دو ہزار بیس کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سال ضائع چلا گیا کیونکہ اس کے آغاز میں ہی کورونا آ چکا تھا اور مارچ اپریل تک پوری دنیا میں پھیل گیا تھا‘ جس کی وجہ سے بہت سے کاروبار اور معیشتیں تباہ ہو گئیں۔ لاکھوں نوکریاں چلی گئیں اور بہت سے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ یہ بات نقصان کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سال اکیسویں صدی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے دنیا میں ایجوکیشن‘ کاروبار‘ انٹرٹینمنٹ اور مارکیٹنگ جیسے درجنوں شعبوں کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔ اسی سال جہاں سینکڑوں کمپنیاں ڈیفالٹ ہو گئیں‘ ادارے کولیپس کر گئے اور سرمایہ کاریاں ڈوب گئیں‘ وہیں بہت سی کمپنیاں اور بہت سے کاروباروں میں سینکڑوں فیصد تیزی آ گئی۔ کورونا نے ہماری بہت سی کمیوں کو آشکار کیا اور ہمیں بہت سے مسائل کے نئے نئے حل بھی بتائے۔ کورونا نے بہت سی متھز بھی توڑیں۔ مثلاً کئی کام ایسے تھے جو فاصلے پر رہ کر بھی کئے جا سکتے تھے اور جن کیلئے ہم بہت سا وقت‘ پٹرول‘ انفراسٹرکچر اور پیسے ضائع کرتے تھے‘ وہی کام بہت کم وقت‘ کم پیسوں اور زیادہ بہتر انداز میں کئے جانے لگے۔ لوگوں کو اپنی چیزیں مارکیٹ کرنے کا طریقہ آ گیا۔ سوشل میڈیا کا استعمال بڑھ گیا اور اس میڈیم کے ذریعے ایک پروڈکٹ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک انتہائی سرعت کے ساتھ متعارف ہو گئی۔ لوگوں کو نئے نئے آئیڈیاز کا پتا چلا‘ نئی مارکیٹیں اور نئی مصنوعات اور ان کی طلب کے بارے میں علم ہوا۔ اس سال پوری دنیا میں تعلیم آن لائن چلی گئی۔ سکول کالج یونیورسٹیاں سب بند ہو گئے اور طالب علم گھروں میں کمپیوٹر اور موبائل فون کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں انٹرنیٹ عام نہیں ہوا‘ نہ ہی سب کو لیپ ٹاپ میسر ہیں‘ وہاں طلبا کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ والدین بھی بچوں اور سکولوں سے مطمئن دکھائی نہیں دئیے۔ سکولوں نے طلبا کا کورس محدود کر دیا۔ چار پانچ ماہ تو ویسے ہی تعلیمی ادارے مکمل بند رہے۔ پھر کھلے تو ہفتے میں صرف دو روز؛ تاہم جدید ممالک میں طلبا کو کوئی مشکلات پیش آئیں نہ ہی تعلیمی اداروں کو کیونکہ وہاں انٹرنیٹ یا کمپیوٹر کی عدم دستیابی جیسے مسائل بہت پرانے ہو چکے۔ ایک مسئلہ وہاں ضرور آیا اور وہ بچوں کی فیزیکل ایکٹیوٹی سے متعلق تھا۔ پاکستان کے برعکس جدید ممالک کے سکولوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی جسمانی صلاحیتوں کو نکھارنے کی بھی اتنی ہی کوشش کی جاتی ہے۔ کورونا کی وجہ سے یہ کام بہرحال رُک گیا۔ اس کا متبادل حل نکالنے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ ان ممالک میں والدین اپنے بچوں کی تعلیم سے زیادہ ان کی صحت اور جسمانی سرگرمیوں کی بندش کی وجہ سے زیادہ پریشان تھے۔ یہ تو تعلیمی اداروں کی بات تھی‘ جو بڑے لوگ نوکری یا کاروبار کرتے تھے ان کے لئے بھی نوکری یا کاروبار زیادہ مسئلہ نہ تھا بلکہ آئوٹنگ پر پابندی ان کے لئے وبال جان بنی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اٹلی جیسے ملک میں کورونا کی پہلی لہر نے زیادہ تباہی مچائی تھی کیونکہ وہ لوگ گھروں میں رہنے کے عادی نہیں تھے اور خاص طور پر ہر ویک اینڈ کو شہر سے دور پارٹیوں اور سیروتفریح کی شکل میں مناتے آ رہے تھے۔ کینیڈا جیسے ممالک میں بعض ادارے ہر ماہ ایک سوموار کو اضافی چھٹی دیتے ہیں اس طرح ہفتہ اتوار اور پیر کی تین چھٹیاں بن جاتی ہیں اور لوگ جمعہ کی رات کو ہی دور دراز شہروں اور سیاحتی مقامات کی طرف لانگ ویک اینڈ منانے نکل جاتے تھے۔ یہ کرائے پر موٹر ہوم لیتے ہیں یا بعض لوگ خرید لیتے ہیں اور اسے اپنی گاڑی کے پیچھے باندھ کر چل پڑتے ہیں۔ یہ موٹر ہوم بھی گویا پورا گھر ہوتا ہے۔ کچن‘ بیڈ روم‘ واش روم‘ صوفے‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ سب کچھ تو اس میں ہوتا ہے۔ یہ اس لئے نہیں کرتے کہ وہ ہوٹلوں کے کرائے وغیرہ افورڈ نہیں کر سکتے بلکہ اس لئے کہ اس طرح وہ جگہ جگہ رک کر فطرت کو انجوائے کر سکتے ہیں اور گھر کا مزا بھی ساتھ میں اٹھاتے ہیں۔ یہ کھانے پینے کی اشیا ساتھ لے لیتے ہیں‘ بار بی کیو اور کوکنگ کرتے ہیں جس میں بچے بھی شریک ہوتے ہیں اور کم وقت میں ایسی چیزیں سیکھ لیتے ہیں جو انہیں سکولوں کالجوں میں نہیں مل سکتیں۔ پاکستان میں بھی موٹر ہوم کا رواج شروع ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز دیکھیں جن میں لوگوں نے امپورٹڈ گاڑیاں منگوائی ہیں اور کسی نے ڈبل کیبن گاڑیوں میں تبدیلیاں کرکے انہیں چلتے پھرتے گھر میں تبدیل کر دیا ہے۔ پاکستان میں موٹر ہوم سے متعلق کوئی سرکاری قوانین بھی موجود نہیں۔ جیسے جیسے اس کی طلب بڑھے گی خود ہی اجازت نامے بھی مل جائیں گے اور یہاں بھی جدید موٹر ہومز کے ساتھ سیر و تفریح کا رواج چل نکلے گا۔ فی الوقت تو سب کی نظر کورونا کیسز پر ہے جو پاکستان میں اگرچہ دوبارہ عروج پر ہیں لیکن دیگر ممالک کے مقابلے میں صورت حال بہتر ہے۔ اب جس طرح کورونا تیزی سے اپنی شکل تبدیل کر رہا ہے کہ اِدھر گاڑیوں کے نئے نئے ماڈل لانچ ہو رہے ہیں اُدھر کورونا کی نئی قسم یا ماڈل آ چکا ہوتا ہے جو نسبتاً زیادہ تیزی سے بھلے چنگے انسان کو اپنا شکار بنا لیتا ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ حکومت نے سمارٹ لاک ڈائون اور دیگر احتیاطی تدابیر اپنا کر اور کنسٹرکشن کی صنعت کو پیکیج وغیرہ دے کر اس پر بروقت قابو پا لیا اور دیگر ممالک کی نسبت بہت کم نقصان ہوا ورنہ ہماری معیشت کا تو برا حال ہو جانا تھا۔
کورونا کے اس مزاج اور انداز سے تو نہیں لگتا کہ اگلے ایک دو سال سے قبل ہم اس کے چنگل سے مکمل طور پر نکل پائیں گے۔ فی الوقت تو زمین پر اس وقت جتنے بھی انسان ہیں ان پر ابھی ویکسین اور پھر ادویات کے تجربات ہوں گے۔ لوگوں میں اس بیماری کی علامات بھی مختلف ہیں اور اس سے صحت یاب ہونے والوں کی کہانی بھی انتہائی مختلف ہے۔ پہلی لہر اور دوسری لہر میں بھی کورونا نے کئی رنگ بدلے ہیں۔ پہلی لہر میں تقریباً روزانہ ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آتی تھیں جن میں لوگوں کو سانس کے مسائل تھے اور وہ کھانس کھانس کر ہلکان ہوتے تھے لیکن اب علامات بھی بدل چکی ہیں؛ چنانچہ زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو یہ کمبخت بیماری اگلا سال بھی یونہی چکر دیتی دکھائی دے رہی ہے۔ وہ جو ایک جملہ سنا تھا کہ اس بیماری کے ساتھ ہی زندگی گزارنا سیکھنا ہو گا تو یہ بات کافی حد تک درست محسوس ہوتی ہے۔ جہاں تک ویکسین کی بات ہے تو یہ بھی ایک طویل عمل ہے۔ برطانیہ‘ جس نے یہ ویکسین بنائی ہے‘ میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ ویکسین ہر بندے تک پہنچے میں چھ سے آٹھ ماہ لگیں گے تو پھر ہم کن خیالوں میں ہیں؟ ویسے بھی کورونا اپنی شکل بدل رہا ہے تو ویکسین کوئی انٹرنیٹ کا سافٹ ویئر تو ہے نہیں کہ وائی فائی سے اپ ڈیٹ کر لی جائے۔ پہلے ہی ایک سال تحقیق میں لگا ہے اور اب بھی اس کے اصل نتائج آنا باقی ہیں۔ اس لئے ہمیں وہ کرنا ہو گا جو ہم کر سکتے ہیں اور جو کام سائنس دانوں نے کرنا ہے وہ انہیں کرنے دیں‘ جس میں بہت سا وقت لگے گا۔ ہم اس وقت تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھ سکتے ہیں نہ ہی روایتی روزگار کے ذریعے کہ جسے کورونا اپنا شکار بنا چکا‘ اپنا چولہا جلا سکتے ہیں۔ جو پہلا کام ہم کر سکتے ہیں وہ احتیاط ہے جو ہم کر نہیں رہے بلکہ شاید آدھی آبادی تو کورونا کو ابھی تک مذاق ہی سمجھ رہی ہے۔ ذرا سوچیں کہ ہم جیسے لکھاری جو دوسروں کو بچنے کی تلقین کرتے ہیں وہ بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں اور یقینا اس میں ہماری بھی غفلت ہو گی۔ میں خود گزشتہ ماہ اس عفریت کو بھگت چکا ہوں کہ اس کا بخار ایک مرتبہ تو ہڈیوں کا سرمہ بنا دیتا ہے اور پھر مختلف علامات کی صورت میں کئی ہفتوں اور مہینوں تک اپنی یاد دلاتا رہتا ہے۔ آخری بات یہ کہ اس حوالے سے کوئی کرشمہ تو ہونا نہیں۔ صرف اس کی شدت اور پھیلائو کو کم کیا جا سکتا ہے اور وہ بھی ماسک پہن کر جو ہم نے پہننا نہیں۔