خدا خدا کر کے کورونا سے جان چھوٹ رہی تھی کہ دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کورونا کی دوسری لہر نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ہم ان ملکوں میں سے تھے‘ جہاں انتہائی کم جانی نقصان ہوا‘ حالانکہ ہماری معیشت بھارت سے بھی کمزور تھی لیکن یہ خدا کا خاص کرم ہے کہ جولائی کے بعد کیسز نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔ اس میں حکومت کی سمارٹ لاک ڈائون پالیسی کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔ یہ پالیسی دیگر ملکوں نے بھی اپنائی لیکن وہاں کامیابی کا تناسب نسبتاً کم رہا‘حالانکہ جدیدممالک میں صحت کی سہولتیں پاکستان سے کئی گنا بہتر ہیں۔وینٹی لیٹر کی دستیابی البتہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ جدید ممالک بھی وینٹی لیٹر باہر سے منگوانے پر کیوں مجبور ہیں۔اس کی ایک وجہ مریضوں کی زیادہ تعداد بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کورونا کی تباہی کا اندازہ کسی کو نہ تھا۔ اب پاکستان میں سموگ کا موسم بھی آیا چاہتا ہے جس میں ماسک ویسے بھی لازمی پہننے چاہئیں۔ بچوں اور بوڑھوں کیلئے سردی اور سموگ‘ دونوں انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ اوپر سے کورونا کا خطرہ بدستور موجود ہے اور روز بروز بڑھ رہا ہے۔ سردیاں بھی شروع ہو رہی ہیں اور گزشتہ روز سات سو کے قریب کیسز رپورٹ ہونے کی خبر نے حکومت اور عوام دونوں کو خطرے سے خبردار کر دیا ہے۔اگر ہم پیچھے جائیں تو مارچ کے اوائل میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال تھی۔ شروع کے کچھ دنوں میں کیس ایک سو سے بھی کم تھے، پھر آہستہ آہستہ یہ پانچ سو روزانہ تک پہنچ گئے پھر دنوں میں کئی گنا زیادہ ہونا شروع ہو گئے۔
گزشتہ روز وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل نے عوام کو خبردار کیا کہ اسلام آباد اور دیگر شہروں میں کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے‘عوام نے احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کیا تو خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ جس طرح سے اس وبا پر قابو پانے کے طور طریقے ہم نے سیکھے‘ انہیں اسی انداز میں لاگو کرنا ہو گا۔ ڈاکٹر فیصل سلطان کے ٹی وی پر آکر خبردار کرنے کا ایک مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ کورونا واقعی تیزی سے پھیل رہا ہے اور آئندہ دو تین ہفتوں میں صورتحال کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے کیسز اتنے نہ بڑھے ہوں لیکن وہ عوام کو پیشگی خبردار کرنا چاہتے ہوں جیسے کورونا میں تیزی کے دنوں میں ہرروز پریس کانفرنس کی جاتی تھی تاکہ عوام اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں کیونکہ یہاں ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جائے تو لوگ بڑے سے بڑا واقعہ بھی بھول جاتے ہیں۔ اس وقت عوام کو خبردار کرنے اور ضروری پیغام پہنچانے کا بہترین ‘ موثر اور فوری ذریعہ موبائل فون ہی ہیں۔ ہرموبائل فون صارف اوسطاً روزانہ چار سے پانچ گھنٹے فون استعمال کرتا ہے۔ پھر ایک دوسرے کو کال کرتے ہوئے بھی رِنگ ٹون کی جگہ کورونا سے متعلق سرکاری پیغامات چلائے جاتے ہیں۔سکولوں ‘ دفاتر اور کاروباری جگہوں پر بھی ایس او پیز کے نفاذ پر زور دیا جاتا ہے لیکن عوام کی جانب سے بداحتیاطی بدستور بڑھ رہی ہے۔
گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ملک میں کورونا کے سبب19 اموات ہوئی ہیں جو الارمنگ سچویشن ہے۔ اٹلی کو بھی عوام کی بداحتیاطی کی وجہ سے بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ امریکا اور دیگر جدید ممالک میں بھی لوگ حکومت کی بات سننے کو تیار نہ تھے۔ انہیں پارٹیوں‘ گیمنگ اور آئوٹنگ سے روکا جا رہا تھا‘ پانچ‘ دس فیصد طبقہ مگر ان باتوں پر کان دھرنے کو تیار نہ تھا اور یہی وہ پانچ دس فیصد لوگ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کورونا کے کیسز دنوں اور ہفتوں میں کئی گنا ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ لوگ جب دن میں پانچ‘ دس لوگوں کو ملتے ہیں تو ان میں وائرس منتقل کر دیتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہر بڑی اور اچھوتی خبر کو جھوٹ اور افواہ سمجھا جاتا ہے‘ مسائل اس وقت اور بھی پیچیدہ ہو جاتے ہیں جب لوگ کورونا کو بیماری ماننے کو تیار نہیں ہوتے۔ کوئی اسے حکومت کی بیرونی دنیا سے امداد بٹورنے کی سازش قرار دیتا ہے تو کوئی بل گیٹس اور چین کی ملی بھگت قرار دیتا ہے۔ جب تک لوگوں کے اپنے عزیزوں یا جاننے والوں کو کورونا ہو نہیں گیا‘ تب تک کسی نے یقین کرنا گوارا نہ کیا۔
