گئے وقتوں کی بات ہے جب خوشی اور غمی کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے بھی تھے‘ حسد بھی کرتے تھے اور کئی کئی ماہ کیلئے بول چال اور ملنا جلنا بھی بند کر دیتے تھے۔ دوستوں اور رشتہ داروں میں فاصلے اور جھگڑے جتنے بھی بڑھ جاتے‘ وہ خوشی یعنی شادی اور غم یعنی کسی شخص کے انتقال کے موقع پر ان فاصلوں اور جھگڑوں کو ایک طرف چھوڑ دیتے اور ان دونوں مواقع پہ شرکت ضرور کرتے تھے۔ وجہ کوئی بھی ہو لیکن اس طرح کرنے سے دو خاندانوں‘ رشتہ داروں کے درمیان فاصلے کسی نہ کسی طرح برقرار رہتے تھے اور ان مواقع پر ملنے جلنے سے دوبارہ تعلقات بحال ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے تھے۔ اب مگر یہ سلسلہ تھم سا گیا ہے۔ اس جدید لائف سٹائل کا ایک تحفہ ہمیں یہ ملا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے دُور ہو چکے ہیں۔ بظاہر ٹیکنالوجی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ یہ دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے جہاں ہر کوئی ایک دوسرے سے انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے جڑ گیا ہے‘ فاصلے کم ہو گئے ہیں اور کمیونیکیشن کے آسان اور فوری ذرائع نے دنیا کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے لیکن حقیقت آپ خود ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ عید‘ شب برات ‘ پارٹیوں اور گیٹ ٹو گیدرز پر اپنے دوستوں رشتہ داروں اور ان کے بچوں کا رویہ دیکھ لیجئے‘ سب ایک کمرے میں ہوتے ہوئے بھی بار بار موبائل فون کو اٹھاکر اس کی سکرین پر انگلیاں مارتے اور نوٹیفکیشنز پڑھتے دکھائی دیں گے۔ اس جدید سائنس نے ہمیں نہ آگے کا چھوڑا ہے نہ پیچھے کا۔ کورونا کی وجہ سے رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔ نہ کہیں آنا نہ جانا۔ لاک ڈائون نے ہر شخص کو اس کی اپنی جگہ پر موجود چھوٹی سی دنیا میں قید کر دیا۔ ہم لوگ کتنے مصروف ہیں‘ ہمارے پاس دوسروں کیلئے کتنا وقت ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ اب لوگ موبائل فون پر بھی ایک دوسرے سے ٹھیک طرح سے بات چیت نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ افسوس اور دُکھ کے لمحات میں بھی انتہائی اختصار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کسی کے انتقال کی پوسٹ دیکھی۔ اس کے نیچے زیادہ تر لوگ ''انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ لکھ رہے تھے۔ کئی لوگ مرحوم کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دُعا کر رہے تھے، لیکن سب سے زیادہ کمنٹس وہ تھے جن میں انگریزی کے تین حروف لکھے جا رہے تھے۔ زیادہ تر لوگ RIP لکھنے پر ہی اکتفا کر رہے تھے۔ پہلے تو مجھے سمجھ نہ آئی کہ کسی کی رحلت کی خبر پر RIP کہنے کا مطلب کیا ہے‘ پھر معلوم ہوا کہ Rest in Peace۔ یعنی انگریزوں کی نقل وہ بھی انتہائی اختصار کے ساتھ کہ ہمارے پاس شاید انگریزوں سے بھی کم وقت ہے اور مصروفیات بے بہا۔ یہ لفظ گوگل کریں تو پتا چلتا ہے کہ یہ حروف بنیادی طور پر مسیحی اپنی عبادات اور مرنے والوں کی آخری رسومات کے دوران استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ حروف اب اتنی کثرت سے استعمال کیے جاتے ہیں کہ شاید دوسرے مذہب والے خود بھی نہ کرتے ہوں گے۔ کسی کے جنازے میں جا کر شرکت کرنے کا وقت تو کسی کے پاس کیا ہو گا‘ اب حالات یہ ہو چکے ہیں کہ فیس بک پر بیس تیس سیکنڈ لگا کر انا للہ یا افسوس کے چند کلمات لکھتے ہوئے بھی ہماری انگلیاں کمزور پڑ جاتی ہیں۔ دکھ یا افسوس کے اس اظہار سے تو خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔ RIP لکھنے میں نہ وہ تاثیر ہے نہ دُکھی شخص کو وہ حوصلہ مل سکتا ہے جو افسوس کے دو تین جملوں سے یا مرحوم کی کسی اچھی بات یاد یا تذکرہ کرنے سے مل سکتا ہے۔ ہم لوگ نجانے کیسے مسلمان ہیں کہ دس‘ بیس ہزار کا موبائل فون کیا ہاتھ آیا‘ اپنی پہچان ہی بھول بیٹھے۔
دور دیہات میں آج بھی لوگ غم کے ان مواقع پر ملتے ہیں تو زیادہ تر یہ جملہ بولتے ہیں: اللہ کا حکم! اس کے جواب میں مرحوم کا عزیز کہتا ہے: مان لیا جی۔ یا پھر یہ کہا جاتا ہے اللہ مرحوم کو جنت نصیب کرے‘ بہت اچھا انسان تھا‘ لوگوں کے کام آتا تھا‘ پیار سے ملتا تھا‘ زندہ دل تھا وغیرہ وغیرہ ۔ اب اس کی جگہ کسی کو RIP کہیں گے تو وہ جواب میں کیا کہے گا؟ جس طرح ہم مغرب کی اندھا دھند نقالی کر رہے ہیں ڈر ہے کہیں پوری طرح ان کے رنگ میں ہی نہ رنگے جائیں۔ نئی نسل کو تو ان چیزوں کا شاید اتنا علم نہیں لیکن بظاہر پڑھے لکھے افراد بھی RIP لکھنا شروع ہو چکے ہیں۔ یہ کسی کا دُکھ بانٹنے کے بجائے اسے مزید دُکھی کرنے والی بات ہے۔ تخفیف کا یہ سلسلہ بنیادی طور پر انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا ہی عطا کردہ ہے۔ 1990ء کی دہائی میں گھروں میں انٹرنیٹ آیا تو یاہو اور ایم ایس این میسنجر اسی طرح مقبول اور استعمال ہونے لگے تھے جیسے آج وٹس ایپ ہوتا ہے۔ لوگ یاہو کے چیٹ رومز میں گھس جاتے اور انجان لوگوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھاتے۔ اس کیلئے سب سے پہلے Hi لکھا جاتا اور اس کے بعدASL۔ یہ آج جو RIP ہے‘ میرے نزدیک اسی ASL کے بطن سے نکلا ہے۔ اس کا مطلب تھا کہ دوسرا شخص آپ کو بتائے کہ اس کی ایج، سیکس (جینڈر) اور لوکیشن کیا ہے۔ اس کے بعد بات چیت کا سلسلہ آگے چل پڑتا۔ تخفیف کے یہ دورے ہمیں گزشتہ تین دہائیوں سے اس قدر تواتر سے پڑ رہے ہیں کہ ہماری اور ہماری بچوں کی انگریزی بھی سکڑتی جا رہی ہے۔ چونکہ آج کل تعلیم کا سلسلہ کورونا کی وجہ سے آن لائن ہے اس لئے آج کی نسل بھی اس شارٹ لینگویج فارمولے کو ضرورت کے مطابق استعمال کر رہی ہے۔ زیادہ تر کام کاپی پیسٹ سے چل جاتا ہے‘ پھر کمپیوٹر اور موبائل میں وائس ٹائپنگ یعنی بول کر لکھنے کی سہولت بھی میسر ہے اس لئے قلم اور کاغذ کا استعمال بھی ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ کورونا کی لہریں اتریں گی تو معلوم ہو گا کہ پیچھے کیا کچھ بہہ چکا ہے اور کیا بچا ہے۔ بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں تو دور کی بات‘ اب تو وہ لکھنا بھی بھولتے جا رہے ہیں۔ ویسے بھی جب وہ بڑوں کو اپنے دوستوں‘ عزیزوں کی پوسٹس پر RIP لکھتا دیکھیں گے تو اس سے بھی چھوٹا لفظ بلکہ نقطے لگا کر بات سمجھانے کے طریقے ڈھونڈیں گے۔ دو نقطوں کا مطلب خوشی‘ تین نقطوں کا مطلب افسوس‘ ایک نقطے کا مطلب غصہ‘ چار نقطے لگا دیے جائیں تو دوسرا سمجھ جائے کہ حیرانی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس نئی ''المحدود ڈکشنری‘‘ کا فائدہ یہ ہو گا کہ لوگوں کو جو R، I اور P کی بورڈ سے ڈھونڈ کر لکھنا پڑتے تھے‘ اس کوفت سے وہ بچ جائیں گے۔ ان کا وقت بھی بچے گا اور انگلیاں بھی تھکنے سے بچ جائیں گی۔ جب چاہا ایک دو تین یا چار نقطے مارے اور کام چلا لیا بلکہ اس ڈکشنری میں بلینک میسج کا بھی اضافہ ہونا چاہیے یعنی کوئی شخص بغیر نقطہ یا حرف لکھے کمنٹ کر دے تو اس کے خالی میسج کا بھی کوئی مطلب نکال کر نافذ کر دیا جائے تاکہ نقطہ لگانے کی زحمت سے بھی بچا جا سکے۔
اتنا وقت جو بیس بائیس کروڑ لوگوں کے پاس بچ جائے گا اس سے وہ درجنوں اہم اور ضروری کام کر سکیں گے‘ خواتین کو ایک دوسرے کی غیبت اور چغلیوں اور مردوں کو سیاست‘ مہنگائی اور حکومت کو کوسنے کیلئے اضافی وقت مل جائے گا۔ پھر سب کے پاس وقت ہی وقت ہو گا‘ اتنا وقت کہ پوری دنیا میں ہمارا شمار خوش بخت اور خوش وقت لوگوں میں کیا جانے لگے گا۔ دنیا بھر کی توجہ پاکستان کی جانب ہو جائے گی‘ بڑے بڑے ریسرچ ہائوسز اور وی لاگرز پاکستان کا رُخ کریں گے اور اس راز کو پانے کیلئے ہزاروں لاکھوں لوگوں کے انٹرویوز کریں گے یہاں سے ہمارا ملک دنیا کیلئے نہ صرف توجہ بلکہ سیر و سیاحت کا مرکز بھی بن جائے گا اور یوں ہم ایک کامیاب اور کامران قوم بن کر اپنا نام روشن کریں گے‘ ایک ایسا نام جو چند نقطوں یا خالی جگہ چھوڑنے کے باوجود پڑھا اور سمجھا جا سکے گا۔