دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آخر ایک اور عرب ملک نے اسرائیل کو کیونکر تسلیم کر لیا اور کیوں اس کے ساتھ کئی شعبوں میں معاہدے کر رہا ہے۔ آخر اسرائیل اور یہودیوں کے پاس وہ کون سی طاقت اور جادو ہے کہ وہ مٹھی بھر ہو کر بھی تیزی سے دنیا پر حاوی ہوتے جا رہے ہیں۔ یہودی صرف موت کی فیکٹریاں لگانے کے ہی ماہر نہیں بلکہ دنیا کا کوئی بھی شعبہ لے لیں‘ یہ ہر شعبے میں ٹاپ پوزیشنوں پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی ایک یہودی کو مارے تو بدلے میں یہ دس مخالفین کو قتل کر دیتے ہیں۔ قتل و غارت کے باوجود ان کا زیادہ فوکس سائنس اور ایجادات پر ہے۔ آج کمپیوٹر کے جتنے بھی سافٹ ویئر بن رہے ہیں ان میں سے آدھے اسرائیل میں تیار ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں پھیل جاتے ہیں۔ آج تک طب کے شعبے کی گیارہ عظیم ترین ایجادات یہودیوں کے ہاتھوں ہوئی ہیں مثلاً اگر جانس سالک پولیو ویکسین ایجاد نہ کرتا تو دنیا بھر میں روزانہ پندرہ لاکھ بچے پیدائش کے پہلے تین سالوں میں معذور ہو جاتے‘ اگر بروچ بلومبرگ ہیپاٹائٹس بی کا علاج دریافت نہ کرتا تو سالانہ دو کروڑ لوگ اس بیماری سے جان گنوا بیٹھتے اور اگر ولیم کوف گردوں کی ڈائلیسز مشین ایجاد نہ کرتا تو آج ہر ساتواں شخص گردے فیل ہونے پر زندگی کی بازی ہار جاتا۔
آج کورونا کے حوالے سے ویکسین کے لئے ایک سو سے زیادہ ٹرائل چل رہے ہیں۔ روس نے اگرچہ یہ ویکسین بنانے کا دعویٰ کیا ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ جو ویکسین دنیا میں اپنی جگہ بنائے گی وہ بالآخر یہودیوں کی ہی ہو گی کیونکہ صرف ویکسین بنانا ہی اصل کام نہیں بلکہ اسے عالمی ادارۂ صحت کے ذریعے دنیا میں فروخت کی اجازت دلوانا اصل کام ہے۔دنیا کا سب سے بڑا انعام نوبیل پرائز ہے جو کسی شخص کو اُس کی عظیم خدمات کے اعتراف میں دیا جاتا ہے۔حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ سوا صدی میں 180یہودیوں نے نوبیل پرائز حاصل کیا جبکہ صرف دو مسلمان نوبیل پرائز کے مالک بنے۔ تاریخ کو بدلنے والی ایجادات بھی یہودیوں کے ہاتھوں ہوئیں۔ اگرسٹینلے میزر مائیکروپروسیسر نہ بناتا تو آج کمپیوٹر کا نام و نشان نہ ہوتا‘ اگر پیٹرشلز آپٹک فائبر کیبل نہ بناتا تو ٹیلی فون‘ وڈیو کانفرنسنگ اور انٹرنیٹ کے نظام کا وجود نہ ہوتا۔آپ یہودیوں کی معاشی طاقت بھی دیکھ لیجئے۔ آج دنیا کے دس بڑے کاروبار یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی کولڈ ڈرنکس کمپنی ایک یہودی کی ملکیت ہے جس کی روزانہ آمدنی پاکستان کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ انٹرنیٹ کا سب سے بڑا سرچ انجن دو یہودی طالب علموں لیری پیج اور سرجی بن نے بنایا تھا۔ یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا‘ بچوں کیلئے خشک دودھ کے ڈبے‘وڈیو ٹیپ ریکارڈر‘ ٹیلی فون‘ مائیکرو فون‘ سائونڈ موویز حتیٰ کہ ٹریفک لائٹس اور سٹین لیس سٹیل کے برتن تک یہودیوں کے ہاتھوں ایجاد ہوئے۔ آج امریکی خارجہ پالیسی‘ امریکی معیشت اور امریکی حساس اداروں میں یہودیوں کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا۔ یہودیوں کے اس چیلنج کا مقابلہ ناممکن تو نہیں لیکن اگر کچھ انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں تو نتائج آج نہیں تو کل مختلف بھی ہو سکتے ہیں اور اس کیلئے سب سے پہلے اپنے اندر وژن‘ خود اعتمادی اور فیصلہ سازی کو زندہ کرنا ہو گا۔ ہر چوک‘ہر چوراہے‘ہر قصبے اور ہر شہر میںسنوکر کلبوں‘ فوڈ پوائنٹس اوربرگر کارنرز کی جگہ لائبریریاں‘ لیبارٹریاںا ور سٹڈی پوائنٹس بنانا ہوں گے‘دنیا بھر کے اخبارات‘ رسائل‘ جرائد‘ کتابوں اور تحقیقی مواد کو سکولوں سے لیکر یونیورسٹوں تک عام کرنا ہو گا۔ پی ایچ ڈی طالب علموں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہو گا‘تعلیم کا بجٹ بڑھانا ہو گا‘ کمپیوٹر سائنس کی تعلیم عام کرنا ہو گی اورسب سے بڑھ کر یہ کہ غیر معمولی کارکردگی دکھانے والے طلبہ اور ہنر مند افراد کو ہر ممکن سپورٹ فراہم کرنا ہو گی۔ اسرائیل نے بھی ایسے ہی کیا تھا۔ یقین کیجئے اگر ہم نے اس راستے پر چلنا شروع کر دیا اوراگر ہم نے وژن‘ خود اعتمادی اور فیصلہ سازی کی چادر اوڑھ لی تو پھر ہمیں اسرائیل سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔آج عرب ممالک اسرائیل کے ہاتھوں میں اگر کھیل رہے ہیں تو اس کی وجہ خود ان کی اپنی کمزوریاں ہیں‘ پاکستان جیسا ملک جنہیں دہرانے کی غلطی نہیں کر سکتا۔
