وہ آنسو پونچھتے ہوئے بولا ''میری تنخواہ چالیس ہزار ہے‘ کورونا سے قبل ان پیسوں میں کھینچ تان کے گزارہ ہو ہی جاتا تھا کیونکہ ہم جوائنٹ فیملی میں رہتے ہیں اور ایک بھائی اور والد صاحب بھی کماتے ہیں‘ یوں ایک چھت تلے ہم کسی نہ کسی طرح اخراجات کو مینج کر لیتے تھے۔ ہم تین مرلے کے ایک پورشن میں رہتے ہیں‘ تب ہمارے گھر کا کرایہ بھی نکل رہا تھا‘ یوٹیلٹی بلز‘ کچن اور دیگر اخراجات بھی پورے ہو جاتے تھے‘ بچے بھی سکول جا رہے تھے اور اُدھار پکڑنے کیلئے ہمیں اپنا پیٹ بھی ننگا نہیں کرنا پڑتا تھا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ رُکا‘ ایک کاغذ پر نظر ڈالی اور پھر بولا ''لیکن آج ان پیسوں میں دس دن نہیں نکلتے اور اپنا پیٹ تو کیا‘ ہم تینوں مل کر اپنے پورے بدن بھی کاٹ ڈالیں تب بھی ان پیسوں میں گزارہ نہیں ہو سکتا‘‘۔ کہنے لگا ''چالیس ہزار میں سے بائیس ہزار سیدھا سیدھا مکان کا کرایہ چلا جاتا ہے‘ باقی اٹھارہ ہزار بچتے ہیں‘ لیکن سردیوں میں بھی اب پانچ‘ پانچ ہزار روپے بجلی کا بل آنے لگا ہے، حالانکہ یونٹ سو سے اوپر بھی نہیں ہوتے جبکہ تین سال قبل اتنے ہی یونٹس کا بل پندرہ سو روپے سے زیادہ نہیں آتا تھا۔ اب تو گیس اور پانی کی مد میں دو‘ دو ہزار روپے نکل جاتے ہیں اور یوں کل ملا کر میرے پاس دس بارہ ہزار بچتے ہیں‘ چونکہ ہم جاندار ہیں اور جاندار کھائے پئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے‘ سو ان میں مجھے اپنے کنبے کے لیے مہینہ بھر چولہا بھی روشن رکھنا ہوتا ہے‘ سبزی ترکاری‘ کوکنگ آئل‘ آٹا اور مسالا جات وغیرہ بھی خریدنا ہوتے ہیں‘ انہی میں سے ڈاکٹروں کی فیسیں‘ ٹیسٹ اور ادویات کے پیسے بھی ادا کرنا ہوتے ہیں اور انہی میں سے بچوں کی فیسیں‘ یونیفارم‘ کتابوں اور آمد و رفت کا خرچ بھی پورا کرنا ہوتا ہے۔ اب آپ ہی مجھے بتائیے میں ان دس بارہ ہزار میں بچوں کو پڑھائوں‘کچن چلائوں‘ دوائیاں خریدوں‘ کپڑے بنائوں‘ سفر اور پٹرول کے اخراجات نکالوں یا بچوں کی ضرورتیں پوری کروں؟ میں دن میں چودہ گھنٹے گدھوں کی طرح کام کرتا ہوں‘ میرے والد اور میرے بھائی بھی رات تک کام میں جُتے رہتے ہیں لیکن اب تو ہم مل کر بھی اخراجات پورے نہیں کر پا رہے۔ اب میں نے یہی سوچا ہے کہ اگر بچوں کو سکول سے اٹھا کر کسی کام پر لگا دوں گا‘ کسی دکان‘ یا فیکٹری میں ڈال دوں گا تو ایک طرف ہمارا سکول کا خرچ بچے گا اور دوسری طرف کچھ نہ کچھ پیسے بھی آئیں گے اور اگر ہم نے یہ نہ کیا تو کچھ ہی ہفتوں یا مہینوں میں ہمارے بچے فاقوں کا شکار ہونا شروع ہو جائیں گے اور جینا تک ہمارے لیے کافی مشکل ہو جائے گا‘‘۔ وہ ہچکیاں لیتے ہوئے خاموش ہو گیا۔
میں نے اس کے شکستہ چہرے پر نظر ڈالی‘ وہ مجھے اسّی فیصد عوام کا حقیقی نمائندہ معلوم ہو رہا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ آج اس ملک میں نوٹ چھوٹے اور آمدنیاں تنگ پڑ چکی ہیں‘ کروڑ پتیوں کو بھی معاش کی فکریں کھائے جا رہی ہیں اور حالت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کل تک جو کھاتے پیتے لوگوں میں شمار ہوتے تھے‘ آج بچوں کے تعلیمی اخراجات تک افورڈ نہیں کر پا رہے۔ یہ تو چالیس ہزار والوں کا حال ہے‘ آپ ذرا ان کے بارے میں سوچئے جن کی تنخواہ پندرہ‘ بیس ہزار روپے ہے اور وہ بھی وقت پر نہیں ملتی۔ ذرا سوچیں کہ یہ لوگ کیا کھاتے اورکیا پیتے ہوں گے۔ یہ کہاں تک سادگی اپناتے ہوں گے۔ یہ نئے کپڑے تو کجا‘ جو کپڑے پہنتے ہوں گے‘ انہیں دھونے کیلئے صابن سرف خریدتے ہوئے بھی دس دس بار سوچتے ہوں گے۔ یہ موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوانے سے قبل اپنی جیبیں ٹٹولتے ہوں گے اور جب پٹرول کی قیمت ڈیڑھ سو روپے فی لٹر دیکھتے ہوں گے تو موٹر سائیکل کو زمین پر لٹا کر سٹارٹ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پیدل گھر کو چلے جاتے ہوں گے۔ یہ آن لائن ٹیکسی‘ رکشہ تو دُور کی بات‘ بس یا ویگن پر چڑھتے ہوئے بھی بیسیوں بار سوچتے ہوں گے کہ اگر یہ بیس‘ تیس روپے بچ جاتے ہیں تو یہی بچا لیں اور اسی سوچ میں یہ گھروں کو پیدل چل پڑتے ہوں گے۔ شدید گرمی میں یہ لوگ کولر اور پنکھا تک چلاتے ہوئے کئی بار سوچیں گے اور اب جبکہ بجلی پھر دو‘ تین روپے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی ہے‘ ان کے لیے تو ایک انرجی سیور یا پنکھا چلانا بھی مشکل ہو چکا ہو گا۔ وہ کہاں کہاں سے پیسے بچائیں گے‘ کہاں کہاں سے بچت کریں گے؟ ویسے بھی انسان اپنی ہر قسم کی تکلیف برداشت کر سکتا ہے لیکن بات جب بچوں کی آتی ہے تو انسان کی برداشت جواب دے جاتی ہے۔ وہ خود تو بھوکا رہ کر گزارہ کر سکتا ہے لیکن بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا۔ وہ خود تو پنکھے کے بغیر سو سکتا ہے لیکن بچوں کو پسینے میں شرابور چیختے چلاتے نہیں دیکھ سکتا۔ وہ خود تو اپنی بیماریوں کے علاج کو نظر انداز کر سکتا ہے لیکن بچوں کو کوئی بیماری لاحق ہو جائے‘ انہیں کوئی چوٹ لگ جائے تو انہیں اپنے سامنے روتا تڑپتا نہیں دیکھ سکتا۔ اسی طرح اگر اس کے والدین میں سے کوئی بیمار ہے‘ وہ والدین جنہوں نے اسے پالا پوسا‘ بڑا کیا‘ اگر وہ اس بزرگی میں کسی بیماری‘ کسی محتاجی کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ غربت یا مہنگائی کی وجہ سے ان کی مدد نہیں کر پاتا تو یہ بھی اس کے لیے انتہائی مشکل گھڑیاں اور قیامت کا سا سماں ہوتا ہے۔
