کچھ لوگ‘ کچھ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جو ہر وقت آپ کی آنکھوں کے سامنے رہتی ہیں‘ آپ کے دل میں ان کی یادیں ہمہ وقت بسی رہتی ہیں اور آپ انہیں بھلانا چاہیں بھی تو نہیں بھلا سکتے۔ ان میں ہمارے والدین بھی ہوتے ہیں اور ہمارے بچے بھی۔ ایک دن کے لیے والدین کہیں چلے جائیں تو بچے اداس ہو جاتے ہیں۔ یہی حال والدین کا ہوتا ہے۔ بچے چاہے سکول کے ٹرپ پر ایک دن کے لیے ہی کیوں نہ جائیں‘ والدین کو فکر لگ جاتی ہے اور جب تک خیر خیریت سے ان کی واپسی نہیں ہو جاتی‘ ماں کے دل کو چین اور باپ کو قرار نہیں آتا۔ یہ تو ہمارے والدین اور اولاد کی بات تھی؛ ہماری زندگی میں ہمارے والدین‘ ہمارے بیوی بچوں‘ ہمارے کاروبار جن سے ہمیں محبت ہے‘ ہماری دولت جس کے لئے ہم مرے جاتے ہیں اور ہمارے اثاثے جن کو ہم ہر پل بڑھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں یہ ساری نعمتیں‘ یہ ساری خوشیاں اور یہ سارے اثاثے جمع ہو جائیں تب بھی اس نبیﷺ کی محبت سامنے ہیچ ہیں جن کی آمد کی بدولت ہمیں زندگی گزارنے کا سلیقہ معلوم ہوا۔ والدین کی محبت‘ بچوں سے پیار‘ رشتے داروں کے لیے اُنس‘ چھوٹوں سے شفقت‘ بڑوں کا ادب یہ سب ہمیں نبی کریمﷺ کے صدقے ہی معلوم ہوا۔ نبی اکرمﷺ سے بڑھ کر ہمارے لیے کوئی بھی نعمت‘ کوئی ہستی نہیں ہے۔
جب بھی بارہ ربیع الاول کا دن آتا ہے‘ ہم چراغاں کرتے ہیں ‘گھروں اور بازاروں کو سجاتے ہیں اور آپﷺ کی یاد میں چند باتیں اور چند نعتیں بھی کہتے ہیں؛ تاہم موجودہ دور میں سرکاری سطح پر ربیع الاول کے مہینے کو غیر معمولی اہمیت دی جا رہی ہے اور یکم ربیع الاول سے بارہ ربیع الاول تک پورا عشرہ منایا گیا۔ مرکزی رحمت للعالمینﷺ کانفرنس، عالمی مشائخ و علما کانفرنس، عالمی محفل میلاد ، مقابلہ حسن قرأت و نعت و دیگر تقریبات کا انعقاد کیا گیا‘ سرکاری اور نجی عمارتوں پر چراغاں اور خصوصی محافل و تقریبات منعقد کی گئیں اور پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے اہلکاروں کو رحمت للعالمینﷺ میڈل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ میڈیا پر بھی پہلے سے زیادہ پروگراموں کا اہتمام کیا گیا۔ اسی طرح جیلوں میں قیدیوں اور عملے کیلئے خصوصی پیکیجز کا اعلان کیا گیا۔ شہروں‘ دیہات‘ گلی محلوں میں احادیث نبویﷺ کے بینرز آویزاں کیے گئے اورپناہ گاہوں، اولڈ ہومز، یتیم خانوں میں کھانا پیش کیا گیا۔ ارکانِ اسمبلی نے بھی عشرہ رحمت للعالمینﷺ کی تقریبات میں بھرپور شرکت کی۔ اس سارے عمل کا مقصد عالمی سطح پر یہ پیغام دینا تھا کہ ہماری اپنے پیارے نبی حضرت محمدﷺ سے محبت، عقیدت اور الفت انسانی سوچ سے بڑھ کر ہے۔ نہ کوئی آپﷺ جیسا آیا، نہ آئے گا، آپﷺ خاتم النبیین ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے عشرہ رحمت للعالمین میں معمول کی سرگرمیوں سے ہٹ کر ایک قدم اور اٹھاتے ہوئے رحمت للعالمین اتھارٹی بنانے کا اعلان کیا جس کا مقصد ملک اور پوری دنیا کو اسلام اور نبی اکرمﷺ کی سیرت سے آگاہ کرنا ہے۔ وزیراعظم صاحب عالمی فورمز پر دو اہم موضوعات پر بات ضرور کرتے ہیں۔ ایک کشمیر اور دوسرا ناموسِ رسالتؐ۔ ٹھیک ایک سال قبل‘ اکتوبر میں ہی وزیرِاعظم صاحب نے مسلم دنیا کے رہنماؤں کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں کہا گیا 'ہمیں مسلمانوں کا پیغام دنیا بھر میں پہنچانا ہو گا تاکہ مغربی دنیا کے رہنما بھی مسلمانوں کی عزت کریں۔آج ہمیں مسلم امہ میں مغربی دنیا‘ خاص طور پر یورپی ممالک کی جانب سے اسلامو فوبیا اور عالی مرتبت ہستیوں کی تضحیک اور طنز پر مبنی متنازع خاکوں کے ذریعے کیے جانے والے حملوں پر خدشات اور بے چینی دیکھنے کو مل رہی ہے‘۔ وزیراعظم صاحب نے ایک طویل عرصہ مغرب میں گزارا ہے۔ وہ وہاں کی معاشرت اور سیاست سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے اپنے خط میں واضح کیا تھا کہ چند یورپی رہنماؤں کی جانب سے دیے گئے بیانات اور قرآنِ مجید کی بے حرمتی سے متعلق واقعات اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یورپی ممالک‘ جہاں مسلمان کثیر تعداد میں آباد ہیں‘ میں اسلامو فوبیا میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یورپ میں مساجد بند کر دی گئی ہیں، مسلمان خواتین سے ان کی مرضی کا لباس زیب تن کرنے کی آزادی چھینی جا رہی ہے حالانکہ وہاں پادری اور راہبائیں‘ اپنے مخصوص مذہبی لباس پہنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یورپ میں مسلمانوں کے خلاف ڈھکے چھپے انداز میں اور کھلے عام تفریق دیکھنے میں آتی ہے۔
