نعیم بخاری پی ٹی وی کے چیئرمین بنے ہیں تو نجانے کیوں پھر سے یہ امیدیں جاگ اٹھی ہیں کہ شاید پی ٹی وی پر وہی ڈرامے اور پروگرامز نظر آنے لگیں جو ستر‘ اسّی اور نوے کی دہائی میں اس کا خاصہ سمجھے جاتے تھے اور جو پی ٹی وی کی پہچان بن گئے تھے۔ انٹرنیٹ کی مہربانی ہے کہ آج گھر بیٹھے یہ تمام ڈرامے جب چاہے دیکھے جا سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اندھیرا اجالا‘ ففٹی ففٹی‘ تنہائیاں اور الفا براوو چارلی جیسے درجنوں ڈرامے ایسے ہیں جو ہر بار دیکھنے پر نیا لطف دیتے ہیں۔ دوسری جانب آج کل کے ڈرامے ہیں جنہیں ایک بار بھی مکمل دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پی ٹی وی بنیادی طور پر ڈرامہ ٹی وی تھا۔ نیوز چینلز کا اس وقت رواج نہ تھا اور نہ ہی خبروں میں اتنی تیزی تھی۔ آج کل تو ہر بات کو خبر بنا کر بریک کرنے کی روایت چل پڑی ہے۔ اس وقت درجنوں نجی ڈرامہ چینلز چل رہے ہیں لیکن میری نظر میں یہ ماضی کے پی ٹی وی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ پی ٹی وی کے ان ڈراموں کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب انٹرنیٹ نہیں آیا تھا‘ تب بھی پوری دنیا میں یہ ڈرامے وڈیو سی ڈیز کی شکل میں پھیل چکے تھے اور لوگ روزانہ رات کو کھانے کے بعد شوق سے انہیں دیکھتے تھے۔ ایئر پورٹس سے لے کر بڑے بڑے مالز تک ان ڈراموں کی وڈیوز اور سی ڈیز ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی تھیں۔ وہ لوگ جن کا بچپن اور جوانی ان یادگار ڈراموں کو دیکھتے گزرے‘ وہ آج کل کے برگر ڈراموں کو دیکھ ہی نہیں سکتے۔ اور جو بعد میں پیدا یا بڑے ہوئے جب وہ انٹرنیٹ پر ان پرانے ڈراموں کو دیکھتے ہیں تو ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ آج کل ایسے سیریلز کیوں نہیں بنتے۔ یہ سوال بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ آخر اب ایسی کہانیاں سرکاری ٹی وی پر کیوں پیش نہیں کی جاتیں؟ کیا بجٹ کی کمی ہے یا کوئی اور انتظامی مسئلہ؟ کیا ویسے مصنف اب نہیں رہے یا پھر آج کل ڈیمانڈ ہی بدل چکی ہے؟ یہ سوال لوگوں کے ذہنوں میں اس لئے بھی گردش کرتا ہے کہ آج کل انفوٹینمنٹ کا زمانہ ہے۔ ٹک ٹاک جیسی ایپس نے ہر شخص کو اداکار بننے کا موقع فراہم کر دیا ہے اور ملک بھرسے ٹیلنٹ سامنے آ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر مزاحیہ وڈیوز کا سیلاب آیا ہوا ہے ان میں اکثریت اگرچہ بھونڈے مذاق پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن بعض افراد انتہائی کمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بیس تیس برس قبل ٹی وی پروڈکشن انتہائی مہنگا اور دقت طلب کام تھا‘ حتیٰ کہ سٹل فوٹو گرافی بھی ہر کسی کی پہنچ میں نہ تھی۔ کیمرے کی فلم میں چوبیس یا چھتیس تصاویر کی گنجائش ہوتی تھی اور فلم دھوتے وقت کئی تصاویر خراب بھی ہو جاتی تھیں۔ ایک فلم چار‘ پانچ سو سے کم نہیں آتی تھی اور اسے دھلوانے کا خرچ الگ تھا۔ اسی لئے بڑی احتیاط سے تصاویر کھینچی جاتیں۔ آج کل کی طرح نہیں کہ اب تو موبائل فونز میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں تصاویر اور وڈیوز محفوظ کی جا سکتی ہیں۔ وہ زمانہ اس لحاظ سے کافی مہنگا تھا اور شاید معیار بھی اسی لئے اعلیٰ تھا کہ ہر کام احتیاط اور محنت کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ پیسے اور وقت کا ضیاع ایک جرم تصور ہوتا تھا۔ پھر یہ بھی تھا کہ جتنے بھی سنجیدہ یا مزاحیہ ڈرامے نشر کئے جاتے تھے‘ ان میں کوئی نہ کوئی سبق اور اہم پیغام پنہاں ہوتا تھا۔ چاہے وہ گیسٹ ہائوس ہو یا پھر اندھیرا اُجالا‘ کسی کو دیکھ کر یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ آپ کا ایک گھنٹہ ضائع ہوا۔
