مغرب میں مسلمانوں کو بنیاد پرست ‘جنونی اورانتہاپسندبنا کر پیش کرنے میں خود مغربی میڈیا کا اہم کردار ہے۔ نائن الیون کے بعد اس میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ امریکہ سمیت یورپی ممالک میں ایسے واقعات دیکھنے کو ملے جن میں چھوٹا موٹا کریکر بھی چلا تو فوری طور پر ٹی وی ہیڈلائنز میں بغیر تحقیق کئے دہشت گردی کا واقعہ بنا کر مسلمانوں سے جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ خود امریکہ میں ہر سال درجنوں واقعات میں سکولوں‘ کالجوں اور میوزک کنسٹرٹس میں غیرملکی انتہا پسند عام شہریوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیتے ہیں لیکن امریکہ نہ یورپ‘ کوئی بھی اسے مذہب سے جوڑنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ ایسے شخص کو دماغی مریض کہہ کر بات کو گول مول کر دیا جاتا ہے۔ امریکہ کے تعلیمی اداروں میں شاید ہی کوئی واقعہ ہوا ہو جس میں کسی مسلمان شخص نے امریکی شہریوں کو گولیاں ماری ہوں یا یرغمال بنایا ہو۔ ناروے کا ایک جنونی شہری جب بم دھماکے اور فائرنگ کے ذریعے لوگوں کو ہلاک کر رہا تھا‘ اُس وقت یورپی ٹی وی چینلزبغیر تحقیق کیے اسے القاعدہ کا حملہ قرار دے رہے تھے۔
مغربی ممالک جو جمہوریت‘مساوات‘ انصاف‘مذہبی رواداری اور سیکولرازم کا پوری دنیا کو نہ صرف درس دیتے ہیں بلکہ ان ملکوں میں اسے بزور قوت نافذ کرنے کی علانیہ و خفیہ کوششیں بھی کرتے ہیں لیکن اپنے دامن میں جھانکنے کی کبھی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اس کے برعکس پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک دہشت گردی کی نہ صرف پرزور مذمت کرتے ہیں بلکہ انتہا پسندی کے خلاف ظلم پر آواز بھی اٹھاتے رہتے ہیں۔
امریکہ اور یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور ہتک آمیز رویے کے تدارک کیلئے مسلمان ممالک میں سب سے زیادہ کردار پاکستان نے ادا کیا۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے اجلاس میں پندرہ مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کی جو قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی وہ پاکستان نے پیش کی تھی۔یہ بہت بڑا بریک تھرو تھا۔ وزیراعظم عمران خان اس سے قبل اپنے سفارت کاروں کو بھی متحرک کر چکے تھے۔ ان کی سفارتی کاوشیں بہت حد تک رنگ لے آئیں اور اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم اسلامو فوبیا کے خلاف خصوصی مہم چلانے پر تیار ہوگئی۔وزیراعظم عمران خان نے ایک عرصہ مغرب میں گزارا ہے وہ انگریزی اور عالمی ایشوز پر بھی گہری نظر اور عبور رکھتے ہیں۔مسئلہ کشمیر کو بھی اقوام متحدہ اور دیگر فورمز پر اٹھا چکے ہیں۔ایک دنیا ان کی کرکٹ کی وجہ سے معترف ہے۔ اب وہ سیاست اور حکومت کے ذریعے دنیا میں مؤثر طور پر آواز اٹھا رہے ہیں۔ ایک سال قبل مکہ میں او آئی سی کے چودھویں سمٹ میں بھی یہ مسئلہ اسی شدو مد کے ساتھ اٹھایا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے چوہترویں اور پچھترویں اجلاس میں بھی اسلامو فوبیا کا مسئلہ اٹھایا اور اقوام متحدہ کو تجویز دی کہ پوری دنیا میں ایک ایسا عالمی دن بھی منایا جانا چاہیے جس میں اسلامو فوبیا اور مذہب کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور مواد کی حوصلہ شکنی کی جائے۔گزشتہ سال وزیراعظم کی جانب سے مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو خط لکھے گئے جس میں اجتماعی ایکشن کیلئے ایک ایجنڈا کے بارے میں لکھا گیا جبکہ فیس بک کے مالک مارک زکر برگ کو لکھا گیا کہ فیس بک پر اسلامو فوبیا کے حوالے سے موجود مواد کو ہٹایا جائے ۔شنگھائی کارپوریشن اور اکنامک کارپوریشن آرگنائزیشن کو بھی آگاہ کیا گیا۔ ان کوششوں سے مغرب میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں کمی آئی۔عام غیرملکی جو اسلام سے ناآشنا تھے ان تک اصل حقائق پہنچے۔
