چند دیگر شہروں کی طرح لاہور بھی آدھا سیل کیا جا چکا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ جو آدھا لاہور کھلا ہوا ہے وہاں پر کورونا کے کیسز موجود نہیں ہیں اور کیا باقی آدھا لاہور کورونا کو آپس میں پھیلانے کیلئے آزاد ہے؟ یقینا حکومت نے جن کالونیوں اور گلیوں کو بند کیا‘ ٹھوس اطلاعات اور رپورٹڈ کیسزکی بنیاد پر ہی کیا‘ لیکن جو باقی لاہور سیل نہیں ہوا دو تین ہفتوں میں اس کے بھی اثرات آنے کے بعد اسے سیل کیا جائے گا جب یہاں بھی تیر کمان سے نکل چکا ہو گا؟ یہ منطق سمجھ سے بالا تر ہے۔ حکومت نے مارچ کے اواخر میں جب لاک ڈائون لگایا تو دکانیں ‘ فیکٹریاں اور کاروبار بند کر دئیے۔ صرف کھانے پینے کے سامان کی دکانیں اور میڈیکل سٹورز کو کھلنے کی آزادی تھی۔ اس طرح معیشت کا پہیہ تقریباً بند ہو گیا۔ مزدور مستری ہنر مند افراد سبھی بیروزگار ہو گئے کیونکہ ان کے دفاتر کارخانے‘ سب کچھ بند تھا اور انہیں تنخواہ اور مزدوری بھی نہیں مل رہی تھی۔ اس وقت حکومت سے بارہا یہ استدعا کی گئی کہ وہ اس جزوی لاک ڈائون کی بجائے مکمل لاک ڈائون یا نیم کرفیو سا لگا دے اور چاہے دو ہفتوں کیلئے لگایا جائے لیکن اس پر پوری طرح عمل درآمد کیا جائے تاکہ ایک سے دوسری جگہ کوئی شخص بلاوجہ نہ جا سکے۔ یہ بات مگر کسی نے نہ سنی اور اس کے جواب میں یہی کہا گیا کہ کیا لوگوں کو گھروں میں بھوکا مار دیں۔ لوگ تو آپ کے جزوی لاک ڈائون کی وجہ پہلے ہی مزدوری اور تنخواہوں سے محروم ہو چکے تھے اور بچی کھچی آمدنی سے دن گزار رہے تھے اور پندرہ دن گزارنا ایسا مشکل کام اس وقت نہ تھا کہ ابھی تازہ تازہ لاک ڈائون لگا تھا اور لوگوں کے پاس کچھ نہ کچھ پیسے موجود تھے۔ اب تو اس وبا کو ملک میں پنجے گاڑے بھی تین ماہ ہونے والے ہیں‘ کیسزکی تعداد بھی سینکڑوں اور ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں میں جا چکی ہے۔ اموات بھی روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں ہونے لگی ہیں اور روزانہ سات آٹھ ہزار کیسز رپورٹ ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اب جا کر آپ لاہور اور دیگر شہروں کو سیل کر رہے ہیں جب لوگوں کے پاس کھانے کو سوکھی روٹی بھی نہیں بچی۔ لوگ کہتے ہیں کہ تنقید کرنا بہت آسان ہوتا ہے‘ میں کسی کی بات نہیں کرتا آپ میرا ستائیس فروری والا کورونا پر کالم اور بعد کے کالم دنیا کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھنا شروع کر دیں ‘ میں نے کس طرح وضاحت کے ساتھ ہر دوسرے کالم میں حکومت سے درخواست کی کہ پندرہ دن کیلئے مکمل کرفیو جیسا لاک ڈائون لگا دیں ‘ پندرہ دنوں میں کوئی بھوک سے نہیں مرے گا‘ لوگ سوکھی روٹی پانی میں بھگو کر کھا لیں گے لیکن یہ پندرہ دن دوبارہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ اس ملک میں ہمسائیگی کا رجحان ابھی زندہ ہے۔ لوگ بھائی چارے کے تحت ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ رکھتے ہیں۔ چند ایک دکاندار نما کالی بھیڑوں اور ذخیرہ اندوزوں کو چھوڑ کر اکثریت اب بھی ایک دوسرے کے بھرپور کام آتی ہے۔ اگر ایک گھر میں آٹا نہیں ہو گا تو ساتھ والا دے دے گا۔ پندرہ دن گزارہ کرنا کوئی اتنا مشکل نہ تھا۔ یہ کڑوا گھونٹ اس وقت بھرنا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا آج ہے۔ اس وقت دور دور تک کسی کے دوست عزیز یا خاندان میں کیس سننے کو نہیں ملتا تھا۔ اب تو ہر خاندان میں درجنوں لوگ کورونا کا شکار ہو چکے ہیں اور بہت سے لوگ جاں بحق بھی ہو گئے ہیں‘ خاص طور پر عید کے فوری بعد کئی بزرگوں کی وفات کی خبریں تیزی کے ساتھ آئی ہیں۔ شاید رمضان میں لوگوں کی بد احتیاطی اب سامنے آ رہی ہے‘ اوپر سے عید سے پہلے بازار کھول دئیے گئے جس کا نتیجہ ہر گزرنے والے دن بدترین خبروں کے ساتھ سامنے آ رہا ہے۔
کورونا کے حوالے سے ایک اور دوائی سامنے آئی ہے اور میں یہاں اس کا نام نہیں لکھوں گا کیونکہ جیسے ہی کسی دوا کے بارے میں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ کورونا کے مریضوں کیلئے مفید ہے وہ مارکیٹ سے غائب اور بلیک میں فروخت ہونے لگتی ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ ایسی پوسٹ نہ جانے کیوں لگاتے ہیں۔ یہ کام ڈاکٹروں کا ہے ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر اور ہسپتال اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ سوشل میڈیا سے کسی دوا کے بارے میں معلوم ہو تو وہ اسے مریضوں کو دینا شروع کر دیں۔ خدا کے بندو اس طرح کی معلومات سب سے پہلے ڈاکٹرز کے پاس آتی ہیں مگر وہ اتنے فارغ نہیں ہوتے کہ بلاوجہ اسے شیئر کرتے پھریں۔ اب اس نئی دوا کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ ترقی پذیر ممالک میں آسانی اور سستے داموں دستیاب ہے لیکن اس دوا کے بارے میں دو چیزیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ یہ صرف کورونا کے اس مریض کو فائدہ دیتی ہے جو وینٹی لیٹر پر منتقل ہو چکا ہو اور جس کے پھیپھڑے تقریباً جواب دے چکے ہوں۔ یہ ایک طرح کا سٹیرائڈ ہے اور اس کا بلاضرورت استعمال منفی اثرات بھی لا سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان جیسے ملک میں یہ توقع رکھنا کہ یہ دوا شہرت پانے کے بعد سستی ہی ملے گی اور مل بھی جائے گی‘ عبث ہے۔ میں گارنٹی سے کہتا ہوں کہ اگر کل کو یہ ریسرچ آ گئی کہ دو گولی پینا ڈول دودھ کے ساتھ لینے سے کورونا نہیں ہوتا تو نہ مارکیٹ میں آ پ کو کل سے دودھ ملے گا نہ ہی پینا ڈول۔ اب بھی پینا ڈول کئی میڈیکل سٹورز پر دستیاب نہیں۔جان بوجھ کر اس کی شارٹیج پیدا کی جا رہی ہے کیونکہ جس طرح کی لندن کے امپیریل کالج کی کورونا بارے رپورٹس آ رہی ہیں‘ بلیک مارکیٹ اپنے آپ کو اس حساب سے تیار کر رہی ہے تاکہ اگلے ایک دو ماہ میں ایک عشرے کی کمائی سمیٹی جا سکے۔