آج آپ سوشل میڈیا پر‘ موبائل سکرین پر روزانہ گھنٹوں انگلیاں مارتے ہیں‘ ایک دومنٹ سے لے کر دس منٹ کے درجنوں وڈیو کلپس دیکھتے ہیں اس کے باوجود اگلے دن آپ کو ایک کلپ‘ کوئی ایک واقعہ بھی یاد نہیں رہتا۔ اس کے مقابلے میں آپ کسی سے چالیس برس پرانے وارث ڈرامے کا پوچھ لیں وہ آپ کو فرفر ساری کہانی سنا دے گا۔ آج کل کرائم سٹوریز پر نیوز چینلز ری اِین ایکمنٹ کر کے پروگرام چلاتے ہیں جو خاصے دیکھے جاتے ہیں لیکن ان میں جرم اور مجرم دونوں بڑھا چڑھا کر دکھائے جاتے ہیں لیکن عوام کی اخلاقی تربیت کا کوئی لحاظ نہیں کیا جاتا۔ فلاں نے فلاں کو کیسے قتل کیا‘ لاش کیسے ٹھکانے لگائی بس ان چیزوں کو دکھا کر ریٹنگ کمانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ کرائم سٹوریز پر مبنی ایک ڈرامہ اندھیرا اُجالا بھی تھا جس میں قوی خان‘جمیل فخری اور عرفان کھوسٹ نے کمال اداکاری کی اور ہر قسط میں معاشرے کے بھیانک کرداروں کو بے نقاب کرتے ہوئے ان سے بچنے کی تدابیر بھی بتائیں۔ ہر قسط کے آخر میں جب مجرم پکڑا جاتا تو قوی خان سینئر پولیس آفیسر کے روپ میں دو تین منٹ ایسے جملے بولتے جو معاشرتی حقیقت کی عکاسی اور ترجمانی کرتے۔ اس قدر حساس موضوع پر بننے والے ڈرامے میں بھی 'حوالدار کرم داد‘ لوگوں کو ہنسانے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتا۔ اسی طرح دو کمروں میں بنے گیسٹ ہائوس ڈرامے نے بھی لوگوں کو آج تک مسحور کیا ہوا ہے اور اسی ڈرامے کا کردار 'ریمبو‘ آج تک لوگوں کے دلوں پر راج کر رہا ہے۔
نعیم بخاری نے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے کے بعد آج کے پی ٹی وی کو ماضی سے جوڑنے کی بات کی اور ففٹی ففٹی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان کی کوشش ہو گی کہ اس چینل پر دوبارہ وہی مناظر‘ کہانیاں اور کردار نظر آئیں جو اس کا خاصہ تھے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان سٹیل ملز‘ پی آئی اے اور پی ٹی وی‘ یہ تینوں چند ماہ یا چند برسوں میں زوال کا شکار نہیں ہوئے بلکہ ماضی کی حکومتوں کی نااہل‘ من پسند اور دھڑا دھڑ تقرریوں کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچے ہیں کہ سٹیل ملز جیسے ادارے سے حکومت کو ہزاروں کی تعداد میں برطرفیاں کرنا پڑیں۔ اگر یہ لوگ اداروں کیلئے فائدہ مند ہوتے تو پھر ادارے بھی ترقی کرتے لیکن اربوں روپے سالانہ کھا جانے والے یہ سفید ہاتھی معیشت اور عوام‘ دونوں کا خون نچوڑ رہے تھے۔ جس طرح پی ٹی وی میں نعیم بخاری جیسی ادبی اور موزوں شخصیت کو لگایا گیا ہے‘ اگر سٹیل ملز اور دیگر اداروں میں بھی ایسی تقرریاں کی جائیں اور انہیں اداروں کو پھر سے اٹھانے کا ٹاسک دیا جائے تو بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔
رواں برس ترک ڈرامے 'ارطغرل غازی‘ کو وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر پی ٹی وی پر نشرکیا گیا تو اس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ اگرچہ یہ ہماری پروڈکشن نہیں تھی لیکن ان لوکل نجی ڈراموں سے لاکھ درجے اچھی تھی‘ جو نشر ہو رہے ہیں یا ان بھارتی ڈراموں اور فلموں سے کروڑ گنا بہتر تھی جو ممنوعہ سیٹلائٹ ریسیور لگا کر دیکھے جا رہے ہیں۔ اگر 'شاہ جی‘ خود کوئی اچھی سیریل نہیں بنا سکے تو انہیں ارطغرل غازی پر اعتراض بھی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ طنز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ڈرامے میں چار گھوڑے بھاگے پھرتے ہیں‘ وہی گھوڑے ہیرو اور ولن دونوں پارٹیوں کے استعمال میں آتے ہیں۔ بھائی اگر چار گھوڑے بھی تھے تو پھر بہت ہی کمال ہوا کہ اتنی کم لاگت میں اتنی بڑی سیریل بنا ڈالی ترکی نے۔ آپ کو تو چالیس گھوڑے بھی دے دیے جائیں تو گنڈاسوں‘ دو دو من کی ہیروئنوں اور مار دھاڑ دکھانے کے علاوہ کوئی تیر نہیں مار سکیں گے۔ دوسروں پر تنقید کرنے سے بہتر ہے کہ ہمارے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر اپنی ثقافت اور اقدار کو دیکھتے ہوئے کام کریں۔ فی الوقت جتنے بھی سیریلز چل رہے ہیں وہ بھارتی ڈراموں کا چربہ ہیں اور موضوعات ان سے بھی گھٹیا۔ شادی شدہ خواتین کے غیر محرموں کے ساتھ تعلقات اور دیگر ایسے موضوعات کو آج ڈراموں کا نام لے کر چلایا جا رہا ہے اور جب اعتراض کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ اس کی ڈیمانڈ بہت ہے۔ بھئی ڈیمانڈ دیکھنی ہے تو کیا فحاشی کی آخری سطح کو چھو لو گے؟ اگر یہ کام نہیں آتا تو کوئی دوسرا کر لو۔ ضرور اِدھر سینگ پھنسانے ہیں۔ آج کل ٹیکنالوجی سستی بھی ہے اور بے بہا بھی۔ اداکار بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود ہیں اور مصنف بھی۔ دیکھتے ہیں نعیم بخاری کیسے ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