1978ء کی معاشی اصلاحات کے بعد چین نے صنعتی اور معاشی میدان میں نمایاں ترقی کی ہے۔ جس کے بعد بالخصوص گزشتہ دودہائیوں میں دنیا کے تقریباً تمام ممالک کا چین پر معاشی انحصار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ جاپان ہو یا امریکا‘ بھارت ہو یا پاکستان‘ سرجیکل آلات سے لے کر آٹو پارٹس اور سوئی سے لے کر جہازوں کے انجن تک چین سے بنوائے جا رہے ہیں۔ چین گویا دنیا کیلئے ایک صنعتی حب کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کورونا سے جہاں دنیا نے بہت سبق حاصل کئے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ درآمدات اور بیرونِ ممالک پروڈکشن پر انحصار کم کیا جائے اور ملکی سطح پر صنعتوں کو فروغ دیا جائے تاکہ نہ صرف کورونا جیسی آفتوں میں ضروریات کی فراہمی کو جاری رکھا جا سکے بلکہ ملکی معیشت اور مقامی سطح پر روزگار میں بھی اضافہ کیا جا سکے۔یہ سوچ ایک نہ ایک دن پروان چڑھنا ہی تھی کیونکہ تمام ممالک ایک دوسرے کی اندھا دھند تقلید میں چین سے سستی اشیا بنوا رہے تھے؛ تاہم کورونا کی وجہ سے یہ احساس شدت سے اجاگر ہوا کیونکہ امریکا اور برطانیہ جیسے ملکوں میں مقامی سطح پر ماسک تک بنانے کی صلاحیت اور کپیسٹی نہ تھی تب یہ فیصلہ کیا گیا کہ بس بہت ہو گیا! یہی وجہ ہے آج جاپان جیسا ملک سنجیدگی سے اس پر سوچ رہا ہے۔ جاپان کبھی آٹو سیکٹر میں پہلے نمبر پر تھا؛ اگرچہ آج بھی اس کی گاڑیاں اپنا ثانی نہیں رکھتیں لیکن ماضی میں آٹو انڈسٹری کی تمام تر تیاری مقامی سطح پر ہوتی تھی، اسّی اور نوے کی دہائی میں چین نے سر اٹھایا تو دیگر ممالک کی طرح جاپان بھی چین کا محتاج ہو گیا۔ کورونا کے دوران جب سرحدیں بند ہو چکی تھیں تو جہاں ایک جانب آٹو سیکٹر میں طلب انتہائی کم ہو چکی تھی‘ وہاں رہی سہی ڈیمانڈ کو بھی چین کی مدد کے بغیر پورا کرنا مشکل ہو رہا تھا۔
اِس وقت چین سب سے زیادہ اشیا امریکا کو برآمد کر رہا ہے۔2019ء کے دوران امریکا نے چین سے 418 ارب ڈالر کی درآمدات کیں جو چین کی کل برآمدات کا تقریباً 17 فیصد بنتا ہے یعنی دنیا کے ڈیڑھ‘ دو سو ممالک جو اشیا منگوا رہے ہیں‘ وہ چین کی برآمدات کا 83 فیصد ہے جبکہ اکیلا امریکا سترہ فیصد اشیا چین سے بنوا رہا ہے۔دوسرے نمبر پر ہانگ کانگ ہے جو 279 ارب ڈالر کی اشیا امپورٹ کر رہا ہے۔ جاپان ڈیڑھ سو ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ بھارت 75 ارب ڈالر کے ساتھ ساتویں‘ سنگاپور 55 ارب ڈالر کے ساتھ گیارھویں‘ جبکہ روس 50 ارب ڈالر کے ساتھ تیرھویں نمبر پر ہے۔ 2019ء کے دوران چین کی دو تہائی برآمدات دنیا کے پندرہ ممالک کیلئے تھیں۔ پاکستان چین سے درآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں 32ویں نمبر پر ہے۔ چین سے پاکستان نے 2019ء میں 16 ارب ڈالر کی درآمدات کیں۔ چین اس وقت سب سے بڑا برآمدی ملک بن چکا ہے۔ چین میں تیز رفتار ترقی کرنے والا سیکٹر انٹرنیٹ سے متعلق ہے اور اس میں سب سے زیادہ پیسے علی بابا گروپ نے کمائے ہیں۔ یہ کمپنی محض اکیس برس میں دنیا کی بڑی اور پرانی ایئر لائنز‘ کولڈ ڈرنکس کمپنیوں اور برانڈز کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ علی بابا گروپ کا چیئرمین ''جیک ما‘‘ صرف اٹھارہ برس میں ساڑھے تین سو ارب ڈالرز کے اثاثوں کا مالک بن گیا تھا۔ اس وقت وہ چین کی دس امیر ترین کاروباری شخصیات میں سے ایک ہے۔ 1999ء میں جیک ما کے ذہن میں خیال آیا کہ جس طرح انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر سے لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں‘ تصاویر اور وڈیوز کا تبادلہ کر رہے ہیں تو کیوں نہ ایک ایسا پلیٹ فارم شروع کیا جائے جس کے ذریعے عام لوگ انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اشیا کی ترسیل بھی کر سکیں۔ اس مقصد کیلئے اس نے اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں سولہ‘ سترہ دوستوں کا ''اجلاس‘‘ بلایا اور کمپنی کی بنیاد رکھ دی۔ آپ کمپنی کی کامیابیوں کی رفتار کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آج علی بابا کے ہیڈ کوارٹر میں 34 ہزار سے زائد افراد ملازمت کرتے ہیں۔