ویسے ڈاکٹر یاسمین نے کوئی اتنی غلط بات بھی نہیں کی۔ آج بھی آپ شہر میں نکل جائیں‘ آپ کو سڑکوں پر ہی درجنوں افراد ایسے مل جائیں گے جو آپ کو کہیں گے کہ کورونا ایک ڈرامہ ہے‘ ڈاکٹر زہر کے ٹیکے لگا کر لوگوں کو مار رہے ہیں اور یہ سب بیرونی امداد کے لئے کیا جا رہا ہے۔ جی ہاں میں نے خود کل ایک ٹی وی شو میں بازار میں کھڑے چند لوگوں سے بات چیت کرتے اینکر کو سنا جس میں ایک صاحب تقریباً اینکر کو ڈانٹ پلاتے ہوئے کہہ رہے تھے دکھائیں کدھر ہے کورونا کا مریض کہاں ہے۔ دکھائیں مجھے۔ اب ایسے بندے کا علاج تو یہی ہے کہ اسے بغیر ماسک کے کسی کورونا آئی سی یو وارڈ میں چوبیس گھنٹے مریضوں کی خدمت میں لگا دیا جائے۔ ہماری حکومت عوام سے ایسے توقعات لگائی بیٹھی ہے جیسے یہ پاکستان نہیں بلکہ نیوزی لینڈ ہے اور یہاں ہر دوسرا بندہ فارن پی ایچ ڈی کوالیفائیڈ ہے۔ اب جبکہ لوگوں کے اپنے عزیز فوت ہونا شروع ہو گئے ہیں تب بھی لوگ اس درجے کی احتیاط نہیں کر رہے جس کی ضرورت ہے۔ حکومت کے پاس پہلے بھی دو راستے تھے اور اب بھی دو راستے ہیں۔ بھوک سے یا کورونا سے موت۔ ان دونوں میں سے ایک کا فیصلہ کرنا ہے۔ حکومت کو اس بارے میں مکمل ہوم ورک مارچ میں کر لینا چاہیے تھا کہ دو تین ہفتے مکمل کرفیو جیسا لاک ڈائون لگا لیا جائے تو کتنے لوگ بھوک سے مریں گے اور اگر نہ لگائیں گے تو ایک دو مہینوں بعد کتنے لاکھ کیسز سامنے آ چکے ہوں گے۔ اس سلسلے میں عوام کی رائے اور ریفرنڈم جیسی کوئی ایکٹیویٹی کی جا سکتی تھی۔ عوام صرف ووٹ لینے کیلئے نہیں ہوتے بلکہ ان سے کسی بھی اہم موقع پر رائے طلب کی جا سکتی ہے۔ یہ لوگوں کی جانوں کا معاملہ تھا جس سے مگر صرف ِنظر کیا گیا۔ اگر آج صورت حال اتنی خراب ہوئی ہے تو اس کا کریڈٹ عوام کے ساتھ حکومت کو بھی اتنا ہی جاتا ہے۔ حکومت نے شروع میں 'کورونا کوئی خطرناک بیماری نہیں‘کے پیغامات کئی ہفتے ہر فون کال کی بیل پر سنوائے پھر انہیں تبدیل کر کے خطرناک جان لیوا بیماری میں بدلا حالانکہ اس وقت تک اٹلی امریکہ اور برطانیہ میں ہزاروں لوگ روزانہ مر رہے تھے‘ ہم مگر تماشہ دیکھنے اور معیشت بچانے میں لگے تھے۔ نتیجہ مگر کیا نکلا‘ معیشت بچی ‘نہ لوگوں کی جانیں‘ بچا ہے تو صرف واویلا‘الزامات اور پچھتاوا جس کی قیمت خدانخواستہ حکمرانوں سمیت پوری قوم کو اگلے ایک دو ماہ میں ادا کرنی پڑے گی۔خدا خیر کرے!