ممکن ہے بہت سے لوگوں کیلئے یہ حیرانی کی بات ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں بھی علاج معالجہ مفت نہیں۔ مفت تو دُور کی بات‘ امریکی شہریوں کے پاس بھی مہنگا علاج کروانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کوئی بیمار ہوتا ہے‘ کسی کو آپریشن کروانا ہے‘ بچے کی پیدائش کا معاملہ ہے تو اس کیلئے بھاری ادائیگیاں کرنا پڑتی ہیں۔ امریکہ میں اگر کسی کی ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے تو اسے جڑوانے کیلئے کم از کم ساڑھے سات ہزار ڈالر ادا کرنا پڑتے ہیں جو پاکستانی روپوں میں بارہ تیرہ لاکھ روپے بنتے ہیں اور اگر کسی کو ہسپتال میں تین دن گزارنا پڑیں تو اس کے تیس ہزار ڈالر یا پچاس لاکھ روپے کہیں نہیں گئے۔ صحت کی سہولیات کے حصول کیلئے امریکی شہری ہیلتھ انشورنس پلان لے لیتے ہیں اور سالانہ ہزاروں ڈالر پریمیم بھرتے ہیں۔ امریکہ میں ساڑھے آٹھ فیصد لوگوں کے پاس انشورنس کروانے کے پیسے نہیں ہیں؛ چنانچہ یہ تین کروڑ امریکی علاج معالجے کیلئے ہاتھ پائوں مارتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسے لوگوں کو ایمرجنسی میں ہسپتال جانا پڑ جائے‘ ان کا ایکسیڈنٹ ہو جائے تو کیا یہ ہسپتال کی راہداری میں جان دیتے ہیں؟ ایسا نہیں ہوتا۔ امریکی حکومت ایسے مریضوں کو ہسپتال میں داخل تو کر لیتی ہے لیکن یہ ایک طرح سے حکومت کے مستقل قیدی بن جاتے ہیں۔ ان کا علاج تو ہو جاتا ہے لیکن یہ تادمِ مرگ ریاست کے مقروض ہو جاتے ہیں۔ انہیں بینک کرپٹ قرار دے دیا جاتا ہے اور ان کے اثاثے‘ کریڈٹ کارڈز اور گاڑیاں تک حکومت کی تحویل میں چلے جاتے ہیں۔ ہیلتھ انشورنس کروانے کیلئے ایک امریکی شہری کو تقریباً پانچ سو ڈالر ماہانہ اور ایک خاندان کو کم از کم بارہ سو ڈالر ماہانہ ادا کرنا ہوتے ہیں۔ چاہے وہ علاج کرائیں یا نہ کرائیں انہیں یہ رقم مسلسل ادا کرنا ہوتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں صحت کا سب سے اچھا نظام فرانس کا مانا جاتا ہے۔ دوسرے نمبر پر جرمنی‘ تیسرے پر سنگاپور‘ چوتھے پر برطانیہ‘ پانچویں پر آسٹریلیا آتا ہے۔ اس کے بعد سوئٹزرلینڈ‘ ڈنمارک اور جاپان کی باری آتی ہے۔
اب ہم پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ پاکستان نہ تو امریکہ ہے نہ فرانس اور نہ ہی جاپان‘ یہاں عرب ملکوں کی طرح تیل کے ذخائر ہیں اور نہ ہی ہماری کرنسی اور معیشت اس قدر مضبوط ہے کہ حکومت صحت‘ رہائش اور تعلیم جیسی سہولیات مفت دے۔ اس کے باوجود یہاں عوام وہ سہولیات مانگتے ہیں جو امریکہ بھی اپنے عوام کو مفت نہیں دے سکتا؛ تاہم یہاں حکومتیں اپنے تئیں کچھ نہ کچھ کوشش ایسی کرتی ہیں جس سے عوام کو فائدہ ہو جائے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ شاید حکومت خزانوں کے ڈھیر چھپائے بیٹھی ہے حالانکہ حکومت نے ان پیسوں سے بیرونی قرضے اور ان پر سود اتارنا ہوتا ہے‘ ترقیاتی منصوبوں کو چلانا ہوتا ہے اور عوامی وعدے بھی پورے کرنے ہوتے ہیں۔ ایسا ہی ایک وعدہ پورا کرنے کیلئے گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان لاہور گورنر ہائوس آئے اور صحت کی مفت سہولیات دینے کا اعلان کیا۔ وزیر اعظم کے مطابق اس مقصد کیلئے چار سو چالیس ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پروگرام کے تحت آئندہ سال مارچ تک پنجاب میں ہر خاندان کو ایک ہیلتھ کارڈ میسر ہو گا جس کے ذریعے سالانہ دس لاکھ روپے تک علاج کروایا جا سکے گا۔ آہستہ آہستہ اس کا دائرہ پھیلا دیا جائے گا۔ منتخب ہسپتالوں میں داخلے کا طریقہ کار بڑا آسان ہو گا۔ داخلے کیلئے نیا پاکستان صحت کارڈ‘ اصل قومی شناختی کارڈ اور بچوں کے ب فارم درکار ہوں گے اور ہر ہسپتال کے استقبالیے پر اس پروگرام کا نمائندہ رہنمائی کیلئے موجود ہو گا۔ ویسے جس طرح کے حالات بن چکے ہیں‘ پاکستان ایسے ملک میں اس طرح کی سکیموں کی قدر کی جانی چاہیے کیونکہ ایسی سکیمیں تو جدید ممالک بھی نہیں دے پائے‘ حالانکہ یہاں کے برعکس وہاں اشرافیہ یا عام عوام ٹیکس بھی چوری نہیں کرتے اس کے باوجود ہر شخص کو علاج معالجہ کی رقم خود ادا کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان میں تو لوگ ٹیکس کے نام پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتوں کو سیلز ٹیکس اور دیگر بالواسطہ طریقوں سے ٹیکس اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ عوام کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ حکومت کے خزانے میں جو اربوں روپے موجود ہیں وہ جان بوجھ کر ان پر خرچ نہیں کئے جاتے اور بہت سوں کی تو یہ خواہش بھی ہے کہ یہ ساری رقم ان میں برابر تقسیم کر دی جائے۔ بالفرض اگر ایسا ہو جائے تو بھی بائیس کروڑ کے اس ملک میں ہر شخص کو شاید فی کس دو تین لاکھ روپے ہی ملیں گے اور اس سے ان کا کیا بنے گا۔ اس لیے تھوڑے کو غنیمت سمجھنا ہی بہتر ہے۔ ویسے یہ تھوڑی رقم بھی نہیں ہے کیونکہ چھ سال قبل سابق دور میں یہ رقم تین لاکھ کے قریب تھی لیکن یہ منصوبہ ادھورا چھوڑ دیا گیا تھا۔ ابھی میں کسی ''دانشور‘‘ کا تبصرہ سن رہا تھا کہ غریب لوگ تو صحت کارڈ کو آگے فروخت کر دیں گے۔ اسی طرح ایک اور ''دانشور‘‘ فرما رہے تھے کہ پرائیویٹ ہسپتالوں کا جال بچھانے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے۔ اب ان افلاطونوں کو کون بتائے کہ صحت کارڈ کوئی چاول کی بوری تو ہے نہیں جو فروخت کر دی جائے۔ یہ کارڈ منتخب خاندان کو الاٹ ہو گا جس کا ظاہر ہے کوئی سربراہ ہوگا اور اس سربراہ کا شناختی کارڈ ہوگا۔ ساتھ میں بچوں کے ب فارم پر ان کے نام اور عمریں درج ہوں گی۔ فرض کریں اگر کوئی فروخت کرنے کی کسی طرح کوشش کرتا بھی ہے تو اس میں حکومت کا کیا قصور؟ اب عوام کی اخلاقی رہنمائی کی کچھ ذمہ داری تو یہ افلاطون بھی سنبھال لیں کہ انہیں رات گئے تک صرف اپنے بھاشنوں کا چورن ہی بیچنا ہوتا ہے۔ ممکن ہے حکومت نے اس طرح کا چیک اینڈ بیلنس بھی رکھا ہو جس کے ذریعے کارڈ کا غلط استعمال نہ ہو سکتا ہو لیکن ہمارے یہ ماہر کلاکار تفصیلات کا انتظار کئے بغیر ہی اپنی رائے تھونپنے لگ جاتے ہیں۔ جہاں تک نجی ہسپتالوں کے چلنے اور پھلنے پھولنے کی بات ہے تو اس میں کیا برائی ہے کہ علاج تو وہاں بھی صحت کارڈ پر ہی ہونا ہے۔ جتنے زیادہ ہسپتال اس کی کوریج میں آئیں گے اتنے زیادہ اور اتنا جلد لوگوں کو علاج کی سہولت میسر ہو سکے گی۔ اگر صرف سرکاری ہسپتالوں تک اس منصوبے کو محدود رکھا جاتا تو وہاں پر پہلے ہی بہت دبائو تھا۔ پھر لوگ خود بھی نجی ہسپتالوں کو ترجیح دیتے ہیں کہ یہ ہر جگہ موجود ہیں بڑی تعداد میں ہیں اور ان کا معیار بھی تسلی بخش ہے۔
دنیا میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو کچھ نہ یا کم ملنے پر بھی خوش اور مطمئن رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو بہت زیادہ ملنے پربھی ناخوش اور رنجیدہ رہتے ہیں۔ ہمارا شمار شاید دوسری قسم کے لوگوں میں ہوتا ہے۔ صحت کے حوالے سے عمران خان کا بطور وزیراعظم یہ پہلا بڑا منصوبہ ہے۔ اس سے قبل وہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی صورت میں خود کو منوا چکے ہیں اور یہ دنیا کا واحد ہسپتال ہے جہاں کینسر کے پچھتر فیصد غریب مریضوں کا علاج مفت ہو رہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے اگر انہوں نے حکومت میں رہے بغیر ہی اتنا بڑا منصوبہ بنا اور چلا لیا تو صحت کارڈ والا منصوبہ کیونکر ناکام ہو گا۔ جو لوگ حیران ہوتے ہیں کہ عمران خان وزیراعظم کیسے بن گئے تو جہاں تک مجھے لگتا ہے کہ خان صاحب کو کینسر کے غریب مریضوں کی دُعائیں لگی ہیں۔ انہی کی دُعائوں کی وجہ سے ان کی حکومت بھی چل رہی ہے اور اگر انہیں دوبارہ حکومت ملی تو یہی دعائیں ان کے کام آئیں گی۔