دنیا کا شاید کوئی ہی ایسا ملک یا خطہ ہو جو جرائم سے مکمل پاک ہو۔ کہیں زیادہ کہیں کم‘ جرائم کسی نہ کسی صورت ہر جگہ ہو رہے ہیں۔ ایسے ممالک‘ جہاں جی ڈی پی پاکستان سے دس گنا زیادہ ہے وہ بھی جرائم سے محفوظ نہیں۔ جرائم کا عالمی انڈیکس دیکھیں تو وینزویلا چوراسی فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر‘ افغانستان چوتھے‘ برازیل دسویں‘ برطانیہ پینسٹھ ویں اور پاکستان بہترویں نمبر پر ہے۔ قطر بارہ فیصد کی کم ترین شرح کے ساتھ ایک سو پینتیس ویں نمبر پر ہے۔ جرم کو ہونے سے روکنا انتہائی مشکل لیکن جرم سرزد ہونے کے بعد مجرم کو پکڑنا انتہائی ضروری اور مشکل ٹاسک ہوتا ہے۔ یہ کام پولیس کرتی ہے اور ٹاپ ٹین عالمی پولیس کی فہرست میں جاپان پہلے نمبر پر ہے۔ پھر امریکا‘ اٹلی‘ برطانیہ‘ فرانس‘ آسٹریلیا‘ جرمنی‘ چین‘ نیدرلینڈ اور کینیڈا کی پولیس کا نمبر آتا ہے۔ بہترین پولیس ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس ملک میں جرائم ختم ہو جائیں گے کیونکہ جرم کا تعلق معیشت‘ محرومیوں‘ دماغی امراض وغیرہ سے ہوتا ہے۔ ٹاپ ٹین کی فہرست میں جن ملکوں کی پولیس ہے اس کا تعلق ان کی کارکردگی سے ہے اور کارکردگی کا انحصار پولیس کو دی جانے والی سہولتوں اور بجٹ وغیرہ پر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں پولیس‘ صحت اور تعلیم کے شعبوں کیلئے کتنا بجٹ رکھا جاتا ہے‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کے باوجود ہم اپنی پولیس‘ ڈاکٹرز اور اساتذہ سے یہ توقعات رکھتے ہیں کہ وہ دبئی‘ جاپان اور سوئٹرزلینڈ سے بہتر نتائج دیں جو بظاہر ممکن نہیں۔
پاکستان میں جرائم کی وجہ غربت تو ہے ہی لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو کچھ نہ کرنے کی ٹھانے ہوئے ہے۔ ایسے لوگ بڑا ہاتھ مارنے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ کچھ نہیں بن پڑتی تو سوشل میڈیا پر وڈیوز ڈال کر اپنی تشنگی دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت کچھ نئے قسم کے جرائم بھی سامنے آ رہے ہیں جن کی وجہ موبائل فون اور اس کی ایپس کا غلط استعمال ہے۔ بہت سے لوگ تشہیر کے شوق میں ایسی وڈیوز بنا لیتے ہیں جن کے انہیں لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ ٹک ٹاک پر آئے روز کوئی نہ کوئی ایسی وڈیو اور پھر اس وڈیو کا انجام بھی سامنے آتا رہتا ہے لیکن یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ ہوائی فائرنگ اور اسلحے کی نمائش کی وڈیوز بڑے فلمی انداز میں بنائی جاتی ہیں‘ مشہور فلمی ڈائیلاگ بولے جاتے ہیں اور انہیں سوشل میڈیا پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ایسی وڈیوز بہت جلد وائرل ہو جاتی ہیں۔ سنسنی خیز واقعات جلد پھیلتے ہیں، بہت سے لوگوں کو چیزیں آگے شیئر کرنے کی عادت ہوتی ہے‘ کچھ سوشل میڈیا گروپس ایسے ہیں جن میں لاکھوں کے تعداد میں فالوورز ہیں؛ چنانچہ ایسے گروپس میں وڈیوز کے بس جانے کی دیر ہوتی ہے اور اس کے بعد یہ چند گھنٹوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہیں۔ ایسی وڈیوز کا مقصد اپنی تشہیر اور پیسہ بنانا ہوتا ہے لیکن یہ کام اب جرائم شمار کئے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو چونکہ اس کا علم نہیں ہوتا یا پھر وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پکڑے نہیں جائیں گے کہ کون سا پولیس ہمیں ہی واچ کر رہی ہے؛ تاہم ان کی غلط فہمی اس وقت دُور ہو جاتی ہے جب پولیس ان کے دروازے پر کھڑی ہوتی ہے۔ پنجاب میں پولیس کا سائبر ونگ ایک عرصے سے فعال ہے اور نہ صرف سنگین جرائم میں مجرم تک پہنچنے کے لئے جدید فرانزک سائنس کا سہارا لیا جاتا ہے بلکہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والی ایسی وڈیوز بنانے والے افراد کے ''سافٹ ویئرز بروقت اَپ ڈیٹ‘‘ کر دیے جاتے ہیں۔ لاہور میں اس طرح کے واقعات میں چند گھنٹے یا ایک دو دن کے اندر اندر مجرم پکڑ لیے جاتے ہیں اور وڈیو بیان میں اپنے کیے پر معافی مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔
سارا سال پولیس کو سیاسی‘ مذہبی تقریبات اور جلسے جلوسوں کی سکیورٹی کی نگرانی سمیت سینکڑوں اقدامات کرنا ہوتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات کی وجہ سے پولیس کی ذمہ داریاں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہیں۔ محدود بجٹ اور وسائل رکھنے والی پولیس سے عوام کی توقعات بھی بہت زیادہ ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ برس سے کورونا نے جو قیامت ڈھائی ہوئی ہے اس میں بھی پولیس کو سخت ترین ڈیوٹی کرنا پڑی۔ شہریوں‘ دکانداروں اور محکموں میں کورونا ایس او پیز کے نفاذ کی ذمہ داری بھی پولیس ہی کو ملی۔ گزشتہ دنوں سی سی پی او لاہورنے بتایا کہ پولیس نے ویکسی نیشن کا عمل بروقت شروع کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ لاہور پولیس کے مجموعی طور پرایک ہزار سے زائد افسران اور جوان اس موذی مرض سے متاثر ہوئے جبکہ پانچ اہلکار کورونا وائرس کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔ عام شہریوں اور اوور سیز پاکستانیوں کے لئے ایک حوصلہ افزا خبر انہوں نے یہ سنائی کہ اب شہریوں کی املاک اور زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جا رہا ہے۔ آئی جی پنجاب کی تجویز پر بااثر قبضہ مافیا اور بدنام زمانہ بدمعاشوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کیلئے اعلیٰ سطح کی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی سفارشات کی روشنی میں سی سی پی او آفس میں ایک ''اینٹی قبضہ مافیا سیل‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جو قبضوں کے ناجائز ہونے کا قانونی طور پر تعین کرکے قبضہ وگزار کرانے اور قبضہ مافیا کے خلاف تجویز کردہ ایکشن لینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس خصوصی سیل میں پولیس‘ ریونیو‘ کوآپریٹو‘ اوور سیز پاکستانیوں اور ایل ڈی اے کے نمائندگان شامل کیے گئے ہیں جو سی سی پی او آفس میں ہفتے میں تین دن شکایت کنندہ اور الزام علیہ کے بیانات اور متعلقہ دستاویزات کا جائزہ لیتے ہیں۔ شہریوں کو قبضہ‘ ہراسگی اور بدمعاش مافیا کے حوالے سے فوری مدد فراہم کرنے کیلئے ایک ہیلپ لائن صرف قبضے سے متعلق شکایات کے لئے مخصوص کر دی گئی ہے۔ پولیس کا سینئر افسر ہیلپ فون لائن پر شہریوں کی شکایت سنتا ہے۔ اگر کسی بھی شہری کی جائیداد پر قبضہ کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ ہیلپ لائن پر رابطہ کر سکتا ہے۔ شہریوں کی اراضی پر قبضوں کے پرانے کیسز کا جائزہ تشکیل کردہ کمیٹی لیتی ہے اور اس بات کا تعین کرتی ہے کہ تین دن کے اندر فیصلہ کیا جائے اور کمیٹی کی سفارش پر قانون کے مطابق فوری ایکشن لیا جائے۔ قبضے سے متعلقہ پیچیدہ کیسز کی صورت میں‘ جہاں پولیس معاملات اور کریمنل ایکشن کے علاوہ عدالتی معاملات بھی زیر غور ہوں‘ کمیٹی مثبت انداز میں کیسز کو باہمی رضامندی سے حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اچھی بات ہے کہ یہ سیل اب تک چوالیس ارب روپے مالیت کی سینکڑوں ایکڑ سرکاری و نجی اراضی اور جائیدادیں واگزار کروا چکا ہے۔
گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان براہِ راست عوام کی فون کالز لے رہے تھے تو ایک خاتون اپنی روداد سناتے ہوئے رو پڑیں۔ اس خاتون کا گھر پولیس قبضہ گزاروں سے پہلے ہی واگزار کے خاتون کے حوالے کر چکی ہے؛ تاہم مکان کا قبضہ چھوڑتے وقت اس شخص کے ذمے پونے پانچ لاکھ روپے کی رقم تھی جس کیلئے وہ خاتون کے ساتھ حیلے بہانے کر رہا تھا اور اسی رقم کی واپسی کیلئے خاتون نے وزیراعظم کو کال کی تھی۔ سی سی پی او لاہور نے گزشتہ روز وہ بقایا جات بھی متاثرہ خاتون کو واپس دلا دیے۔ لاہو ر میں یہ جو سیل قائم ہوا ہے اس طرح کے سیل دیگر شہروں میں بھی قائم ہونے چاہئیں کیونکہ یہ مسئلہ کسی ایک شہر تک محدود نہیں۔ اوور سیز پاکستانی الگ رونا روتے ہیں وہ اپنی جمع پونجی زمینوں کی خرید و فروخت میں پھنسا بیٹھتے ہیں یا ان کا کوئی رشتہ دار ہی ان کی جائیدار، گھر وغیرہ پر قابض ہو جاتا ہے۔ پولیس کا محکمہ اس مسئلے کو حل کرنے میں ہراول دستے کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر شکایت کنندہ کی درخواست کو اپلائی اور ٹریک کرنے کیلئے الگ سے آن لائن پورٹل قائم کر دیا جائے کہ جہاں درخواست اور کاغذات وغیرہ اَپ لوڈ کیے جا سکیں تو بہت آسانی ہو گی۔ ساتھ میں مسئلہ حل کرنے کیلئے مخصوص مدت مقرر کر دی جائے تاکہ متاثرین عمر بھر دربدر اور خوار نہ ہوتے رہیں اور ان کے پوتوں‘ پڑپوتوں کے بجائے مسئلہ ان کی زندگی میں ہی حل ہو جائے۔ اگر یہ ایک مسئلہ ہی حکومت موثر انداز میں حل کر دے تو عوام کو تبدیلی کے واضح اثرات نظر آنے لگیں گے۔