سال دوہزار بیس جہاں کورونا میں گزر گیا‘ وہاں یہ پاکستان میں سیاسی حوالے سے کافی گرم رہا۔ سال کے آخری حصے میں اپوزیشن نے احتجاجی جلسوں سے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کی، یہ اور بات ہے کہ عوام نے انہیں زیادہ توجہ دینا گوارا نہ کیا۔ کورونا کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشتیں تنزلی کا شکار ہوئیںاور اس کے اثرات پاکستان پر بھی نظر آئے لیکن پاکستان ترقی پذیر اور بعض جدید ملکوں کی نسبت کافی حد تک کورونا کے جانی و مالی نقصان سے محفوظ رہا۔ پاکستان میں لاک ڈائون کا دورانیہ بھی محدود تھا‘ جانی نقصان بھی کم ہوا اور کیسز کی تعداد بھی محدود رہی۔ سمارٹ لاک ڈائون کا فیصلہ بھی پاکستان نے ہی کیا تھا جسے بعد ازاں دیگر ممالک نے بھی اپنایا۔ پھر حیران کن طور پر جون‘ جولائی میں حکومت نے کنسٹرکشن سیکٹر کیلئے پیکیج کا اعلان کیا جس نے معیشت کو بہت حد تک سہارا دیا۔ اس کے ساتھ جڑے درجنوں شعبوں کو بھی پہیے لگ گئے اور کورونا کی وبا کے دوران بھی روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوا۔ اس کے مقابلے میں بھارت کا حال ہمارے سامنے ہے۔ صرف کسانوں کو ہی لے لیں تو وہ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے سڑکوں پر ہیں۔ حکومت کی وہ سننے کو تیار نہیں کیونکہ ان کے مطابق‘ بھارت میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ پاکستان کی طرح‘ بھارت کیلئے بھی زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن کورونا کے دوران یہ شعبہ زوال کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ اِدھر نئے سال کے آغاز پر پاکستان میں تعمیراتی شعبے کیلئے مزید مراعات کا اعلان کیا گیا ہے اور تعمیراتی شعبے کیلئے فکس ٹیکس رجیم میں ایک سال کی توسیع کر دی گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق‘ پنجاب میں ڈیڑھ سو ارب روپے سے زائد کے تعمیراتی منصوبے شروع ہو چکے ہیں جبکہ تعمیراتی شعبے کے فروغ سے پنجاب میں پندرہ سو ارب روپے کی اقتصادی سرگرمیاں شروع ہوں گی اور ان منصوبوں سے روزگارکے اڑھائی لاکھ مواقع پیدا ہوں گے۔ یہاں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے کافی حد تک خودمختار ہو چکے ہیں اور وفاقی حکومت کے اس پیکیج سے چاروں صوبوں کا تعمیراتی شعبہ حکومتی مراعات سے مستفید ہو رہا ہے۔
بہت سے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ نیا پاکستان ہائوسنگ سکیم میں گھر شاید صرف امیروں کو ملیں گے‘ جہاں تک میں نے اس سکیم کی شرائط وغیرہ دیکھی ہیں‘ تو یہ منصوبہ نچلے اور درمیانے طبقے کو زیادہ فوکس کر رہا ہے۔ بہت سے ایسے خاندان ہیں جو کرائے کے چھوٹے سے گھروں میں رہتے ہیں اور ایک ایک کمرے میں دس دس لوگ مقیم ہیں۔ پھر کرائے پر گھر مل تو جاتا ہے لیکن ہر سال کرایہ بڑھنے اور آئے روز گھر بدلنے کے مسائل جیسی مشکلات گھیرے رکھتی ہیں۔ ان لوگوں کی تعداد کل آبادی کا ساٹھ‘ ستر فیصد یا شاید اس سے بھی زیادہ ہے اور یہ حقیقتاً اپنے گھر کے اولین حق دار ہیں۔ اس طرح کے منصوبوں سے کم آمدن والے طبقات کو رہائشی سہولتیں تو میسر آتی ہی ہیں‘ ساتھ ہی ان کی کرائے سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔ گزشتہ سال کے آخری چھ ماہ میں گھروں کی تعمیر میں بہت تیزی آئی جس سے سیمنٹ کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔ سریے کی فروخت میں بھی اضافہ ہوا اور طلب بڑھنے سے لامحالہ قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ اس کا حل بھی قدرتی انداز میں نکلے گا اور تعمیراتی سامان کی پیداوار کیلئے مزید صنعتیں لگیں گی۔ اس سے بڑھتی طلب بھی پوری ہو جائے گی اور قیمتیں بھی خود بخود نیچے آ جائیں گی۔ بینکوں نے آئندہ سال کیلئے 378 ارب روپے کنسٹرکشن کے شعبے کیلئے مختص کئے ہیں جبکہ تنخواہ دار طبقے کے کم لاگت تعمیراتی منصوبے کیلئے بھی پیکیج دیے گئے ہیں۔ بڑے شہروں کے نئے ماسٹر پلان بنائے جا رہے ہیں، ماسٹر پلان سے سیوریج اور پانی کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں جیسے مسائل حل ہوں گے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی ڈیجیٹلائزیشن بھی سننے میں آ رہی ہے۔ یہ تینوں شہر ملک کے بڑے معاشی حب ہیں‘ اگر ان کا تمام ریکارڈ ڈیجیٹلائز ہو گیا تو انہیں سرمایہ کاروں کیلئے جدید اور پُرکشش بنانے میں آسانی ہو گی۔ اسی طرح تینوں بڑے شہروں میں سرکاری زمینوں کا ریکارڈ مرتب ہو گیا تو گھپلے اور کرپشن بھی کم ہو جائے گی۔
