مری میں جو کچھ ہوا اور جو ہو رہا ہے وہ ایک دن ہونا ہی تھا۔ گاڑی میں جاں بحق ہونے والے سیاحوں کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ جس برف کو دیکھنے کے لیے وہ اتنی دور سے سفر کر کے جا رہے ہیں وہی برف ان کی جان لے لے گی۔ ہوٹل مافیا مری میں جو سلوک ایک عرصہ سے سیاحوں کے ساتھ کرتا آ رہا ہے‘اس سانحے نے اسے بھی کھل کر آشکار کر دیا ہے۔ ہر سال مری میں فیملیوں کے ساتھ ہوٹل اور ریسٹورنٹ والوں کے جھگڑے معمول بن چکے ہیں۔ ہوٹل کے سامنے گاڑی کھڑی کیوں کی‘ دکان کے سامنے کھڑے کیوں ہوئے‘ بغیر کھائے پیے ریسٹورنٹ کا واش روم کیوں استعمال کر لیا‘ چند منٹ کرسیوں پر سستانے کیلئے کیوں بیٹھے‘ یہ معمولی معمولی باتیں مری میں شدید لڑائیوں کی وجہ بنتی آ رہی ہیں۔ جب سے سوشل میڈیا پر ایسے جھگڑوں کی وڈیوز سامنے آنے لگی ہیں جن میں مری کی مال روڈ پر خواتین سمیت فیملی کو نہ صرف زدوکوب کیا گیا بلکہ غلیظ گالیاں بھی دی گئیں‘ ان واقعات کے بعد بہت سے لوگوں بالخصوص فیملیوں نے مری جانا ترک کر دیا؛ تاہم ملک کی آبادی جتنی بڑھ چکی ہے‘ اس کے باعث مری جانے والوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہواہے۔گرمیاں ہوں یا برف باری کا موسم‘ پورا ملک مری کا رخ کر لیتا ہے۔ اسلام آباد سے یہ محض ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے‘ بازار‘ ہوٹلز‘ چیئرلفٹ اور پکنک پوائنٹس‘ سب کچھ ایک جگہ موجود ہیں اور یہاں کا موسم بھی بہت رومانوی ہے اس لیے بیشتر فیملیاں اور سیاح اس جگہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ مری آج سے تیس چالیس برس قبل قطعی مختلف تھا۔ چند گنے چنے ہوٹل اور ان میں ٹھہرے چند سو سیاح ہی مری کی رونق دوبالا کرتے دکھائی دیتے تھے۔اب مگر مری میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ مری کی مال روڈ جس پر کبھی کافی پینے کو ہی انجوائے کر لیا جاتا تھا آج وہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی۔ حکومت نے اقتدار سے قبل نئے سیاحتی شہر بسانے کے جو وعدے کیے وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے۔ جتنی خوبصورت وادیاں اور مناظر سوات‘ مظفرا ٓباد اور دیگر مقامات پر ہیں‘ مری میں ان کا عشر عشیر بھی نہیں ملتا۔ اب تو گلیات‘ جن میں نتھیا گلی سب سے زیادہ معروف ہے‘ تک رسائی بھی سڑکوں پر گاڑیوں کے بے پناہ رش کے باعث مشکل ترین ہو تی جا رہی ہے۔ چند کلومیٹر کا فاصلہ کئی کئی گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ مری کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی لیکن نہ اہلِ علاقہ پر اس کا اثر ہوا نہ ہی حکومت پر۔
مری میں سب سے بڑا مسئلہ ہوٹلوں میں پارکنگ کا نہ ہونا ہے۔ دوسر ا بڑا مسئلہ پبلک واش رومز ہیں۔ جی پی او چوک کے ساتھ جو واش رومز موجود ہیں ان کی حالت ایسی بھی نہیں ہوتی کہ کوئی ان کے قریب سے گزر سکے۔تیسرا مسئلہ ہوٹلوں کے بے لگام کرایے‘ بدبودار کمرے‘ میلے کچیلے بستروں کا ہے۔ کوالٹی چیک کا تو وہاں سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ ایسے لگتا ہے ہر کوئی اپنا اپنا قانون نافذ کرنے میں آزاد ہے۔یہ سانحہ تو برف باری کے دوران پیش آیا کہ جب وہاں چیزوں کی قلت ہو جاتی ہے اور چیزیں قدرے مہنگی ملتی ہیں لیکن جون‘ جولائی کے موسم میں بھی وہاں مہنگائی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ چائے اور کھانے کے بل میں بلا وجہ اضافی سروس چارجز شامل کر دیے جاتے ہیں جن کے بارے میں شروع میں بتایا نہیں جاتا۔دور دراز مقامات سے آئے‘ مجبوریوں کے مارے لوگ منہ مانگی رقم دینے پر مجبور ہوتے ہیں۔انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں‘ اس لیے وہ جھگڑنے سے بھی ڈرتے ہیں۔جو کوئی ایسی کوشش کرتا ہے اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہوٹل مافیا کے سرد رویے کے خلاف لوگوں کا غبار سامنے آیا تو ہوٹل ایسوسی ایشن نے اپنے مسائل کا رونا رونا شروع کر دیا۔ حکومت نے زائد کرایہ وصولی پر کچھ ہوٹلوں کو سیل کیا تو ان لوگوں نے مری ہائی وے کو بلاک کر دیا، یوں یہ معاملہ سلجھنے کے بجائے الجھتا ہی جا رہا ہے۔
