"ACH" (space) message & send to 7575

خالص شہد‘ سرخ مرچیں اور سر درد کی دوا

قانون کو سبق سکھانے کا یہ تیسرا بڑا واقعہ تھا۔ گزشتہ دو تین ماہ میں ایسے کئی واقعات پیش آ چکے ہیں۔ گزشتہ روز ایک خاتون نے لاہور میں مین روڈ پر غلط سمت میں گاڑی پارک کی ہوئی تھی جس پر ٹریفک وارڈن نے ان کا چالان کرنا چاہا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ موبائل کیمروں کے ذریعے سامنے آ گیا۔ خاتون نے وارڈن کو دھمکیاں دیں‘ اس کا وائرلیس سیٹ چھیننے اور اسے تھپڑ مارنے کی بھی کوشش کی جس پر کارِ سرکار میں مداخلت پر خاتون کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ اب خاتون کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ غلط سمت میں گاڑی کھڑی کرنے سے ٹریفک بلاک ہو رہی تھی لیکن خاتون کو اپنے کئے پر ذرہ بھر شرمندگی نہ تھی بلکہ وہ ڈھٹائی کے ساتھ وارڈن کے ساتھ دست و گریبان ہو رہی تھی۔ خاتون بظاہر کسی پوش اور خواندہ گھرانے کی دکھائی دیتی تھیں لیکن رویہ ان کے باطن کی چغلی کھا رہا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان جیسے لوگ جب بیرونِ ملک جاتے ہیں تو ایئر پورٹ پر قدم رکھتے ہی 'بندے کے پتر‘ بن جاتے ہیں۔ وہاں انہیں تو چھوڑیں بڑے بڑے وزرا اور ٹائیکونز کی بتی گُل ہو جاتی ہے۔ نہ انہیں سڑکوں پر پروٹوکول ملتا ہے‘ نہ وہ قطار میں لگے بغیر ٹکٹ خرید سکتے ہیں اور نہ ہی وہ سڑک پر کاغذ کا ٹکڑا یا پان کی پیک پھینک سکتے ہیں حالانکہ وہ اپنے ملک کو ڈسٹ بن سمجھ کر گندا کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ گاڑیوں میں بیٹھ کر کچھ کھاتے ہیں تو شاپر‘ ڈبے‘ پلاسٹک کی بوتلیں اور ٹشو پیپر گاڑی سے باہر یوں پھینکتے ہیں جیسے وہ کسی دشمن ملک یا جنگل میں سفر کر رہے ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں‘ بیرون ملک اس طرح کی غلطیوں کے اچھے خاصے جرمانے ادا کرنا پڑتے ہیں‘غلط سمت میں پارکنگ تو پھر بھی اچھا خاصا بڑا جرم ہے۔ سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی ویڈیو اب بھی کہیں سے سوشل میڈیا پر گھومتی پھرتی آ جاتی ہے جس میں جناب دیکھ بھال کر اکیلے زیبرا کراسنگ سے سڑک پار کر رہے ہیں۔ نہ کوئی ان کے بائیں ہے نہ دائیں۔ دکان پر جاتے ہیں تو قطار میں لگ کر باری سے خریداری کا بل ادا کرتے ہیں۔ ہسپتال جاتے ہیں تو اپوائنٹمنٹ سے باری آتی ہے۔ چلیں وہ تو پھر وزیر اعلیٰ تھے یہاں تو جس کے پاس جتنی بڑی گاڑی ہے‘ اس کا جتنا بڑا عہدہ‘ تعلق یا کاروبار ہے وہ اتنا ہی بڑا خود کو ڈان سمجھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں ٹریفک وارڈن کیا کریں؟ یہ تو خدا بھلا کرے موبائل فون پر دھڑا دھڑ لوگ ویڈیوز بنا لیتے ہیں‘ ورنہ تو خاتون کو غلطی کا مرتکب ثابت کرنا مشکل ہو جاتا۔ 
انسان کی غلطیاں اس کی طرف پلٹ کر آتی ہیں۔ آج اگر آپ غلط سمت سے جا رہے ہیں کوئی وارڈن کوئی شہری آپ کی غلطی کی نشاندہی کرتا ہے اور اگر آپ اسی کے گلے پڑ جاتے ہیں تو یہی غلطی کل کو آپ کے سامنے یوں آئے گی کہ آپ پچھتاتے رہ جائیں گے۔ ہو سکتا ہے آپ اپنے رعب اور دبدبے کی وجہ سے وارڈن پر دبائو ڈال لیں‘ ہو سکتا ہے آپ اس کا ٹرانسفر کروا دیں اور غلط سمت میں جانے کے باوجود حادثے سے بھی بچ جائیں لیکن آپ کی اس حرکت کو اگر آپ کی اولاد دیکھ رہی ہے تو وہ بھی لامحالہ اسے کاپی کرے گی۔ کل کو آپ کے بچے بڑے ہوں گے ان کا خون آپ سے بھی زیادہ جوشیلا ہو گا‘ انہیں زعم ہو گا کہ ان کا باپ ان کیلئے کچھ بھی کر سکتا ہے‘ پولیس کی وردیاں تک اتروا سکتا ہے تو وہ جو چاہیں جیسا چاہیں کر سکتے ہیں۔ یہ غلط فہمی انہیں بہرحال ایک نہ ایک دن نقصان پہنچا کر رہے گی۔ ممکن ہے آپ کا بچہ بھی بڑا ہوکر گاڑی چلائے اور غلط سمت میں جاتے ہوئے وارڈن اسے روکے اور وہ اپنے رعب اور پہنچ کو استعمال کرکے وارڈن کو معطل بھی کرادے لیکن اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ غلط سمت میں جاتے ہوئے اسے سامنے سے خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش نہیں آسکتا۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ ہم وارڈنز اور پولیس اہلکاروں پر اپنی مرضی چلا لیں گے تو قدرت کو بھی اپنی منشا سے کنٹرول کر لیں گے۔ ہماری تقدیر میں کیا لکھاہے‘ ہم نے کل کا دن دیکھنا بھی ہے یا نہیں‘ ہمیں اگلا سانس نصیب ہوتا ہے یا نہیں اور ہم اگلی پلک بھی جھپک پاتے ہیں یا نہیں‘ ان سب عوامل پر ہمارے سٹیٹس‘ ہمارے جاہ و جلال اور رتبے کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ہم نے بڑے بڑے طاقتور ستونوں کو منہ کے بل گرتے دیکھا ہے‘ جو خودکو فرعون سے بھی طاقتور اور قارون سے بھی زیادہ مالدار سمجھتے تھے۔ ہم سب اپنی اپنی اننگ کھیل کر چلے جائیں گے‘ کوئی جلد آئوٹ ہو جائے گا کوئی دیر سے۔ کس کے سامنے کب اس کے اعمال آ جائیں‘ کس شکل میں آ جائیں کسی کو معلوم نہیں۔ اس لئے بجائے نعمتوں پر خدا کا شکرادا کرنے کے ہم خداکی مخلوق کے ساتھ متکبرانہ رویہ اپناکر اپنی دنیا اور آخرت خود برباد کرنے چلے ہیں۔ دین صرف نمازیں پڑھنے یا روزے رکھنے کا نام نہیں بلکہ اپنوں اور غیروں کے ساتھ اچھے اخلاق سے بات کرنا‘ چھوٹے بڑے قوانین پر عمل کرنا بھی دین کی تعلیمات کی بنیاد ہے۔ ہمارا حال الٹ ہے۔ جب تک سڑک پر کوڑا نہ پھینک دیں ہماری بے چینی دور نہیں ہوتی‘ ہمسائے کو جب تک اذیت نہ پہنچا دیں ہمیں ٹھیک سے نیند نہیں آتی‘ اپنے ملازمین کے ساتھ بدسلوکی نہ کر لیں تب تک ہم سمجھتے ہیں ہم انہیں دی گئی تنخواہ پوری نہیں کر پائے اور جب تک ہم قانون کی اچھی طرح کھلے عام خلاف ورزی نہ کر لیں تب تک ہمارے دل کو سکون نہیں آتا۔ یاد رکھیں آج کسی کو دھکا دیں گے کل آپ کو بھی دھکا پڑے گا۔ آج کسی کی گاڑی کے آگے غلط پارکنگ کریں گے کل کو آپ کو کسی ایمرجنسی میں جانا پڑ سکتا ہے اور آپ کو بھی پیچھے غلط پارک کی گئی گاڑی مل سکتی ہے۔ آج کسی وارڈن‘ کسی سرکاری اہلکار سے بدتمیزی سے پیش آئیں گے‘ کل کو آپ کا بیٹا سرکاری افسر بنتا ہے اور اپنا فرض ادا کرتے ہوئے اسی طرح بے عزتی کرواکر آپ کے پاس روتا ہوا آتا ہے تو آپ کوپھر شکایت نہیں کرنی۔ آپ پھر ابھی سے خودکو ایسے وقت کیلئے تیار کر لیں جس کے بیج آپ آج اپنے ہاتھوں سے بورہے ہیں۔ آج آپ کہیں جاتے ہوئے رستے میں سڑک پر کوئی پتھر یا اینٹ دیکھتے ہیں جس سے پیچھے آنے والوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور آپ وہ پتھر اس جگہ سے اس نیت سے ہٹادیتے ہیں کہ اگر کہیں پیچھے میرا بیٹا میرابھائی آرہا ہے تو وہ چوٹ سے بچ جائے گا تو خدا کی قسم آپ لکھ کررکھ لیں‘ آپ آگے کہیں ایسی جگہ سے گزرنے والے ہوں گے جہاں درمیان میں پتھر پڑاہے جس سے آپ کا ایکسیڈنٹ ہو سکتا ہے تو وہ پتھر کوئی انسان کوئی فرشتہ اللہ کے حکم سے اس لئے ہٹا دے گاکہ آپ نے خداکی مخلوق کی تکلیف کا خیال کیا ہوگا۔ لیکن آج اگر آپ کسی کے راستے میں گڑھا کھودتے ہیں‘ آج آپ اس زعم میں ظلم کرتے ہیں کہ میں تو بچ جائوں گا تو پھر لکھ رکھئے ایک دن ایسا آئے گاکہ آپ کا رتبہ‘ آپ کی پہنچ اور آپ کے کوئی ابو‘ انکل یا دوست آپ کے کام نہیں آئیں گے اور آپ کو وہاں سے تکلیف پہنچے گی جس کا آپ کبھی گمان بھی نہیں کرسکتے۔ اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے لیکن اس کی مہربانی انہی کیلئے ہے جو دوسروں کی راہ سے کانٹے چنتے ہیں نہ کہ ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کو تیار رہتے ہیں۔ خدا ہم پر رحم فرمائے ورنہ جس ملک میں سرخ مرچوں کے نام پر پسی ہوئی اینٹیں ملاکر بیچی جارہی ہوں‘ زہریلے کیمیکلز‘ گوند اورضائع شدہ چینی کی مدد سے ''خالص‘‘ شہد تیارکیا جارہا ہواور سر درد کی گولیوں میں دیواروں کی سفیدی ملائی جاتی ہو‘ وہاں پر خداکو راضی کرنااتنا آسان نہیں دکھائی دیتا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں