خوبصورت اور بڑا گھر یا اچھی سوسائٹی میں گھر بنا لینا کافی نہیں‘ بلکہ اس گھر میں رہتے ہوئے اصل سکون تب ملتا ہے جب آپ کے ہمسائے‘ جن کی دیواریں آپ کے ساتھ ملتی ہیں‘ آپ کو اچھے مل جائیں۔ تب آپ خوش قسمت ہیں اور خوش نصیب بھی۔ کوئی ایک ہمسایہ بھی غلط مل گیا تو آپ کا سارا سکون اور گھر پر لگایا پیسہ برباد ہو جائے گا۔ ملکوں کی صورتحال بھی ایسی ہی ہوتی ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ نازک۔ گھروں کی آپس میں لڑائیوں میں تو دس بیس افراد متاثر ہوتے ہیں لیکن ہمسایہ ملکوں کے مابین تنازعات کی وجہ سے نہ صرف کروڑوں اربوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں بلکہ معیشت‘ امن و امان‘ روزگار‘ سیاحت‘ سرمایہ کاری سمیت درجنوں شعبے غیر یقینی صورتحال اور تنزلی کا شکار رہتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ جن دو ممالک کی طویل ترین سرحدیں لگتی ہیں وہ بھارت اور افغانستان ہیں۔
بھارت کی جانب سے ہم آئے روز سرحدی خلاف ورزیاں اور شیلنگ وغیرہ دیکھتے ہیں‘ اس کے جاسوس اور ایجنسیاں بدامنی پھیلانے کیلئے تاک میں رہتی ہیں اور ماضی میں یہاں دہشتگردی کی بڑی کارروائیاں بھی کرتی رہی ہیں۔ یہی معاملہ افغانستان کا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور اتحادی فوجوں نے حملہ کیا تو خطے میں امن و امان کی صورتحال مزید بگڑ گئی۔ پاکستان پہلے ہی لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دئیے ہوئے تھا‘ پھر مزید افغان مہاجرین یہاں آنے لگے بلکہ را کے دہشتگردوں نے افغانستان کی سرحد اور سرزمین استعمال کرنا شروع کر دی اور وہاں سے پاکستان میں کارروائیاں کرنے لگے جس کی وجہ سے ملک کو بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے باوجود پاکستان نے انتہائی تحمل اور دانشمندی کے ساتھ صورتحال کو کنٹرول کیا۔
ملک میں امن قائم کرنے کیلئے عسکری اور سول قیادت نے مل کر ایسی پالیسیاں بنائیں کہ بالآخر شمالی و جنوبی وزیرستان سمیت ملک کے تمام حصوں سے دہشتگردوں کا صفایا ہو گیا۔ آپریشن ضرب عضب اور دیگر آپریشنز کے بعد ملک میں صورتحال نارمل ہو گئی اور معمولی کی سرگرمیاں ایسے علاقوں میں بھی بحال ہو گئیں جہاں طالبان نے بچیوں کے سکول جانے پر پابندی تک عائد کر رکھی تھی۔ اب وہاں سیاحت بھی کھل گئی ہے اور تعلیمی و سول ادارے بھی اپنا کام کر رہے ہیں تاہم اس سارے عمل میں پاکستان کو بہت زیادہ مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان کی تزویراتی پوزیشن ایسی ہے کہ اسے دنیا کا کوئی بھی ملک نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اتحادی فوجوں نے افغانستان میں دو دہائیاں جنگ کی نذر کر دیں اور بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ اب اقتدار مقامی قوتوں کے سپرد کر دیا جائے۔ فوجوں کے انخلا اور واپسی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا اور اب بہت کم فوج افغانستان میں موجود ہے۔
افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار بہت اہم تھا۔ وزیراعظم عمران خان تو عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ جنگ اس مسئلے کا حل نہیں‘ یہ ایشو مذاکرات سے ہی حل ہوگا۔ پاکستانی قوم کا بھی یہی مطالبہ تھاکہ افغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے تمام فریقوں کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا۔ جنگیں چاہے جتنی بھی طویل ہو جائیں بالآخر ان کا اختتام مذاکرات پر ہی ہوتا ہے۔ اس مقصد کیلئے پاکستان نے طالبان لیڈروں کو اکٹھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان میں اس وقت بھی تیس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین موجود ہیں۔ یہ اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں بیٹھے ہیں۔ ان کی وطن واپسی ہو جائے تو یہ معمول کی زندگی میں واپس آ سکتے ہیں۔ پاکستان کا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو گا تو پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک سکون بھی پائیں گے۔ اس لئے اس مسئلے کا حل اکیلا افغانستان یا اتحادی فوجیں نہیں نکال سکتیں بلکہ تمام ممالک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سفارتی سطح پر پاکستان نے ہر فورم پر افغان مسئلے کے فوری اور دیرپا حل کیلئے تجاویز دیں اور عالمی رائے عامہ کو استوار کیا۔ پاکستان نائن الیون کے بعد مسلسل دہشتگردی کا شکار رہا اور اس کی معیشت میں بھی بہتری نہیں آ سکی۔ دنیا میں اس وقت جو ورلڈ آرڈر چل رہا ہے اس میں کسی ملک کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی۔ چاہے چین ہو یا امریکہ‘ جاپان ہو یا روس تمام ممالک ایک دوسرے پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ کوئی بھی تنہا کامیاب نہیں ہو سکتا۔ نہ معاشی سطح پر اور نہ ہی عسکری لحاظ سے۔ دنیا کے کسی ایک کونے میں کوئی بم دھماکہ ہوتا ہے‘ نسلی تعصب کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کے اثرات دنیا کے دوسرے حصے میں محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کو اپنی رائے دینے کا موقع ملتا ہے اور وہ اکٹھے ہو کر احتجاج کرتے ہیں جیسا کہ گزشتہ دنوں اسرائیل فلسطین جھڑپوں میں دیکھا گیا کہ جدید ممالک میں بھی جو مظاہرے ہوئے ان میں یہودی بھی شریک تھے۔ اس لئے یہ کہنا کہ افغانستان یا کشمیر کا مسئلہ مقامی ہے قطعی درست نہیں۔ افغانستان پر بھی جب امریکہ حملہ آور ہوا تھا تب یورپ میں ملین مارچ دیکھے گئے۔ وہ غیرملکی بھی‘ جنہوں نے کبھی افغانستان کا سفر کیا تھا نہ نام سنا تھا‘ اس اقدام کے خلاف نکل آئے تھے۔ آج پاکستان ایشیا میں محل وقوع کے اعتبار سے بھی دنیا کیلئے مرکزِ نگاہ بن چکا ہے۔ پاکستان میں امن تبھی ہوگا جب افغانستان کی سرزمین جنگ و جدل سے پاک ہوگی تاہم بھارت شرانگیزی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بھارت نہیں چاہتا کہ افغان پیس پراسیس اپنے انجام کو پہنچے۔ وہ اسے سبوتاژ کرنے کیلئے ہر ہتھکنڈا آزمانے پر تُلا بیٹھا ہے۔
بھارت اور داعش کے ڈانڈے بھی آپس میں ملتے ہیں اور اس کے ثبوت بھی سامنے آ چکے ہیں۔ بھارت محفوظ پاک افغان بارڈر کا یکسر مخالف ہے کیونکہ اس سے اس کے ایجنڈے میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ دس لاکھ بے گناہ افراد افغان جنگ میں مارے جا چکے ہیں لیکن بھارت کو اس کی پروا نہیں۔ افغان حکومت بھی اس معاملے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے اور اس کا ثبوت آئے روز دہشتگردی کے واقعات ہیں کہ جن کے بادل ابھی تک چھٹے نہیں۔ افغان حکومت بھی حالات کا درست ادراک نہیں کر پا رہی ہے۔ پاکستان افغان امن عمل میں بھارت کی جانب سے رکاوٹوں اور بدامنی کے ثبوت بھی عالمی سطح پر فراہم کر چکا ہے۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مل کر خطے میں القاعدہ‘ تحریک طالبان پاکستان اور داعش کی کمر توڑنے کی بھرپور اور کامیاب کوششیں کیں‘ جس پر بھارت سیخ پا ہے۔ وہ پاک امریکہ تعلقات میں بہتری پر بھی سٹپٹانے لگتا ہے۔ پاکستان امریکہ کے ساتھ سٹریٹیجک اور سکیورٹی معاملات میں تعاون کے ساتھ خطے میں امن قائم کرنے کی جو کوششیں کر رہا ہے وہ بھی بھارت کو چبھ رہی ہیں اسی لئے وہ پاک امریکہ تعلقات میں دراڑیں ڈالنے اور غلط فہمیاں پیدا کرنے میں لگا ہوا ہے تاہم پاکستان بھارت کی ہر سازش کا جواب دے رہا ہے۔
جہاں تک افغانستان کا تعلق ہے تواس کا فیصلہ وہاں کے عوام اور سیاسی قوتوں کی امنگوں اور آرا کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ کسی ایک ملک کی اجارہ داری اور یکطرفہ فیصلوں کا نفاذ سنگین غلطی ہو گی جس کا خمیازہ افغان عوام کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ اتحادی فوج وہاں سے نکل رہی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی تیسر ا اٹھ کر افغانستان کا چوہدری بن جائے اور کسی نئی تحریک کے نام پر معصوم افغان شہریوں کا خون بہانا شروع کر دے۔ سوویت یونین اور نائن الیون کی جنگوں کے بعد افغانستان میں بچا ہی کیا ہے۔ جو تھوڑا بہت انفراسٹرکچر تعمیر ہوا ہے وہ بھی چھوٹے چھوٹے عسکری گروپوں کی آپس کی لڑائیوں اور بھارت جیسے ممالک کی بیرونی مداخلت کی نذر ہو گیا تو نہ صرف افغان امن عمل کھٹائی میں پڑ جائے گا بلکہ پورے کا پورا خطہ بدامنی کی ایک نئی لہر کا شکار ہو کر رہ جائے گا جس کا فائدہ داعش اور اس جیسی دوسری دہشتگرد قوتوں کو ہو گا۔ پاکستان نے اس ضمن میں جو کاوشیں کی ہیں ان پر عالمی سطح پر سنجیدگی سے عمل کرنے سے ہی مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