فرانس اور ڈنمارک سمیت کئی ممالک میں اسلام اور مقدس شخصیات کے خلاف جو توہین آمیز رویہ اختیار کیا گیا اور جس کی وہاں کی حکومتوں نے بھی سرپرستی کی‘ وہ ناقابل قبول اور افسوسناک ہے۔ایک طرف یہ غیر مسلم قوتیں اسلام اور مقدس ہستیوں کے خلاف توہین آمیز رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں دوسری جانب ہمارے ہاں بھی احتیاط کا دامن کئی مرتبہ ہاتھ سے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ گزشتہ چند دن جو گھیرائو جلائو ہم نے دیکھا یہ سب کرنے کا فائدہ کس کو ہوا؟ اہانت آمیز رویہ جس ملک نے اختیار کیا وہاں تو کچھ بھی نہ ہوا‘ لیکن ہم نے اپنے ہی ملک میں اپنے ہی بھائیوں کی املاک جلا ڈالیں‘ ایک دوسرے کے سر پھوڑ ڈالے‘ یہ دیکھے بغیر کہ اس فساد کا فائدہ دشمن قوتیں اٹھا سکتی ہیں۔ ہم نے اپنی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا اور اپنی ہی شاخ کو کاٹنے کے درپے ہو گئے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم یا ہماری حکومت اس مقصد سے غافل ہو جائیں۔ اس سے کوتاہی برتنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم مگر جلد باز اور جذباتی قوم ہیں۔ ہر فیصلے کا حل فوری اور ڈنڈے سے چاہتے ہیں۔دنیا کومسلمانوں کا چہرہ اگر انتہا پسندانہ نظر آتا ہے تو اس کا توڑ کرنے کیلئے ہمیں تحمل اور شائستگی کا رویہ اپنانا ہو گا۔ دو سال قبل جنرل اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے پہلی بار اس فورم میں اسلامو فوبیا کی کھلے لفظوں میں شدید مذمت کی اور عالمی برادری پر زور دیا کہ اس ہرزہ سرائی کا سلسلہ بند کیاجائے اور اس کیلئے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔ وزیر اعظم کی یہ تقریر اس قدر جذباتی تھی کہ ملائیشیاکے وزیر عظم مہاتیر محمد نے ان کو فرطِ جذبات سے گلے لگایا اور ترکی کے صدر طیب اردوان نے ان کا ماتھا چوم لیا۔عمران خان کی تقریر کے دوران پورا ہال تالیوں سے گونجتا رہا کیونکہ وہ اپنا موقف بڑے دبنگ الفاظ میں بیان کر رہے تھے۔وہ اپنے دل اور دماغ کی سوچ کی عکاسی کر رہے تھے‘اس لیے غیر مسلم مندوبین بھی ان سے اختلاف کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔اسلامو فوبیا کا زہر اور زورختم کرنے کیلئے دنیا کو باور کرانے کی کوششوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو اس کے دوررس ‘ مؤثر اور دیرپا نتائج نظر آئیں گے۔ اس وقت دنیا کو ڈنڈے یا احتجاج سے نہیں بلکہ انتہائی ادب کے ساتھ یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مسلمان امن پسند قوم ہیں۔ یہ دنیا کے بہترین اداروں میں عظیم خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ مقامی سماجی خدمات ہوں یا عالمی مسائل‘ مسلمان دیگر اقوام سے کبھی بھی پیچھے نہیں رہے۔مغرب کو بھی مسلمانوں کے جذبات کو سمجھنا چاہیے۔ ا ن کے صبر اور حوصلے کو پہچاننا چاہیے۔ اسلام اور شعائر اسلام کا احترام ملحوظ رکھنا چاہیے تاکہ بین المذاہب ہم آہنگی نفرت کی بھینٹ نہ چڑھے۔
مسلم دنیا کو جگانے کیلئے اسلامی ممالک کے تمام حکمرانوں کو جگانے کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو مغرب کی مسلمانوں کے حوالے سے منفی سوچ ختم ہو جائے گی۔ فرانسیسی حکومت اگر اس ہرزہ سرائی میں شامل نہ ہوتی تو یہ ایشو اتنا آگے نہ بڑھتا۔ یہ چیز ثابت کرتی ہے کہ کسی بھی ملک کے حکمرانوں کا کردار ایسے حساس معاملات میں کس قدر اہم ہوتا ہے اور ہوا کا رخ تبدیل کر سکتا ہے۔ فرانسیسی حکومت نے یہ کہہ کر جلتی پر تیل ڈالا کہ مسلم عوام آزادیٔ اظہارکے حق کو تسلیم نہیں کرتے۔اس سے قبل ناروے کے ایک کارٹونسٹ نے یہ کہہ کر اہانت آمیز خاکے بنائے کہ وہ مسلم دنیا کے صبر و تحمل کا امتحان لینا چاہتا ہے اور وہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ مسلمان اظہار ِرائے کی آزادی کا حق کسی کو دیتے بھی ہیں یا نہیں۔حقیقت میں انتہاپسندی یہ ہے لیکن یہ سب مغرب کو سمجھانا اصل امتحان ہے۔ اس کیلئے تدبر‘ فراست اور تدبیر سے کام لیا جانا چاہیے نہ کہ تشدد‘توڑپھوڑ اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے گھر اجاڑ کر یہ مسئلہ حل ہو گا۔ مغرب جو پراپیگنڈا اسلام کے خلاف کرتا ہے اس کا جواب اگر ہم تشدد اور ایک دوسرے کی جانیں لے کر دیں گے تو اور تو کچھ نہیں ہو گا لیکن انہیں مسلمانوں پر انگلی اٹھانے کا ایک موقع اور مل جائے گا۔اسلامو فوبیا کا توڑ بہترین حکمت عملی اور تدبر کے ساتھ ہی ممکن ہے۔