بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورِ حکومت میں جس طرح ہندوتوا نظریے کو پروان چڑھایا جارہا ہے اس سے نہ صرف بھارتی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گا بلکہ بی جے پی حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائے گی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آج بھارت کے اندر سے ہی یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اگر بھارت نے نسل پرستی اور نفرت پر مبنی ہندوتوا نظریے کے تحت مسلمانوں اور اقلیتوں پر مظالم جاری رکھے تو وہ اندرونی خلفشار کا شکار ہو جائے گا۔ یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں کہ مودی حکومت نہ صرف مسلمانوں بلکہ دیگر اقلیتوں کو بھی حقوق دینے کو تیار نہیں۔ ہندوتوا کے حوالے سے نریندر مودی کے غیر ذمہ دارانہ بیانات ہمیشہ سے تشدد اور بے چینی کو ہوا دیتے رہے ہیں۔ پھر بھارت نے جس طرح مقبوضہ کشمیر کو اپنی جاگیر سمجھ کر وہاں قبضہ کیا ہوا ہے اور جس طرح مسلمانوں پرمظالم ڈھا رہا اور ان کی نسل کشی کر رہا ہے یہ ہندوتوا پالیسیوں کا عملی مظاہرہ نہیں تو اور کیا ہے۔ بھارت مودی کی سربراہی میں مقبوضہ کشمیرمیں بھی ہندوتوا ذہنیت کو پھیلارہا ہے۔ دیگر قومیتوں کو لا کر وہاں بسایا جا رہا ہے جس کا مقصد مسلمان اکثریت والے اس علاقے میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے۔ ایک طرف مودی مقبوضہ کشمیر میں فوج او راسلحے میں روز بروز اضافہ کررہا ہے تو دوسری طرف اس کا اپنا ملک کورونا سے بری طرح تباہی کا شکار ہے۔ بھارتی میڈیا چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لیے نریندر مودی حکومت کی تیاریاں انتہائی ناقص تھیں اور ایسا کوئی بہت نااہل وزیراعظم ہی کر سکتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم کی نظر میں عوام اور ملک کے صحت عامہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے لیے ہندوتوا کی شر انگیز سیاست سب سے اہم ہے، اپنے ذاتی امیج کو بہتر بنانا ان کی اولین ترجیح ہے جبکہ عوام اور ان کی بھلائی ثانوی حیثیت کے حامل ایشوز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت کو ان لوگوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے جو کورونا کی وجہ سے مارے گئے۔ آج ہندوتوا کے منصوبے پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے بھارت سخت اندرونی انتشار کا شکار ہے۔ معیشت کا بھٹہ بیٹھ رہا ہے۔ ہرطرف خوف و ہراس کا عالم ہے لیکن اس عالم میں بھی آر ایس ایس کے غنڈے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی جانوں کے درپے ہیں۔ ان کی عزتوں اور املاک لوٹنے کیلئے بہانے بناتے رہتے ہیں۔
بھارت کے اندر کروڑوں لوگ خطِ غربت سے بہت نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کو دیگر سہولتیں تو دور‘ دو وقت کی روٹی اور واش روم کی سہولت بھی میسرنہیں ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بے گھر افراد بھارت میں مقیم ہیں۔ دیہات تو دیہات‘ شہری علاقوں میں بھی لوگوں کو جھونپڑیاں نصیب نہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں بچے فٹ پاتھوں پر جنم لیتے ہیں اور وہیں رُلتے پلتے جوان ہو جاتے ہیں۔ یہ جرائم کی دنیا میں قدم رکھیں یا سڑکوں پر مر جائیں‘ اس سے مودی سرکار کو لینا دینا نہیں۔ اسے تو صرف اپنا متشدد نظریہ نافذ کرنے سے غرض ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں حکومت اور ہندوتوا کے خلاف کسی درخواست پر کارروائی نہیں ہوتی اور ہو بھی جائے تو فیصلہ سرکار اور ہندوتوا کے حق میں آتا ہے۔ اقلیتوں کی طرف سے کسی بھی عدالتی کارروائی میں انصاف نظر نہیں آتا۔ انسانی حقوق کی جتنی پامالی بھارت میں ہوتی ہے‘ پوری دنیا میں شاید اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔
ہندوتوا کا نظریہ آج سے سو برس قبل سامنے آیا تھا۔ ہندوستان کی سرزمین پر دمودر سوارکر نامی ایک ہندو انتہا پسند نمودار ہوا‘ جس نے ہندوتوا کا ذکر پہلی دفعہ 1923ء میں اپنی کتاب میں کیا۔ یوں مودی سرکار جس ہندوتوا کا ڈھول پیٹ رہی ہے‘ اس کی عمر سو برس بھی نہیں ہے۔ یہ کہنا سراسر جھوٹ ہے کہ یہ ہزاروں برس پرانا نظریہ ہے۔ ہندوتوا کا آغاز ہٹلر کی نازی پارٹی کے ساتھ اور باہمی تعاون سے ہوا جس میں نسلی اور علاقائی برتری کا تصور ہے جبکہ یہ دوسرے مذاہب کو مکمل طور پر ختم کرنے کے درپے ہے جس کے مطابق ہندوستان پر ہندوئوں کے علاوہ کسی اور کا حق نہیں، باقی تمام مذاہب کے لوگ یا تو ہندو ہو جائیں یا ملک چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ جس طرح نریندر مودی کسی غلط بات پر سٹینڈ لے کر اسے کر کے ہی چھوڑتا ہے‘ چاہے اس کا اور ملک کا نقصان ہی کیوں نہ ہو جائے‘ اسی طرح ہندوتوا دوسرے مذاہب کی بات کو نہ سننے اور انہیں جڑ سے اُکھاڑ دینے کا درس دیتا ہے جو درحقیقت ایک فاشسٹ تصور ہے۔
