وزیراعظم عمران خان کی پونے دو گھنٹے کی تقریر میں وہ سب کچھ تھا جو وہ گزشتہ بیس‘ پچیس سال سے دہراتے آ رہے ہیں۔انہوں نے حسبِ روایت اسلامی تاریخ کو بیان کیا‘ مخالفین کو مختلف نام دیتے ہوئے آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کی کرپشن کی داستانیں بھی تازہ کیں۔ملکی معیشت کے زوال اور ملک کو اس حال تک پہنچانے والوں پربھی کڑی تنقید کی۔ اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت کے کارنامے گنوائے اور مستقبل میں مزید منصوبوں کو مکمل کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ ہمیشہ کی طرح سیاحت کو ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی اور گیم چینجر قرار دیا اور اس کے ذریعے ملک کی تقدیر بدلنے کا وعدہ کیا۔ ان سب کے ساتھ ساتھ اس سازش کے بارے میں بھی آگاہ کیا جو ان کے خیال میں ان کی حکومت کے خلاف کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک خط بھی لہرایا جس کے بارے میں ان کے وزیرداخلہ شیخ رشید کو کچھ علم ہی نہیں۔ خان صاحب نے وہ سب باتیں کیں جو لوگ آج سے پہلے ہزاروں مرتبہ ان سے سن چکے تھے لیکن ان ساری باتوں میں انہوں نے ایک بات نہیں دہرائی جسے وہ گزشتہ کئی جلسوں اور بیانات میں سے حذف کرتے جا رہے ہیں اور وہ بات ڈالر کی قیمت بڑھنے اور روپے کے گرنے سے معیشت اور عام آدمی کو پہنچنے والے نقصانات کی ہے۔ بالخصوص دھرنے میں خان صاحب روزانہ تواتر کے ساتھ ایک ماہر معیشت دان کی طرح قوم کو سمجھایا کرتے تھے کہ ڈالر کے بڑھنے کے کیا کیا نقصانات ہیں اور کس طرح حکومتیں قرض لے کر اور ڈالر پر کنٹرول نہ کر کے ملک کو تباہی کی دلدل میں دھکیل رہی ہیں۔جس وقت وہ پورے ملک کو سرپرائز کے چکر میں اپنی طویل ترین تقریر سنوا رہے تھے ‘اس وقت ڈالر کی قیمت ایک سو تراسی روپے پانچ پیسے ہو چکی تھی جو صرف تین چار دن قبل ایک سو اسی روپے تھی۔ ماضی کی ان کی تقریریں سن لیں‘ وہ کہا کرتے تھے کہ روپے کی قیمت ایک روپے گرتی ہے تو قوم پر ایک سو ارب کا قرضہ چڑھ جاتا ہے۔چند برس قبل‘ جب وہ اپوزیشن میں تھے اور ڈالر کی قیمت ایک سو اٹھائیس روپے تھی، اس وقت انہوں نے تقریر کرتے ہوئے قوم کو خبردار کیا تھا کہ میرے پاکستانیو! آج سے دس برس قبل ڈالر ساٹھ روپے کا تھا‘ اب ڈالر ایک سو اٹھائیس روپے کا ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے اکائونٹ میں اگر سو روپے پڑے تھے تو وہ کم ہو کر پینتالیس روپے رہ گئے ہیں۔کاش اسلام آباد کی پریڈ گرائونڈ کی پونے دو گھنٹے تک کی جانے والی تقریر میں وزیراعظم یہ بھی بتا دیتے کہ ان کے دور میں ڈالر کی قیمت بڑھنے سے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ کیا آج بھی ڈالر کے مقابلے میں روپیہ گرنے سے ایک سو یا ایک ہزار ارب کا قرض چڑھ رہا ہے یا پھر یہ منفی اثر صرف کسی اور کے دورِ حکومت میں ہی پڑتا ہے۔
وزیراعظم صاحب جس سادگی کے ساتھ ڈالر اور روپے کی جنگ اور اس سے پہنچنے والے معاشی نقصانات کے بارے میں قوم کو سینکڑوں مرتبہ سب کچھ بتا چکے ہیں‘ وہ آج بھی اگر خود ہی ڈالر کے بڑھنے کے نقصانات پر روشنی ڈال دیں تو ایک طرف اعادہ ہو جائے گا اور دوسری طرف قوم اس کنفیوژن اور خدشات سے باہر نکل آئے گی جو اس کے ذہن میں آئے روز ڈالر کے مسلسل بڑھنے اور روپے کی گراوٹ کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ ماہرین معیشت کے مطابق پیپلز پارٹی کے پانچ برسوں میں غیر ملکی قرضوں میں 16 ارب ڈالر جبکہ مسلم لیگ نواز کے پانچ برسوں میں 34 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ اس کے مقابلے میں تحریک انصاف حکومت کے پہلے 39 مہینوں میں ہی غیر ملکی قرضوں میں 32 ارب ڈالر کا اضافہ ہو گیا تھا۔اب مزید پانچ مہینے گزر چکے ہیں اور ان پانچ ماہ میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں دس‘ گیارہ روپے مزید گر چکا ہے، سو اندازہ لگا لیں کہ کتنے ہزار ارب کا قرض اس قوم پر مزید پڑ چکا ہو گا۔ اس حوالے سے وہ یا ان کے کوئی وزیر‘ مشیر اپنے کسی بیان یا پریس کانفرنس میں وضاحت کر دیں تو بہت سے اشکالات دور ہو جائیں گے۔
اپنی تقریر میں خان صاحب نے کنسٹرکشن انڈسٹری کو دیے گئے پیکیج کا ذکر کیا ‘ٹیکسٹائل سیکٹر کے گروتھ کی بات بھی کی لیکن ان کی جماعت کے منشور کا بنیادی نعرہ ''ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر‘‘ بنانے کا تھا‘ اس پر انہوں نے ایک بھی جملہ نہیں کہا۔انہوں نے اربوں درخت لگانے کا دعویٰ کیا لیکن بہتر ہوتا کہ اس کے ساتھ وہ یہ بھی بتا دیتے کہ اب تک کتنے لاکھ گھر بن چکے ہیں‘ تاکہ قوم کی معلومات میں اور حکومت کے وقار میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ حکومت کو تقریباً پونے چار سال ہونے والے ہیں۔ اس حساب سے اب تک تیس سے چالیس لاکھ گھر بن جانے چاہئیں تھے اور اسّی لاکھ افراد کو نوکریاں مل جانا چاہئیں تھی۔آج کل تو ٹیکنالوجی کا دور ہے‘ ہر چیز ٹریک اور ٹریس کی جا سکتی ہے۔ اگر اب تک اتنے نہیں تو اسے آدھے یا ایک چوتھائی گھر اور نوکریاں دی جا چکی ہیں تو ایسے ہی کسی جلسے میں ان کا ریکارڈ بھی قوم کے سامنے پیش کر دیا جائے تاکہ قوم کو یقین ہو جائے کہ جن لیڈروں اور جس جماعت کے لیے وہ دیوانہ وار جلسوں میں شرکت کرتے تھے‘ انہیں اپنا وقت دیتے تھے‘ وہ انہیں مایوس نہیں کر رہے اور اس طرح تحریک انصاف کو آئندہ انتخابات میں بھی عوام کی سپورٹ مل جائے گی کیونکہ موجودہ حکومت نے یہ وعدہ کیا تھا اور یہ تاثر دیا تھا کہ وہ ماضی کی حکومتوں کی طرح تحریک انصاف روایتی حکومت ثابت نہیں ہو گی اور یہ جو بھی وعدہ اور جو دعویٰ کرے گی اسے پورا کرے گی۔
کچھ اور چیزیں بھی ہیں جو اچھا تاثر نہیں دے رہیں مثلاً یہ کہ نواز شریف یا سید یوسف رضا گیلانی بطور وزیراعظم ایسے ہی جب ملک میں جگہ جگہ جلسے کرتے تھے تو ان کے بارے میں خان صاحب کہتے تھے کہ حکمرانوں کا کام جلسے کرنا نہیں ہوتا‘ وہ پرفارمنس دینے کے لیے حکومت میں آتے ہیں‘ یہ کام اپوزیشن کا ہوتا ہے اگر حکومت بھی جلسے کرنے لگ جائے گی تو پھر حکومت کے کام کون کرے گا‘ ملک کون چلائے گا۔ اب گزشتہ چند ہفتوں میں وزیراعظم درجنوں ملک گیرجلسے کر چکے ہیں۔ ان جلسوں میں وہ سرکاری ہیلی کاپٹر‘ سرکاری گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں اور الیکشن کمیشن کی جانب سے انہیں جلسے نہ کرنے کی تنبیہ بھی کی گئی ہے اور کے پی میں‘ جہاں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں‘ جلسے کرنے پر نوٹس بھی بھیجے گئے ہیں لیکن ایسے کسی نوٹس کو خاطر میں نہیں لایا جا رہا۔یہ کون سی سائنس اور کون سی سیاست ہے‘ سمجھ سے باہر ہے۔
یہ نئی سائنس اور نئی سیاست نئی نسل کو بہت زیادہ کنفیوز کر رہی ہے۔ تقریروں میں استعمال کی جانے والی زبان اور القابات نوجوان نسل اور بچوں کے‘ جو پہلے ہی مار دھاڑ پر مبنی وڈیو گیموں میں الجھے رہتے ہیں‘ مزید بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔وہ جب ٹی وی پر قوم کے چیف ایگزیکٹو کو یہ کہتا سنتے ہیں کہ میں تین چوہوں کو نہیں چھوڑوں گا‘ چور ڈاکو کی گردان سنتے ہیں اور جب امر بالعروف کے نام پر ہونے والے جلسوں میں مغرب کے وقت فجر کی اذان سنتے ہیں‘ وہ تو سب لوگ سر پکڑ لیتے ہیں جنہوں نے اس جماعت کو کبھی نہ کبھی‘ کسی نہ کسی طرح سپورٹ فراہم کی تھی۔
سیدھی سی بات ہے کہ عوام نے تحریک انصاف کو اس لیے منتخب کیا اور عمران خان کو اس لیے وزیراعظم بنایا کہ وہ دیگر جماعتوں کے لیڈروں سے مختلف تھے‘ وہ بظاہر صاف اور کھری بات کرتے تھے لیکن اب اگر انہوں نے بھی اسی ڈگر پر چلنا شروع کر دیا ہے‘ اگر وہ بھی دیگر کی طرح روایتی سیاست ہی کرنے لگے ہیں تو پھر وہ اپنے ووٹر ز کو کیسے آئندہ انتخابات میں ووٹ دینے پر آمادہ کر سکیں گے‘ وہ کیسے انہیں قائل کر پائیں گے؟