اس گروپ نے دو برس قبل جب نیویارک سٹاک ایکسچینج میں اپنے شیئرز بیچے تو ان کی اتنی ڈیمانڈ تھی کہ کمپنی نے 22 ارب ڈالر کے لگ بھگ ابتدائی سرمایہ کاری حاصل کر لی جو جلد ہی 25 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ یہ تاریخی کامیابی تھی۔ یہ گروپ چھوٹے اور درمیانے کاروبار کرنے والوں کو ایسی شاندار سہولتیں فراہم کرتا ہے کہ ان کا کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگتا ہے۔ لوگ اس کی ویب سائٹس پر جا کر تقریباً ہر وہ چیز جو ذہن میں آ سکتی ہے‘ منٹوں میں خرید لیتے ہیں۔ ان شاپنگ ویب سائٹس پر کھربوں روپے کی معاشی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ 14 کروڑ سے زائد افرادان ویب سائٹس کو روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ لوگ ذاتی یا کاروباری مقاصد کیلئے اشیا فوری منگوا سکتے ہیں۔ ان اشیا میں سوئی سے لے کر جہازوں کے پرزے تک شامل ہیں۔ چین سمیت دنیا بھر کے کاروباری ادارے آپ کو آن لائن معلومات فراہم کرتے ہیں۔ آپ آن لائن پیسے ادا کرتے ہیں تو آپ کو مطلوبہ سامان مقررہ دنوں کے اندر موصول ہو جاتا ہے۔ علی بابا گروپ کی کامیابی کا اہم راز اس کا سادہ اور مؤثر نظام ہے۔ اسے ایک نیا کاروباری شخص بھی آسانی سے سمجھ لیتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اس ویب سائٹ پر روزانہ ساڑھے تین ارب ڈالر سے زیادہ کا لین دین ہوتا ہے۔
علی بابا اور چین کی دیگر کمپنیوں کی کامیابیاں اپنی جگہ لیکن دنیا کے سامنے آج کئی سوالات کھڑے ہیں۔ دنیا آج یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا اس کا چین پر ضرورت سے زیادہ انحصار کا فیصلہ درست تھا؟ کیا چین سے سستی اشیا بنوا کر اپنے ملک میں فروخت کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں؟ اگر چین ایک کمپنی بنا کر پوری دنیا کو آن لائن اشیا بیچ سکتا ہے اور اس سے اربوں ڈالر کما رہا ہے تو یہ کام دوسرے ممالک کیوں نہیں کر سکتے؟ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا اور سب کچھ چین ہی بنا کر بھیجتا رہا تو ملکی سطح پر روزگار کہاں سے آئے گا‘ تعلیمی اداروں سے نکل کر نوجوان کہاں جائیں گے ‘کیا کریں گے؟ کیا وہ صرف سیلز مین بن جائیں گے اور چین سے اشیا منگوا کر آگے فروخت کرتے رہیں گے؟
چین آج ریسرچ میں بھی آگے ہے اور چین میں جتنی تحقیق ہوتی ہے اس کا ستر فیصد پیسہ نجی شعبے سے آتا ہے جبکہ پاکستان میں یہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔اگر نت نئی ٹیکنالوجی‘ میڈیکل سائنسز‘ سپیس سائنسز اور دیگر شعبوں کے بارے میں ایجادات کیلئے تحقیق بھی چین نے کرنی ہے تو پھر باقی ملکوں میں موجود کروڑوں‘ اربوں دماغ کیا کریں گے؟ کیا وہ صرف انفوٹینمنٹ کے سیلاب میں بہہ جانے کے لئے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو بھی سوچ بچار اور اپنی پالیسی میں تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے ان ایریاز کو دیکھنا ہے جن میں ہمیں دسترس حاصل ہے۔ ہمارے ٹیکسٹائل کے شعبے میں گزشتہ ایک برس میں کورونا کے باوجود غیر معمولی تیزی آئی ہے۔بھارت میں سخت لاک ڈاؤن سے کاروبار ٹھپ ہوا اور پاکستان میں بیرونی آرڈرز کی بھرمار ہو گئی۔ مالی سال کے آغاز کے پہلے چار ماہ میں ملکی ٹیکسٹائل برآمدات 4.5 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں۔ یہ شعبہ اس وقت اپنی پوری پیداواری استعداد پر کام کر رہا ہے جو ملکی برآمدات میں اضافے کے ساتھ روزگار کی فراہمی کے لیے بھی مثبت پیش رفت ہے۔حکومت کی جانب سے کورونا کے باعث نافذ پابندیوں میں نرمی اور صنعتی شعبے کے لیے ریلیف اقدامات کی وجہ سے مصنوعات کی مانگ میں ریکارڈ اضافہ ہوا۔ اسی طرح کنسٹرکشن کے شعبے میں حکومت کے ریلیف پیکیج کی وجہ سے ستمبر کے مہینے میں سیمنٹ کی ریکارڈ اکیس ملین ٹن پیداوار ہوئی ہے۔ پاکستان نے کورونا سے متعلق اشیا مثلاً ماسک اور سینی ٹائزرز بھی ریکارڈ تعداد میں برآمد کئے۔ یہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں اس ملک میں بہت زیادہ پوٹینشل ہے اور اگر موقع دیا جائے تو مقامی سطح پر ہر قسم کی اشیا تیار کر کے نہ صرف ملکی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں بلکہ برآمدات کے ذریعے زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے۔