیا کیا تھا؟ یاد کرتے جائیں اور شرماتے جائیں‘ کورونا اور اس کی حقیقت آپ پر کھلتی چلی جائے گی۔