ہمارے ہاں کسی بھی شعبے میں احتیاطی تدابیر اپنانے کا فقدان موجود ہے۔ یہاں کروڑوں روپے کی ملٹی سٹوری بلڈنگ کھڑی کر دی جائے گی لیکن اس سے نکلنے کیلئے ہنگامی راستے ہوں گے نہ ہی آگ بجھانے کے ضروری آلات۔ گزشتہ دنوں گلبرگ لاہور میں الیکٹرونکس کے ایک معروف پلازے میں ہونے والی آتشزدگی اس کی ایک مثال ہے۔ ایک خبر کے مطابق روزانہ یہاں پندرہ کروڑ روپے سے زائد کا کاروبار ہوتا ہے لیکن مجال ہے کہ یہاں پندرہ لاکھ بھی حفاظتی بچائو کیلئے خرچ کئے گئے ہوں۔ مجھے یاد ہے آج سے پچیس تیس برس قبل کوئی یہاں دکان لینے کو تیار نہ تھا۔اس وقت ابھی موبائل فون عام نہ ہوا تھا بلکہ کمپیوٹر بھی امیر طبقہ ہی استعمال کرتا تھا۔ اس لئے اس وقت دکان سستی اور آسانی سے مل جاتی تھی۔ مگر اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کے انقلاب نے اس پلازے کو چار چاند لگا دیے۔ اردگرد بھی کئی الیکٹرونک اشیا کی خریداری کے پلازے بنے لیکن یہاں لوگوں کا ہجوم بڑھتا ہی گیا۔ ایک ایک دکان کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے بیچا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پلازے میں دکانوں کی تعداد تین گنا ہو گئی جس کی وجہ سے پلازہ بجلی کی تاروں کا ایک جنجال پورہ بن گیا۔ یہ کاروبار اتنی ہی شدت کے ساتھ کسی جدید ملک کے پلازے میں ہو رہا ہوتا تو وہاں جگہ جگہ آٹو میٹک فائر کنٹرول آلات اور الارم لگے ہوتے۔ ابھی تو صد شکر کہ آگ اس وقت لگی جب وہاں گاہک نہ تھے؛تاہم اتوار کو صبح کے وقت آگ لگنا بھی ایک معمہ ہے کیونکہ اس وقت بجلی کا تمام لوڈ آف ہوتا ہے۔ چھٹی والے دن یو پی ایس اور اِکا دُکا بلبوں کے علاوہ سب کچھ بند ہوتا ہے اس لئے اس واقعے کی تفتیش ہر زاویے سے ہونا چاہیے کہ ایک طرف تو کورونا نے چند ماہ قبل تاجر برادری اور ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کیا ہوا تھا‘ اب اس آگ نے نہ صرف سینکڑوں تاجروں کا کروڑوں کا نقصان کیا بلکہ کروڑوں کی آبادی کیلئے سروسز بھی معطل کر دیں۔ آئی ٹی سے متعلقہ کوئی بھی گیجٹ لینا ہو‘ہر کسی کی اولین ترجیح یہی جگہ ہوتی تھی جبکہ آئی ٹی کی دوسری بڑی مارکیٹ ہال روڈ ہے لیکن وہاں پر پارکنگ کا کوئی خاص انتظا م نہیں اورنہ ہی اتنی بڑی تعداد میں دکانیں اور اشیا موجود ہیں۔
اصولی طور پر تو اس پلازے کا آڈٹ ہونا چاہیے کہ اس کے نقشے میں کتنی دکانیں دی گئی تھیں اور بعد میں غیرقانونی طریقے سے کتنی بڑھائی گئیں‘اس کی مکمل چھان بین ہونی چاہیے۔ چند ٹکوں کے منافع کیلئے دوسروں کی جانوں اور مال سے کھیلنا کہاں کی دانشمندی ہے؟ شہر میں کوئی بھی ایسی بلند عمارت منظور نہیں ہونی چاہیے جہاں پر ضروری حفاظتی انتظامات نہ کئے جائیں۔ اب بھی لاہور میں سینکڑوں کمرشل اور رہائشی پلازے غیرقانونی طور پر بنے ہوئے ہیں۔ ان کی انسپکشن کی خبریں بھی آتی ہیں لیکن عملی طور پر کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ ان حالات کو دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اس ملک کو نئے سرے سے تعمیر کرنا پڑے گا۔ یا پھر سب کچھ بھلا کر آگے بڑھنا ہو گا۔ ہم بدقسمتی سے دونوں کام کرنے کو تیار نہیں۔ جب ہم ماضی کو بھول کر آگے بڑھتے ہیں تو ایک طبقہ گڑے مردے اکھاڑ کر واویلا مچانا شروع کر دیتا ہے اور جب نئے سرے سے کوئی کام شروع کیا جاتا ہے تو اسے وقت اور پیسے کا ضیاع قرار دیا جاتا ہے‘ یوں ''آٹا گوندھتی ہے تو ہلتی کیوں ہے‘‘ کے مصداق ہر کوئی ایک دوسرے کو طعنے دینے اور منفی تنقید میں لگا ہوا ہے۔ نقصان سب کے سامنے ہے۔ کورونا جس پر ننانوے فیصد قابو پا لیا تھا‘ وہ بھی واپس آ رہا ہے کیونکہ اپوزیشن کو عوام کی جانوں سے زیادہ اپنی سیاست اور جلسوں کی فکر ہے اور رہی بات عوام کی تو وہ جدھر سے بریانی‘ کھیر کی آوازیں آتی ہیں‘ اُدھر کو چل پڑتے ہیں۔