پاکستان کو اسرائیل یا امریکہ بننے میں دو سو برس لگیں گے‘ تب تک یہ ملک کہاں کے کہاں پہنچ چکے ہوں گے۔ فی الوقت ہم جو کر سکتے ہیں کم از کم ہمیں وہ تو کرنا چاہیے۔ میں کہتا ہوں اگر ہم اتنے بڑے سکیل پر یہودیوں کی ایجادات کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو ہنر اور سکلز کو توعام کر ہی سکتے ہیں۔ اس سے ملک میں بے روزگاری میں بھی کمی آئے گی اور معیشت بھی بہتر ہو گی۔ دنیا میں جہاں چاہے چلے جائیں‘ آپ کو چند شعبے ایسے ملیں گے جن کی مانگ ہر جگہ اور ہر وقت رہتی ہے اور ان کی بدولت مناسب روزگار چلایا جا سکتا ہے۔ الیکٹریشن‘ موٹر مکینک‘ رنگساز‘ پلمبر‘ بڑھئی‘ درزی‘ کمپیوٹر اور موبائل فون مکینک چند ایسے شعبے ہیں جن کیلئے بہت لمبا کورس کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور کام میں مہارت آ جائے تو سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔ یہ لوگ ایک ٹول کٹ اور ایک موبائل فون کے ذریعے ہر طرح کے حالات میں اپنا گزارا کر لیتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بیروزگاری اور مہنگائی ہے۔ لیکن کوئی اس پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ ہماری حکومتوں کی معاشی پلاننگ انکم سپورٹ پروگرام پر ختم ہو جاتی ہے جس کے تحت لوگوں کو مانگنے والا بنایا جاتا ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی سابق حکومتوں کے کئی ایسے منصوبوں کو نام بدل کر جاری کر دیا ہے۔ اس کے بجائے اگر ملک میں چھوٹے چھوٹے کارخانے‘ فیکٹریاں لگائی جاتیں‘ لوگوں کو ہنر سکھائے جاتے‘ وہ چیزیں بنائی جاتیں جو باہر سے دھڑا دھڑ منگوائی جا رہی ہیں تو بیروزگاری بھی کم ہو سکتی تھی اور آمدنی کے نئے در بھی کھل سکتے تھے۔ جس طرح سے کورونا کے دوران پاکستان نے ماسک‘ سینی ٹائزر ملک میں تیار کر لئے اسی طرح اگر دیگر شعبہ جات میں عام حالات میں بھی اشیا بنائی جائیں تو لاکھوں خاندانوں کا چولہا جل سکتا ہے اور ہم درآمدات کا بوجھ بھی کم کر سکتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ ہر کام حکومت ہی شروع کرے۔ ہم کمیونٹی کی سطح پر بھی اس طرح کے منصوبے شروع کر سکتے ہیں جس میں علاقے کے لوگوں کو ہنر یافتہ بنایا جائے اور لوگوں کو اپنے علاقے میں سہولتیں میسر آ سکیں۔اس کیلئے بہت زیادہ سرمائے کی نہیں بلکہ مضبوط ارادے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم لوگ اپنے علاقے میں چار‘ آٹھ یا بارہ افراد کا گروپ بنا لیں‘ ہم ایک فنڈ قائم کر لیں اوران پیسوں سے ہنرمندافراد کو ہائر کر لیں‘ اس کے بعد اشتہارات کے ذریعے بیروزگاروں کو پیغام دیں‘ انہیں مفت ٹریننگ اور ٹول کٹس مہیا کریں‘ انہیں بتائیں کہ چھوٹا موٹا کام کرنا بے عزتی نہیں بلکہ انسان کی عزت کام چوری سے گھٹتی ہے۔ یہ گروپ لوگوں کو سمجھائے کہ آج کورونا کی وجہ سے اگر بیروزگاری آئی ہے‘ نوکری چلی گئی ہے تو کم از کم اس وقت سے ہی کچھ سیکھ لو‘ کوئی ہنر حاصل کر لو‘ کہیں یہ نہ ہو کل کورونا سے بڑی کوئی آفت آ جائے۔ آج ہاتھ میں ہتھوڑی‘ پلاس‘ پیچ کس‘ رینچ اور آری اٹھاتے ہوئے تو شرما رہے ہو لیکن کل کورونا سے بڑی مصیبت آ گئی اور مفلسی اور بھوک نے تمہیں بے حال کر دیا تو تم کشکول‘ زہر اور اسلحہ اٹھانے پر بھی شرمندگی محسوس نہیں کروگے۔ عقلمند انسان وہی ہوتا ہے جو حالات کی نزاکت کو سمجھتا ہے‘ ہم مسلمان اگر یہودیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘ اگر یہ بہت بڑی ایجادات نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنی روزی روٹی کا سلسلہ چلانے کے لئے ایک آدھ ہنر تو سیکھ ہی سکتے ہیں۔یہودیوں کو گالیاں دینے سے تو ہمارا چولہا نہیں جل سکتا۔