مانا کہ اس وقت عالمی سطح پر ہی معاشی حالات مندی کا شکار ہیں مگر ان حالات میں بھی سب سے زیادہ پاکستان جیسے زیادہ ترقی پذیر ممالک ہی متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان کی معیشتیں پہلے ہی کمزور اور قرضوں اور امدادوں پر چل رہی تھیں۔ اگرچہ ترقی یافتہ ممالک بھی خاصے متاثر ہوئے ہیں‘ کینیڈا میں اس وقت گزشتہ تیس‘ چالیس برس میں سب سے زیادہ مہنگائی دیکھی جا رہی ہے‘ امریکا اور برطانیہ بھی شدید مہنگائی کی زد میں ہیں مگر وہاں کی حکومتیں کسی نہ کسی طرح اپنے عوام کو معاشی دبائو سے بچانے کے لیے تگ و دو کر رہی ہیں۔ بڑے بڑے بیل آئوٹ پیکیجز دیے جا رہے ہیں۔ جو دور آ چکا ہے‘ اس میں کسی بھی گھر کے سربراہ کا اکیلے گھر چلانا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ اس وقت وہی لوگ خوش ہیں جن کے چلتے کاروبار ہیں یا پھر جن کے گھر میں ایک سے زیادہ لوگ نوکری کر رہے ہیں۔ یہ روایت صرف پاکستان میں ہی رہی ہے کہ گھر کا ایک فرد کماتا اور باقی بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ بیرونِ ملک جتنی بھی حکومتی مراعات ملتی ہیں‘ ان کے باوجود بچوں کو ٹین ایج سے ہی کام کرنے کی عادت ڈالی جاتی ہے۔ چاہے وہ گروسری شاپس ہوں‘ ڈِلیوری کا کام ہو یا کچھ اور‘ دنیا کے ہر کامیاب ترین شخص کو بہرحال ابتدا میں یہ سب کرنا ہی پڑتا ہے۔ فن لینڈ جیسے ملکوں میں بچوں کو تعلیم کے دوران ہی انڈسٹری میں کام کرنے کے مواقع دیے جاتے ہیں اور ڈگری کے حصول کے لیے تجربہ لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ اس سے بچوں میں ابتدائی عمر میں ہی اعتماد‘ معلومات اور تجربہ پروان چڑھتا ہے اور وہ مسائل کے حل کیلئے آگے چل کر بہتر انداز میں کام کرتے ہیں، بعد ازاں نوکری کے حصول میں بھی انہیں زیادہ مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے اور بچے ٹیکنالوجی کو بڑوںکی نسبت زیادہ بہتر اور جلدی سیکھ جاتے ہیں؛ چنانچہ وہ تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی کمانا شروع کر دیتے ہیں جس نہ صرف وہ اپنے تعلیمی اخراجات خود اٹھانے کے قابل ہو جاتے ہیں بلکہ گھریلو اخراجات میں بھی حصہ ڈال لیتے ہیں۔ آج سے پندرہ‘ بیس برس قبل تک نوجوان دورانِ تعلیم ہی ٹیوشنز پڑھا کر چھوٹے موٹے خرچے پورے کر لیتے تھے جبکہ آج کل ہزاروں‘ لاکھوں نوجوان انٹرنیٹ سے مختلف سکلز سیکھ کر آن لائن آمدنی کما رہے ہیں۔ چونکہ یہ کمائی ڈالرز میں ہوتی ہے‘ اس لیے یہ قدرے معقول ہوتی ہے؛ چنانچہ مہنگائی اور بے روزگاری کا مقابلہ کرنا ہے تو ہمیں اپنے بچوں اور نوجوانوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ وہ دور گئے جب بچے سولہ برس تک تعلیم مکمل کرتے تھے اور اس کے بعد کئی کئی برس نوکریاں ڈھونڈنے میں لگے رہتے تھے۔ اب تو آن لائن پلیٹ فارمز کی بدولت ٹین ایجر بچے بھی لاکھوں روپے کمانے لگے ہیں۔ اس دور میں اب گھر کے ایک بندے کی چند ہزار کی تنخواہ میں گزارہ ممکن نہیں۔ زندہ رہنا ہے تو سب کو کچھ نہ کچھ نیا سیکھنا اور کرنا ہو گا وگرنہ پانی سر سے گزر جائے گا۔