"ACH" (space) message & send to 7575

لاک ڈاؤن کے بعد کی زندگی!

ہماری حکومت نے لاک ڈائون میں نرمی کی ہے اور کچھ صنعتیں کھول دی ہیں؛ تاہم لاک ڈائون مکمل یا جزوی طور پر ختم ہونے کے بعد زندگی ویسی نہیں رہے گی جیسی ہم پہلے گزارتے تھے۔ صرف ہم ہی نہیں پوری دنیا بالکل نئے اصولوں کے مطابق چلے گی۔ مثلاً یہ کہ پہلے ہم کسی بھی دفتر‘ بینک یا ہجوم والی جگہ پر دھڑلے سے چلے جاتے تھے‘ اب یہ کام نہیں ہوگا۔ اب زیادہ ترکام آن لائن منتقل ہو جائے گا جو پہلے بھی ہو رہا ہے لیکن اس میں تیزی آ جائے گی اور جہاں جہاں جانا ضروری ہے وہاں پرہجوم سے بچانے کیلئے سماجی فاصلاتی پابندیاں عائد ہو جائیں گی۔ مثلاً ایک بینک میں اگر چار کائونٹر ہیں اور ان کے پیچھے ہر تین فٹ کے فاصلے پر دو افراد کے کھڑے ہونے کی گنجائش ہے تو بینک کائونٹر پر جانے کیلئے ایک وقت میں 12افراد کو اجازت ہوگی۔ اسی طرح شناختی کارڈ بنوانے اور دیگر سرکاری و نجی دفاتر میں ایس او پیز جاری کئے جائیں گے جن پر اداروں‘ دکانوں اور متعلقہ ذمہ داران کیلئے عمل درآمد لازمی ہوگا۔ دوسرا کام سینیٹائزر واک تھرو گیٹس کا قیام ہوگا۔ کورونا وائرس سے قبل پوری دنیا کو دہشتگردی نے تنگ کررکھا تھا‘ جس کی وجہ سے ہر سرکاری عمارت اور اہم تنصیبات میں داخلے سے قبل سکیورٹی واک تھروگیٹ سے گزرنا پڑتا تھا۔ اب ان کے ساتھ ساتھ ہر ادارے کو سینیٹائزر سپرے واک تھرو دروازے بھی لگانا لازمی ہوں گے۔ اسی طرح مساجد میں آنے والے افراد‘ بالخصوص جمعہ کے روز‘ کو بھی ایسے سپرے والے دروازوں میں سے گزرنا ہی پڑے گا۔ چھوٹی دکانوں‘ میڈیکل سٹورزوغیرہ کیلئے بھی لازمی ہوگا کہ ان میں اتنے ہی گاہک جائیں کہ ان کا درمیانی فاصلہ کم از کم تین فٹ رہے۔ باقی گاہکوں کودکان سے باہر روک لیا جائے۔ ہر شخص کیلئے ماسک پہننا لازمی قرار دیا جائے اور ہر عمارت‘ دکان کے باہر واضح طور پر یہ عبارت آویزاں کی جائے گی کہ ماسک کے بغیرکوئی شخص اندرنہیں آئے گا۔ اسی طرح سرکاری ونجی اداروں‘ دکانوں وغیرہ پر موجود سٹاف کیلئے ماسک پہننا لازمی قرار دیا جائے گا۔ فی الوقت لاک ڈائون میں یہ دیکھا گیا کہ دکان میں چار میں سے دو بندوں نے ماسک لگایا ہوتا ہے۔حکومت کو اس سلسلے میں سختی کرنا ہوگی اور جہاں موقع پر کوئی شخص ماسک کے بغیر نظر آیا‘ ریکارڈ کیلئے اس کی ویڈیو بنا کر فوری جرمانہ کرنا ہو گا۔ اگر حکومت یہ سختیاں نہیں کرے گی تو لاک ڈائون میں نرمی یا خاتمے کو لوگ سنجیدہ نہیں لیں گے اور دوبارہ سے وہی روٹین شروع ہو جائے گی جس سے کورونا کیسز دوبارہ بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو جائے گا‘ جس کے بعد پھر سے سخت لاک ڈائون یا مکمل کرفیو کی طرف آنا پڑے گا۔ اس کا ایک منظر ہم نے گزشتہ روز دیکھا جب لاہور کی ایک مارکیٹ کھلی تووہاں ہجوم دکھائی دیا۔ نہ دکاندار حفاظتی اصولوں پر چل رہے تھے نہ ہی گاہک اور دیگر عملہ۔ دفعہ ایک سو چوالیس کی بھی کھلی خلاف ورزی جاری تھی۔ لاک ڈائون میں نرمی کا یہ مطلب نہیں کہ دفعہ ایک سو چوالیس ختم ہوگئی ہے۔ چاریا پانچ افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پراب بھی پابندی ہے۔ اگر حکومت لاک ڈائون میں نرمی کررہی ہے تو ہمیں اس کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ مانا کہ ہم ایک غریب معیشت ہیں لیکن دماغ استعمال کرنے میں کوئی پیسہ نہیں لگتا۔ احتیاط کریں گے تو حکومت بھی لاک ڈائون میں نرمی برقرار رکھے گی اورکورونا وائرس میں مزید کمی آتی گئی تو ہوسکتا ہے کہ دو تین ہفتوں تک ملک کے باقی شعبے بھی کھل جائیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب بھی ملک میں لوگوں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ کورونا وائرس محض ایک افواہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں اس مرض کی وہ شدت دکھائی نہیں دی‘ جس پر ہمیں خدا کا شکرادا کرنا چاہیے۔ یہ بھی شکرکریں کہ پاکستان میں بھارت جیسے وہ مناظردکھائی نہیں دئیے جو سوشل میڈیا پر عام ہیں کہ وہاں پولیس لاک ڈائون کے دوران باہر نکلنے والے افراد کی اچھی خاصی دھلائی کرتی ہے‘ چاہے کوئی یہ کہے کہ میں اکیلا ہوں اور راشن لینے جارہا ہوں‘ وہاں ایسے لوگوں کوبھی دو چار ڈنڈے مار دئیے جاتے ہیں۔ ایسا اس لئے کیا جا رہا ہے کہ اس طرح کی ویڈیوز زیادہ سے زیادہ پھیلیں اور لوگوں کو باہر نکلنے سے روکا جا سکے۔ پاکستان میں ایک دو واقعات میں چند لوگوں کو مرغا بنایا گیا تو اس پر شوروغوغا بلند ہونے لگا۔ ویسے توہم ڈنڈے کی قوم ہیں اوراگر ہمیں زیادہ ہی شوق ہے تو یہ ڈنڈا کسی وقت چل بھی سکتا ہے۔ اس لئے بہتر ہوگا ہم نئے حالات کے ساتھ سمجھوتا کرنا سیکھ لیں۔
لاک ڈائون کے دوران ہم نے بہت سے سبق سیکھے۔ یہ سبق ہمیں یاد رکھنے چاہئیں۔ ہم نے دیکھا‘ ہم بہت سے ایسے کام آن لائن بھی کرسکتے ہیں جن کیلئے ہم بار بار دکانوں پر جاتے تھے۔ مثلاً یوٹیلٹی بلز‘ سکولوں کی فیسیں‘ ایک بینک اکائونٹ سے دوسرے بینک اکائونٹ میں رقم کی منتقلی‘ موبائل کارڈز کی خریداری وغیرہ۔ یہ سب کام ہمیں آئندہ بھی آن لائن کرنے چاہئیں۔ اس سے ہمارا وقت بچے گا‘ پٹرول اور توانائی بھی۔ اسی طرح ہم اگر گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس ادا کرنا چاہتے ہیں تو بھی ہمیں ایکسائز آفس جانے کی ضروری نہیں کیونکہ وہاں ایک تو بھیڑ بہت ہوتی ہے دوسرا ایجنٹ ہمیں گھیر لیتے ہیں اور ہم ایک معمولی سے کام کا معاوضہ وقت اور پیسے کے ضیاع کی صورت میں بھر کر آجاتے ہیں۔ پنجاب کی تمام رجسٹرڈ گاڑیوں کے ٹوکن پنجاب آئی ٹی بورڈ کی وضع کردہ ویب سائٹ یا ای پے موبائل ایپ سے گھر بیٹھے اداکئے جا سکتے ہیں۔ لاک ڈائون کے دوران ہم نے یہ بھی سیکھا کہ غیر ضروری آئوٹنگ اور ہوٹلنگ کے بغیر بھی بندہ ناصرف زندہ رہ سکتا ہے بلکہ غیر ضروری اخراجات‘ بیماریوں اور موٹاپے سے بھی بچ سکتا ہے۔ ہم نے دیکھا‘ لاک ڈائون کے دوران ہسپتالوں کے آئوٹ ڈور‘ کلینک وغیرہ بند تھے اور ہسپتالوں میں سوائے کورونا کے مریض یا آپریشن والے مریض کے کوئی نہیں گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا لوگ بیمار ہونا بند ہو گئے تھے یا گھر میں خود سے علاج کر رہے تھے۔ حکومت نے اس سلسلے میں ٹیلی میڈیسن کی سہولت بھی فراہم کی تھی لیکن قرین قیاس یہی ہے کہ آدھی رات کو غیر ضروری طور پر روزانہ ہوٹلوں اور ڈھابوں پر منہ مارنے سے چونکہ لوگ بچے ہوئے تھے اور گھر کے پکے کھانے کھا رہے تھے اس لئے وہ معدہ اور پیٹ کی بیماریوں سے بچے رہے۔ حتیٰ کہ لوگ گھر میں بھی ڈر ڈر کے کھاتے تھے کہ کہیں بیمار پڑے گئے تو ہسپتال جانا پڑ جائے گا۔ ہم نے یہ بھی دیکھاکہ لاک ڈائون کے دوران سبھی نے صفائی کا ضرورت سے زیادہ خیال رکھا۔ آج سے ہم اگر اسی روٹین کوبرقرار رکھ لیں توہماری صحت اور دیگر مسائل کم ہو سکتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ہم بلاوجہ بچوں کو ٹیوشن پڑھواتے تھے‘ کئی کئی اکیڈمیوں میں بھیجتے تھے حالانکہ ایسے ہی ٹیچرز کے وہ تمام لیکچرز آن لائن یوٹیوب اور دیگر جگہوں مفت دستیاب ہیں جن کیلئے ہم بچوں کو رکشے اور دیگر اخراجات بھرکر اکیڈمیوں میں بھجواتے تھے۔ لاک ڈائون کے دوران ہم نے یہ بھی سیکھا کہ انسان کے قریبی صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس ایک چھت کے تلے رہ رہے ہوتے ہیں اور ہم نے جو غیرضروری رشتے اور دوست بنائے ہوتے ہیں ہم انہیں غیرضروری وقت دے کر اپنی فیملی کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ چھوٹے چھوٹے کام‘ جن کیلئے ہم پلمبر‘ مکینکس‘ پینٹرز کو ڈھونڈتے تھے وہ ہم خود بھی کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے دو چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ ایک اوزار اور دوسرا تربیت۔ اگر ہم ضروری اوزار ایک مرتبہ خرید کر رکھ لیں تو آن لائن ویڈیوز کے ذریعے ستر فیصد کام سیکھ کر گھر میں خود کر سکتے ہیں۔ برطانیہ امریکہ میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جو پاکستانی یہاں سے باہر جاتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ گھر کے دروازے کا تالہ بدلوانا پڑے تو ڈیڑھ دو سو ڈالر آرام سے نکل جاتے ہیں۔ اسی طرح باتھ روم کی ٹونٹی بدلنی ہو یا سوئچ ٹھیک کرنا ہو تو یہ سب ہر شخص خود کر سکتا ہے اور وہی پیسے بچاکر سیونگ یا کسی اور مد میں استعمال کر سکتا ہے۔ لاک ڈائون سے ہم نے جو مزید سبق سیکھے ہیں وہ آئندہ کالم میں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں