چھ عشرے قبل روس نے دنیا کا پہلا مصنوعی سیارہ خلا میں بھیج کر دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ سرد جنگ کے دور میں یہ انقلابی پیش رفت سوویت یونین کی بہت بڑی کامیابی بن گئی تھی۔ گزشتہ روز کورونا وائرس پر ویکسین بنانے کا اعلان کر کے روس نے دنیا کو ایک مرتبہ پھر پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس ویکسین اور خلا میں پہلے سیارے کے حوالے سے بہت سی باتیں مشترک ہیں؛ مثلاً یہ کہ روس نے اس ویکسین کا نام سپٹنک فائیو رکھا ہے جبکہ خلا میں جو سیارہ بھیجاگیا تھا اس کا نام بھی سپٹنک تھا۔ سوویت یونین کا پہلا مصنوعی خلائی سیارہ‘ جو ایک خلائی جہاز تھا‘ صرف چند ماہ میں تیار کیا گیا تھا جبکہ کورونا ویکسین بھی چند ماہ کے قلیل عرصے میں ایجاد کر لی گئی۔ روسی صدر پیوٹن کے مطابق انہوں نے یہ ویکسین اپنی ایک بیٹی کو بھی دی ہے جس کے حوصلہ افزا نتائج آئے ہیں۔ شروع میں ان کی بیٹی کو تھوڑا تیز بخار ہوا لیکن اگلے دن بخار اتر گیا اور وہ بہتر ہو گئی اور اینٹی باڈیز بھی بننے لگیں۔ روس نے ویکسین جنوری میں مارکیٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس شاندار کامیابی پر سعودی عرب‘ بھارت سمیت کئی ممالک نے ایک ارب ویکسین کے آرڈر بھی دے دیے ہیں۔
دوسری طرف امریکہ شدید تنقید کی زد میں ہے کہ وہ ابھی تک اس معاملے میں پیچھے کیوں ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور عالمی ماہرین نے اس اقدام کو جلد بازی قرار دیا ہے اور ویکسین کے معیار پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کے مطابق اس ویکسین کو ابھی کئی تجرباتی مراحل سے گزرنا چاہیے۔ امریکہ بھی یہی سمجھتا ہے کہ ویکسین ایک خاص مدت تک ٹیسٹ نہ کر لی جائے تو اسے مارکیٹ میں لانا مناسب نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک‘ جن کی طرف سے ویکسین تیار کرنے کے دعوے گزشتہ مہینوں میں دیکھنے کو ملے‘ وہ اس کا مناسب دورانیہ گزرنے کے انتظار میں ہیں؛ تاہم روس کی اس ایجاد کو بالکل نظر اندا ز اس لئے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ روس اس سے قبل بھی بہت سی ایجادات کے معاملے میں پہل کر چکا ہے اور یہ درست بھی ثابت ہوئی ہیں۔
روس کی یہ ویکسین کتنی کارآمد ہے‘ یہ تو آئندہ چند ماہ میں معلوم ہو جائے گا لیکن اس کی تیاری کی خبر نے پوری دنیا کی معیشت میں ایک جان پیدا کر دی ہے۔ دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹس اس خبر سے قبل مندے کا شکار تھیں۔ انٹرسٹ ریٹ کی شرح امریکہ سمیت دیگر ممالک میں تاریخ کی کم ترین سطح پر آ چکی تھی اور سرمایہ کاروں نے اپنا پیسہ رئیل سٹیٹ‘ بینکوں اور دیگر کاروباروں سے نکال کر سونے کی خریداری میں لگا دیا تھا۔ چند روز قبل سونے کی فی اونس عالمی قیمت دو ہزار ڈالر کی سطح کو کراس کر گئی تھی جس کی وجہ سے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سونے کی فی تولہ قیمت ایک لاکھ تیس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ لوگ حیران تھے کہ ہر جانب کورونا کی وجہ سے معیشت زوال پذیر ہے‘ لوگوں کے پاس کھانے پینے کو پیسے ختم ہو چکے ہیں تو پھر یہ سونا کیسے اوپر ہی اوپر جا رہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں سب سے اہم کورونا کی وجہ سے پیدا ہونے والی غیر یقینی کی صورت حال تھی۔ امریکہ اور یورپی ممالک کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے جس کی وجہ سے لوگوں نے سونے میں سرمایہ کاری شروع کر دی۔ جدید ممالک میں سونا سرمایہ کاری کیلئے محفوظ ترین سمجھا جاتا ہے جبکہ پاکستان‘ بھارت جیسے ممالک میں لوگ خالص سونے کے بجائے جیولری میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ آپ نے شاید ہی کسی گوری میم کو سونے چاندی کے ہار‘ کڑے اور چوڑیاں پہنے دیکھا ہو۔ وہاں انگوٹھی یا معمولی سا ہار کبھی کبھار جیولری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ سونے کی قیمتوں میں اضافے کی دوسری بڑی وجہ چین امریکہ تنازع تھا جو کورونا وائرس اور اس سے قبل فائیو جی کے معاملے پر ایک دو سال سے چل رہا تھا۔ امریکہ نے چینی کمپنی ہواوے پر اپنے ملک میں پابندی لگا دی تھی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب کورونا آیا اور اس سے امریکہ کو زیادہ جانی نقصان پہنچنا شروع ہوا تو یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگی تھیں کہ یہ وائرس چین نے جان بوجھ کر بنا کر پھیلایا ہے تاکہ امریکہ سے فائیو جی ٹیکنالوجی اور چینی کمپنی کی امریکی بندش کا بدلہ لیا جا سکے۔ امریکہ نے چین کی معروف موبائل ایپ ٹک ٹاک پر بھی اپنے ملک میں پابندی عائد کر دی جس کی وجہ سے چین کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ کورونا کے دوران امریکی سٹاک ایکسچینج انہی خبروں کے باعث تنزلی کا شکار رہی۔ لیکن روس کے ویکسین کے اعلان پر امریکی سٹاک مارکیٹ میں تیزی آ گئی اور سرماریہ کاروں نے سونے سے اپنا پیسہ نکالنا شروع کر دیا۔ ایک روز قبل وہی سونا جو فی اونس دو ہزار ڈالر سے اوپر جا چکا تھا‘ ایک ہی دن میں اس ایک خبر کی وجہ سے ریکارڈ ایک سو انتیس ڈالر پر آ گیا۔ اب اگر روس کے بعد کسی اور ملک سے بھی ویکسین کی تیاری کی خبر آ جاتی ہے تو یہ پوری دنیا کی معیشت کیلئے اچھا شگون ہو گا۔ بھارت کی نسبت پاکستان پر اس کے زیادہ خوشگوار اثرات مرتب ہو ں گے کیونکہ پاکستان میں حکومت نے بڑی دانشمندی سے اس وبا کا مقابلہ کیا اور سمارٹ اور سیلیکٹو لاک ڈائون کے ذریعے نہ صرف جانی نقصان کم ہوا بلکہ ساتھ ہی ساتھ معیشت کا پہیہ بھی چلتا رہا۔ جون جولائی میں پاکستان کے ایکسپورٹ آرڈر خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ رہے۔ کنسٹرکشن انڈسٹری کیلئے حکومت نے بہت سے پیکیج دیے جس کے بعد تعمیراتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور جون میں سیمنٹ اور سریے کی پیداوار میں تیزی آئی۔ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس نے بھی پاکستان کی کورونا پر قابو پانے کی حکمت عملی کی تعریف کی ہے اور اسے دنیا کے لئے مثال قرار دیا ہے۔ دوسری جانب بھارت میں کیسز کی تعداد اب بھی تشویش ناک ہے۔ بھارت میں پچھلے دو ہفتوں سے نئے آنے والے کیسز کی تعداد پچاس ہزار روزانہ سے زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں یہ تعداد چھ سات سو تک محدود ہو گئی ہے۔
یہ کہنا درست نہیں کہ کورونا وائرس کا خطرہ مکمل ٹل گیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے سب سے بڑے شہر میں دوبارہ کورونا نے سر اٹھایا ہے جس پر وہاں دوبارہ لاک ڈائون کر دیا گیا ہے۔ کئی مغربی ممالک سے بھی ایسی ہی خبریں آ رہی ہیں۔ پاکستان میں کیسز کی شرح انتہائی کم ہو چکی ہے اور اسی وجہ سے ملک میں لاک ڈائون عملی طور پر ختم ہو چکا ہے۔ ہزاروں‘ لاکھوں لوگ سیاحتی مقامات کی جانب نکل گئے ہیں؛ اب اس کے نتائج کیا نکلیں گے یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے کیونکہ بہت سے لوگ تو کورونا کی شدت کے دوران بھی احتیاط نہیں کرتے تھے اور اسے عالمی سازش قرار دیتے تھے۔
روس کی ویکسین آنے میں ابھی وقت لگے گا اس لئے بد احتیاطی کا مظاہرہ کرنا کوئی بہادری نہیں۔ ویسے بھی اربوں کی تعداد میں ویکسین کی جلد تیاری ممکن نہیں۔ پھر اس کی قیمت کیا طے پاتی ہے‘ اس کا بھی کسی کو اندازہ نہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ہر کسی کے لئے مہنگی ویکسین افورڈ کرنا آسان نہیں۔ یہاں تو والدین بچوںکو ضروری ٹیکے بھی مہنگے ہونے کی وجہ سے نہیں لگوا پاتے۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں شاید ہرڈ امیونٹی مکمل ہو چکی ہے جس کی وجہ سے کیسز کم ہو رہے ہیں لیکن اس بارے میں حتمی رائے دینا ممکن نہیں۔ کچھ لوگ وبا کے دوسرے حملے کی بات کر رہے ہیں جو سردیوں میں متوقع ہے لیکن فی الوقت یہ سب افواہیں ہیں۔ ویسے بد احتیاطی میں ہماری قوم کا کوئی ثانی نہیں کہ حکومت کی جانب سے بار بار تنبیہ کے باوجود عوام نے احتیاط کا دامن تار تار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ یہ تو خدا کا خاص کرم ہے کہ پاکستان اس وبا سے دنیا کی نسبت بہت زیادہ محفوظ رہا وگرنہ گندا پانی‘ ناخالص دودھ‘ مضر صحت کھانے‘ ملاوٹ شدہ ادویات اور بدترین فضائی آلودگی کے ساتھ زندگی گزارنے والی قوم کا انتہائی خطرناک وائرس سے بچ نکلنا غیر معمولی کارنامے سے کم نہیں۔