بھارت کی کوشش ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کو جتنا گنجلک بنا سکتا ہے بنا دے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد یہ مسئلہ مزید سنگین ہو چکاہے۔ یہ سلسلہ اس وقت سے چل رہا ہے جب یہ ایشو ابھی اپنی ابتدائی سٹیج پر تھا۔ برطانیہ سے آزادی کے بعد جب پاکستان اور بھارت کا قیام عمل میں آیا تو ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے عوام کی منشا کے مطابق کسی بھی ملک میں شامل ہونے کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ یہاں سے بھارت نے سازشوں کا آغاز کر دیا۔ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت تھی مگر اس کے ہندو راجہ نے وقت پر کوئی فیصلہ نہ کیا۔ کشمیر میں جاری خانہ جنگی میں پاکستان سے قبائلی لشکر بھی شامل ہو گئے۔ مہاراجہ نے بھارت سے مدد چاہتے ہوئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے؛ تاہم یہ الحاق مشروط تھا کہ جیسے ہی حالات معمول پر آئیں گے کشمیر میں رائے شماری ہو گی۔ بھارت نے اپنی فوجیں ہوائی جہازوں کے ذریعے سری نگر میں اتار دیں تاکہ کشمیر میں ہونے والی بغاوت کو کچلا جا سکے جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلی جنگ چھڑ گئی۔ بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ سے مدد مانگ لی۔ اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا تاکہ وہاں رائے شماری کرائی جا سکے۔ اقوامِ متحدہ نے جنگ بندی کراتے ہوئے دونوں ممالک کی فوجوں کو جنگ بندی لائن کا احترام کرنے کا پابند کیا اور وہاں رائے شماری کرانے کا اعلان کیا۔ 1950ء میں بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 شامل کیا گیا جس میں ریاست جموں و کشمیر کو خود مختار حیثیت دی گئی۔ یہی آرٹیکل ہے جسے کم و بیش دو سال قبل بھارت نے منسوخ کر دیا تھا‘ اس کے ساتھ 35اے کی شق بھی جس کے بعد کشمیر کی حیثیت پہلے جیسی نہیں رہی بلکہ وہاں پر بھارت سے دیگر لوگ بھی منتقل ہو سکتے ہیں اور وہاں جائیدادیں وغیرہ خرید سکتے ہیں۔ جہاں تک ریاستی اسمبلی کشمیر کے مستقبل کی بات ہے تو ستر برس قبل شیخ عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے جموں و کشمیر میں انتخابات کا مطالبہ کیا تھا؛ تاہم اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے کشمیر میں انتخابی عمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی رائے شماری کا متبادل نہیں‘ نہ ہی کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے‘ ساتھ ہی ایک نمائندہ مقرر کرنے اور کشمیر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا اعلان کیا مگر اس پر عمل در آمد نہ ہو سکا۔ شیخ عبداللہ نے ریاستی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کے حق میں دلائل دیئے۔ اگلے برس جولائی میں شیخ عبداللہ نے دہلی معاہدے پر دستخط کر دیے جس کے تحت انڈیا کے زیرانتظام ریاست کو داخلی خودمختاری دی جانی تھی۔ جولائی 1953ء میں کشمیر کے بھارت سے مکمل الحاق کے بارے میں جو تحریک شروع ہو چکی تھی‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ عبداللہ نے کشمیر کی خود مختاری کی تجویز دے دی۔ اگست میں شیخ عبداللہ کو بطور وزیراعظم فارغ کرتے ہوئے گرفتار کرکے بھارت میں قید کر دیا گیا اور ان کی جگہ بخشی غلام محمد کو وزیر اعظم بنا کر مظاہرین کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا ٹاسک سونپا گیا۔ اسی ماہ بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم کے مابین دہلی میں ملاقات ہوئی جس میں کشمیر میں رائے شماری کیلئے ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنے پراتفاق ہوا؛ تاہم جیسے ہی پاکستان اور امریکہ کے مابین سٹریٹیجک تعلقات گہرے ہوئے تو بھارت نے اس مسئلے کو بھی سرد جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے رائے شماری سے انکار کر دیا جبکہ اس سے اگلے برس کشمیر کی اسمبلی نے بھارت کے ساتھ الحاق کر دیا۔ 26 جنوری 1957ء کو ریاستی اسمبلی نے جموں و کشمیر کا آئین نافذ کیا جس کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی یونین کا حصہ قرار دے دیا گیا۔
یہ پس منظر بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بھارت نے ایک طے شدہ پلان کے تحت کشمیر کے مسئلے کو سبوتاژ کیا اور ابتدا میں ہی کشمیریوں کو نہ صرف حق رائے دہی سے محروم کرنے کی پلاننگ شروع کر دی بلکہ اقوام متحدہ کی ہدایات کو بھی نظر انداز کردیا۔ دیکھا جائے تو ریاست جموں و کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947ء کو بھارتی حکومت کے ساتھ ریاست بھارت میں شمولیت کا معاہدہ کر لیا تھا اور اس طرح 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیری عوام کی خواہش کے برعکس بھارتی فوج نے ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کرلیا تھا‘ جس کے نتیجے میں کشمیر کے مسئلہ پر پاک بھارت جنگی تنازعات کا آغاز ہوگیا تھا۔ بھارتی حکمرانوں کا خیال تھا کہ پاکستان کو تو آزاد ہوئے ابھی کچھ ہی مہینے گزرے ہیں یہ ابھی اس قابل نہیں ہو گا کہ بھارت کی فوجی جارحیت کا مقابلہ کرسکے تاہم قبائلی عوام کی بھرپور مدد سے پاکستان نے بھارتی افواج کا بھرپور مقابلہ کیا اور ریاست جموں و کشمیر کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ بھارتی افواج کے قبضہ سے آزاد کروا کر آزاد جموں و کشمیر حکومت کی بنیاد رکھی۔ بھارت نے پاکستانی عوام کو بھارتی افواج کو بآسانی شکست دیتے ہوئے دیکھا تو بھارت اس مسئلے کو خود لے کر یکم جنوری 1948ء کو اقوام متحدہ جا پہنچا اور جنگ بندی کی درخواست کر دی۔ یہ بھی بھارت کی مکارانہ اور شاطرانہ چال تھی۔ بھارت کا یہ مقصد ہرگز نہ تھا کہ اقوام متحدہ اس مسئلے کا فیصلہ کرے یا پھر مقبوضہ کشمیر کے عوام کو یہ اختیار دے دے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں خود فیصلہ کر سکیں۔ اقوام متحدہ نے دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی کروا دی اور متفقہ قرارداد پاس ہوئی کہ کشمیر کا مسئلہ جمہوری طریقے سے عوامی استصواب رائے سے حل کیا جائے گا۔ دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی لائن کو لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا۔ اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر پر کئی قراردادیں پاس کی گئیں۔ سلامتی کونسل میں 21 اپریل 1948ء کے قرارداد کے مطابق بنیادی اصول طے پایا کہ بھارت مسئلہ کشمیر کو استصواب رائے کے مطابق حل کرے گا۔ پھر 3 اگست 1948ء اور 5 جنوری 1949ء کو بھارت پر اقوام متحدہ کے قراردادوں پر عمل کروانے پر زو دیا گیا لیکن نتائج ہمارے سامنے ہیں۔
بھارتی حکمرانوں کا ہمیشہ یہی وتیرہ رہا ہے کہ وہ اکھنڈ بھارت کے نعرے لگاتے چلے آ رہے ہیں۔ اپنی اس مذموم روش کے تحت اس نے مقبوضہ کشمیر پر ناجائز تسلط جمایا اور اسے قائم رکھنے کے لئے آج تک ریاستی دہشت گردی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ڈیڑھ لاکھ معصوم کشمیریوں کو تہ تیغ کیا جا چکا ہے مگر سلام ہے کشمیری عوام کے جذبہ آزادی کو کہ آج تک بھارت کشمیریوں کو اپنی مرضی پر جھکانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ آج بھی مقبوضہ کشمیر ریاست کے نہتے مگر جری عوام اپنی لازوال جدوجہدِ آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت کا غاصبانہ تسلط سات عشرے گزر جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوا حالانکہ اس ناجائز قبضے کے بعد کئی برسوں تک بھارت یہ وعدہ کرتا رہاکہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کی غرض سے حق خودارادیت کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ بھارتی حکمرانوں کو یہ کون سمجھائے کہ آزادی کے متوالوں کو دہشتگرد کہہ دینا تو شاید ممکن ہے مگر اس بارے تاریخ ہی حتمی فیصلہ کرتی ہے اور وقت کے فیصلے ہی درست قرار پاتے ہیں۔ کشمیر میں بھارت نے ریاستی دہشت گردی کا جو گھناؤنا کھیل شروع کیا تھا وہ اب ختم ہونے کو ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں اور گزشتہ دو عشروں کو ہی دیکھ لیں تو آنکھیں کھل جائیں گی۔ کیسے کیسے ملک اور کیسی کیسی طاقتیں تھیں جو منظر اور نقشے سے غائب ہو گئیں اور کیسے کیسے حکمران تھے جو جان بچانے کیلئے دوسرے ممالک کی منتیں کرتے رہے۔ جس طرح سے بھارت کشمیر میں پوری قوت لگانے کے باوجود بھی شکست خوردہ ہے‘ جس طرح اس کے اپنے ملک میں علیحدگی کی تحریکیں عروج پر ہیں‘ اس کا حال بھی ان ممالک اور ایسے حکمرانوں سے مختلف نہیں ہو گا‘ اس کا انجام بھی قریب ہے۔