اس طرح کا بے باک موقف لے کر خان صاحب نے قوم کی ہی نہیں‘ پوری امت مسلمہ کی ترجمانی کی اور عالمی پریس نے ان کے اس اقدام کو واضح کوریج دی تھی۔ وزیراعظم صاحب عموماً صاف اور سیدھی بات کرنے کے عادی ہیں۔ اس معاملے میں گھما پھرا کر بات اس لیے بھی نہیں کرنی چاہیے کہ یہ حرمت رسولؐ اور نبی کریمﷺ کی شانِ اقدس کا معاملہ ہے، اس سے مسلمانوں کی انتہائی جذباتی وابستگی ہے۔ رحمۃ للعالمین اتھارٹی کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دیتا ہے۔ جس سیمینار میں اس اتھارٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا‘ اس میں بھی خان صاحب نے کچھ ایسی باتیں کھول کر بیان کر دیں جن پر سربراہان مملکت عموماً بات کرتے ہچکچاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی والدہ نے انہیں ایک دعا سکھائی تھی کہ سونے سے پہلے دعا کرو کہ ''اے اللہ مجھے سیدھے راستے پر چلا‘‘ تو ہم بہن بھائی بچپن میں یہی دعا کرتے تھے لیکن میری تعلیم ایسے کالج میں ہوئی جہاں ہمارے رول ماڈل کوئی اور ہی تھے، ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ وہ اہم ترین بات‘ جو اس خطاب کی جان تھی‘ یہ تھی کہ ہم ربیع الاول مناتے ہیں، پٹاخے پھوڑتے اور آتش بازی کرتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں لیکن کیا ہم آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں یا نہیں؟ یہ ایسے ہی ہے کہ قرآنِ مجید کو گھر میں رکھا ہوا اور سارے اس کو بڑے ادب سے اٹھا رہے ہوں‘ لیکن پڑھتا کوئی نہ ہو کہ اس کے اندر کیا لکھا ہے۔ ہم حضور کریمﷺ کے نام پر جان دینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں لیکن ان کے کردار سے بھی تو کچھ سیکھیں، کیا ہم ان کے کردار پر چل رہے ہیں یا نہیں؟ اللہ کا حکم ہے کہ نبی کریمﷺ کی سنت پر عمل کرو۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ہمارے نصاب کا حصہ ہونی چاہئیں کیونکہ بچوں کا دماغ ابتدائی عمر میں جو سیکھ لیتا ہے‘ وہ اسی کو لے کر باقی زندگی بسر کرتے ہیں۔
اگرچہ نصاب کے حوالے سے کچھ اچھے کام کیے جا رہے ہیں جن میں پہلی سے پانچویں جماعت تک ناظرہ اور چھٹی سے میٹرک تک ترجمے کے ساتھ قرآن پڑھانا ہے۔ یہ اقدامات ہمیں دین کے مزید قریب لائیں گے؛ تاہم ہمیں اپنے کردار اور افعال میں توازن پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ مغرب کو اس وقت تنقید کا موقع مل جاتا ہے جب ہم اسلام کے نام لیوا ہو کر‘ آپﷺ سے محبت کے دعویدار ہو کر نبی کریمﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوتے اور ایسے کام سر انجام دیتے ہیں جن سے بدنامی ملک و قوم کے علاوہ مذہب کے حصے میں بھی آتی ہیں۔ اسی تناظر میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ آج ہمارا کردار ہمارے قول سے میل نہیں کھاتا اور یہ بات سو فیصد درست ہے۔ آج ہم اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائیں بلکہ اپنے گریبان میں ہی جھانک کر دیکھ لیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ہم نے نبی کریمﷺ کی تعلیمات‘ اُن کے اطوار اور اُن کے ارشادات کو صرف باتوں‘ کتابوں اور دعووں تک محدود کر دیا ہے اور جب بھی عمل کا مرحلہ آتا ہے ہم نبی ﷺ کے اُسوہ حسنہ کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں‘ ہم اس کی طرف آنکھ تک اٹھا کر نہیں دیکھتے۔ ہم اگر رسول اللہﷺ کی ناموس اور حرمت کا جھنڈا اٹھاتے ہیں تو ہمیں اس کے لئے خود کو مثال بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا ہو گا۔