مری میں اس طرح کے سرد طوفان چاہے کم ہی آئے ہوں لیکن عمومی طور پر برف باری اور گرمیوں کے سیزن میں جن مسائل کا سیاحوں کو سامنا رہتا ہے وہ بہر حال اپنی جگہ نہ صرف موجود ہیں بلکہ آئے روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق حکومت نے مری میں روزانہ آٹھ ہزار سے زائد گاڑیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی اور کام بھی کیے جا سکتے ہیں مثلاً یہ کہ مری کے تمام ہوٹلز کو آن لائن کر دیا جانا چاہیے۔ آپ دنیا بھر میں کہیں بھی چلے جائیں آپ کو آن لائن ہوٹل بکنگ کا آپشن مل جائے گا۔ آن لائن ہی آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ کس ہوٹل میں کتنے کمرے خالی ہیں۔پھر مری کے داخلی راستوں پر گاڑیوں کی تعداد گننے والے سنسرز بھی لگائے جا سکتے ہیں یا مری ٹول پلازہ سے آگے جانے والی گاڑیوں کے ریکارڈ کو مانیٹر کر کے اس تعداد کو کسی سرکاری موبائل ایپ کے ذریعے پبلک کیا جا سکتا ہے۔ اس ایپ میں مری کے ہوٹلز میں سیاحوں کی تعداد اور کمروں کی موجودگی اور رش وغیرہ کی معلومات بھی اَپ ڈیٹ کی جا سکتی ہیں تاکہ سیاح مری جانے سے متعلق فیصلہ کر سکیں۔ اسی طرح ایپ کے ذریعے مری کی سڑکوں پر گاڑیوں کے رش کو بھی مانیٹر کر کے پبلک کیا جا سکتا ہے۔ مری کے تمام ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کو اس بات کا پابند بنایا جا نا چاہیے کہ وہ ہوٹل کے کمرے اور کھانے کی ڈیجیٹل رسیدیں دیا کریں۔ ان تمام معلومات کو حکومت اپنے طور پر مانیٹر کر سکتی ہے اور جہاں غیر ضروری یا اضافی چارجز لیے جا رہے ہوں وہاں ایکشن لیا جائے۔ مری سے متعلق سرکاری سیاحتی ایپ میں شکایات کا سیکشن بھی بنایا جا سکتا ہے جس میں لوگ کسی بھی ہوٹل‘ ریسٹورنٹ‘ سروس یا دیگر مسائل سے متعلق اپنی شکایات درج کرا سکیں گے۔ ان تمام شکایات کے حل کرنے کا ایک ٹائم فریم مقرر کیا جائے کیونکہ سیاح تو دو چار دن رہنے کے بعد چلے جاتے ہیں اور اگر درخواست دہندہ ہی نہ ہو گا تو عمل درآمد بھی ادھورا رہ جائے گا۔
موجودہ حکومت اقتدار میں آنے سے قبل ٹوراز م کے حوالے سے بہت نعرے لگا چکی ہے‘ ساڑھے تین سال گزر چکے ہیں‘ سوال وہی ہے کہ سیاحت سے متعلق وعدے کب پورے ہوں گے؟ ایسے شہری بھی سمجھ سے باہر ہیں جن کی سوچ مری سے باہر نہیں نکلتی۔ جتنا پیسہ وہ مری میں خرچ کرتے ہیں اگر وہ سمجھ بوجھ سے چلیں تو انہی پیسوں میں وہ سوات‘ناران یا دیگر جگہوں پر بھی جا سکتے ہیں۔ اب تو ٹورازم کی کمپنیاں فی شخص چودہ پندرہ ہزار میں پانچ دن کا ٹور بک کرتی ہیں اور سوات اور دیگر وادیوں کی سیر کرا لاتی ہیں اور ان پیسوں میں سوائے شاپنگ کے سب کچھ شامل ہوتا ہے۔اس طرح کے ٹورز میں آپ کو گاڑی سنبھالنے اور پارکنگ ڈھونڈنے کا مسئلہ بھی نہیں ہوتا بلکہ آپ سکون سے مناظر کو انجوائے کرتے ہیں۔یوں سیاح جب ملک کے دیگر سیاحتی علاقوں کا رخ کریں گے تو خودبخود مری پر بوجھ کم ہو گا اور ڈیمانڈ کم ہونے سے بھی مری کے ہوٹل مالکان اور مافیاز کی عقل بھی ٹھکانے آ جائے گی۔ حالیہ سانحے میں وہی لوگ ملوث تھے جو پچاس پچاس ہزار روپے ایک رات کے لیے کمرے کا لے رہے تھے اور جہاں تین تین سو کا ایک انڈا بیچا جا رہا تھا‘وہاں اب ہُو کا عالم ہے۔ مقامی کاروباری مافیا اگر لوگوں کی مجبوری سے فائدہ نہ اٹھاتا تو اسے یہ دن دیکھنا پڑتے نہ بے گناہ شہری اپنی جان سے جاتے۔