نریندر مودی کی اس پالیسی نے بھارت کی ریاست سے جڑے اہم اداروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور صرف حکومتی سطح پر ہی نہیں بلکہ ریاستی سطح پر بھی لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ بھارت میں مودی کی ہندوتوا پر مبنی سیاست کو قبول کریں۔ نریندر مودی اس گھنائونے کھیل میں اتنا گر چکا ہے کہ وہ اب علی الاعلان کہتا ہے کہ جن دیگر مذاہب کے لوگوں نے بھی بھارت میں رہنا ہے ان کو ہندوتوا کی بالادستی کو قبول کرنا ہوگا۔ پھر ساتھ ہی ساتھ شدت پسند ہندوتوا کی سیاست سے جڑے سیاستدان بھی مودی کی ہاں میں ہاں ملانے لگ جاتے ہیں اور کھلے عام دیگر اقلیتوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ اگر انہیں ہندوتوا کی بالادستی قبول نہیں تو وہ یہ ملک چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں جو قوانین ہندوئوں کو برتری دلاتے ہیں ان کے نفاذ کیلئے مودی حکومت ہر حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتی ہے۔ جس طرح مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 35اے اور 370 کو ختم کیا گیا وہ کشمیری مسلمانوں کے خلاف ایک گھنائونی سازش تو تھی ہی لیکن یہ ہندوتوا کے نظریے کو آگے بڑھانے کی طرف ایک شیطانی چال بھی تھی۔ اس اقدام کے خلاف بھارت اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم کمیونٹیز کی طرف سے بھی احتجاج دیکھنے کو ملا؛ تاہم مودی حکومت اپنی سیاسی ڈھٹائی پر قائم ہے البتہ اس کو داخلی اور خارجی محاذ پر کوئی بڑی پذیرائی نہیں مل رہی بلکہ اس پر چاروں اطراف سے تنقید بڑھ رہی ہے۔ جب سے مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو وزیر اعظم عمران خان نے فوج کے ساتھ ایک پیج پر یکجا ہو کر اٹھایا ہے تب سے مودی اور اس کے حواری سٹپٹا رہے ہیں۔ کشمیر ایک بڑا بین الاقوامی مسئلہ تھا لیکن پاکستان نے اسے مزید اجاگر کرنے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔ نریندر مودی او رآر ایس ایس کا باہمی گٹھ جوڑ کشمیریوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کیلئے ترتیب دیا گیا۔ ہندوتوا کے پرچارک صرف مسلمانوں کے ہی نہیں بلکہ مسیحیوں ‘دلتوں اور سکھوں‘ سبھی کے خلاف نظر آتے ہیں۔ کوئی بھی ایسی اقلیت نہیں جو مودی حکومت میں خود کو غیر محفوظ نہ سمجھتی ہو۔ اسی طرح دیگر مذاہب کے لوگوں کو جس برے انداز سے ہندوتواکی سیاست کے پیروکار عملاً تشد دکا نشانہ بنا کر ان میں خوف کا ماحول پیدا کررہے ہیں، وہ خود ایک بڑا سوال ہے۔ آر ایس ایس کے ہندوتوا میں انتہا پسندی سرفہرست ہے اور اسی کو ترجیح دی جاتی ہے، خواہ وہ شخص ذاتی حیثیت میں کتنا ہی داغدار کیوں نہ ہو، یو ں بی جے پی ہندوتوا کے نشے میں اپنا سیاسی مستقبل بھی برباد کر رہی ہے۔ اس وقت مودی کے چہرے سے وہ نقاب اتار پھینکنے کی ضرورت ہے جو اس نے دنیا کے سامنے پہن رکھا ہے۔ اس نقاب کے پیچھے ایسے مظالم چھپے ہیں کہ زمین کانپ جائے۔ کیا دنیا نے مودی کی قیادت میں گجرات میں مسلمانوں کا تاریخی قتل عام نہیں دیکھا؟آج سے انیس برس قبل تین ہزار بے گناہ نہتے مسلمانوں کو ہندو انتہا پسندوں نے بے دردی سے شہید کیا تھا۔ اس بہیمانہ واردات پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے وشوا ہندو پریشد‘بجرنگ دل‘ اور بی جے پی کوموردِ الزام ٹھہرایا ‘ عینی شہادتیں اکٹھی ہوئیں اور درخواستیں بھی دی گئیں لیکن سب کچھ ردی کی ٹوکری اور الماریوں کا کاٹھ کباڑ بن گیا۔ تاریخ کے اوراق سے مگر مودی کے اس ہندوتوا نظریے اور ظلم کی داستانوں کو مٹایا نہیں جا سکتا۔ آج بھارت میں بہت سی علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس خودسب سے بڑی علیحدگی کی تحریک ثابت ہو گی۔ جس طرح کشمیر کو فوجی چھائونی میں تبدیل کر نے کی مودی کو کوشش کامیاب نہیں ہوئی‘ اسی طرح مودی کی ہندوتواسوچ آج پورے بھارت میں غیرمقبول ہو چکی ہے۔ مودی اپنی روحانی جماعت کی پست سوچ اور فاشسٹ فلسفے کو پروان چڑھاکر انتشار پھیلا رہا ہے لیکن اس کی یہ کوشش ماضی کی طرح ناکام اور نامراد ہی ثابت ہو گی۔