دو ہزار بیس‘ دوسری جانب اپوزیشن کے لئے بری خبریں ہی لایا۔ پی ڈی ایم کی شکل میں جو گیارہ جماعتوں کا سیاسی اتحاد بنا تھا وہ چند جلسوں کی تاب بھی بمشکل لا سکا اور سال کے آخر میں یہ اتحاد اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ مولانا فضل الرحمن محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی پر گڑھی خدا بخش نہیں گئے‘ اس کے علاوہ بھی ایک دو میٹنگز اور تقاریب میں انہوں نے شرکت نہیں کی۔ شیخ رشید نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اپوزیشن اتحاد کی ہوا نکال دی ہے، فضل الرحمن کے ہاں صف ماتم بچھی ہوئی ہے‘ وہ نہیں چاہتے یہ سینیٹ الیکشن میں حصہ لیں۔ اس سے قبل اس اتحاد میں شامل محسن داوڑ گروپ پہلے ہی الگ ہو چکا ہے۔ انہوں نے اعلانِ لاہور پر دستخط بھی نہیں کئے تھے۔ دیکھا جائے تو دو ہزار بیس اپوزیشن کے لئے سیاسی ندامت کا سال اس لئے بھی تھا کہ ایک طرف کورونا نے لوگوں کے ناک میں دم کیا ہوا تھا تو وہیں اپوزیشن نے اپنے جلسوں کے نام پر لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کی کوشش کی۔ ناکامی انہیں اس لئے نہیں ہوئی کہ لوگ کورونا کی وجہ سے ڈر کر جلسوں میں نہیں آئے بلکہ یہ اتحاد بذاتِ خود عوام کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ یہ عوامی مسائل کا شور مچا کر لوگوں کو جلسوں میں بلانے کی کوشش کرتے رہے حتیٰ کہ پندرہ پندرہ سو روپے دینے کے وعدے پر بھی لوگ لائے گئے مگر ان سے یہ وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ کئی لوگوں کے پاس تو واپس جانے کیلئے کرائے کے پیسے بھی نہ تھے‘ اس لئے وہ جلسہ گاہ سے کرسیاں اٹھا کر چلتے بنے۔ اپوزیشن سیاست ضرور کرتی لیکن کم از کم قومی بلکہ کورونا جیسے عالمی مسئلے پر تو اکٹھی ہو جاتی۔ ایک تو ہمارے عوام کی بڑی تعداد پہلے ہی کورونا کو مذاق قرار دیتی ہے حالانکہ ملک بھر میں اب تک دس ہزار سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں‘ ہر خاندان سے اب تو لوگوں کا کوئی نہ کوئی عزیز گزشتہ سال اس وبا کی وجہ سے بچھڑ گیا لیکن اپوزیشن اس پر بھی سیاست کرنے سے باز نہ آئی۔احسن اقبال ن لیگ کے خاصے سمجھدار سیاستدان ہیں لیکن انہوں نے گزشتہ ماہ ملک کے دفاعی ادارے اور حکومت کے درمیان خلیج کا جو شوشہ چھوڑا اور اس کی ذمہ داری بھی حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی‘ وہ ناقابل یقین ہے۔ دیکھا جائے تو فوج اور حکومت میں جتنی بہتر انڈرسٹینڈنگ اس دور میں ہے‘ شاید ہی کبھی رہی ہو گی۔ سابق ن لیگی دور میں جو ہوتا رہا ہے وہ یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ہر دو‘ چار ماہ بعد خود لیگی حکومت کی طرف سے اپنے ہی اداروں کے خلاف ایسے بیانات اور اقدامات کئے جاتے جس پر ایک عام آدمی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا کہ جو کام اور جو سازشیں دشمن کے کرنے کی ہیں‘ وہ اقتدار کے ایوانوں سے کی جا رہی ہیں۔
ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی‘ مقصد ان کا ایک ہی ہے کہ کسی شارٹ کٹ کے ذریعے اقتدار میں آ جائیں کیونکہ جلسوں کی حالت دیکھ کر انہیں بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ ووٹ کے ذریعے حکومت ملنا ان کے لئے ممکن نہیں رہا۔ دو ہزار بیس میں عمران خان پہلے سے زیادہ طاقتور حکمران بنتے اس لئے نظر آئے کہ انہوں نے کورونا جیسے عفریت سے کامیابی سے مقابلہ کیا اور دوسرا، معیشت کو کھڑا کیا۔ پھر کرپشن کے حوالے سے تو وہ ویسے ہی بیس پچیس سال سے مہم چلاتے آ رہے ہیں‘ اس پر سمجھوتہ وہ کر نہیں سکتے جبکہ اپوزیشن کرپشن پر این آر او لینے کے چکر میں ہے۔ یوں عمران خان کا وہ کہنا سچ ثابت ہو چکا ہے کہ اپنی اپنی کرپشن بچانے کیلئے یہ ساری جماعتیں اکٹھی ہو جائیں گی۔ انہیں ایک دوسرے کو بھی کرپشن پر این آر او دینے کی عادت پڑی ہوئی ہے، ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں‘ اپنے اپنے ادوار میں طے شدہ معاملات کے تحت این آر اوز دے دیتے تھے؛ البتہ اوپر اوپر سے نورا کشتی جاری رہتی تھی، ایک کہتا تھا: میں سڑکوں پر گھسیٹوں گا، دوسرا جیل میں ڈالنے کی بات کرتا تھا۔ آج یہ سارے بھائی بھائی بنے ہوئے ہیں۔ ان کی چال بازیاں دیکھ کر یہی نظر آتا ہے بدقسمتی سے‘ یہ دو ہزار اکیس میں بھی منفی سیاست یونہی جاری رکھیں گے۔