سیاست ایک بے رحمانہ کھیل ہے۔ سیاسی جماعتوں اور حکومت کی نورا کشتی سے فرق صرف ملکی معیشت اور عوام کو پڑے گا‘ سیاستدان ہر طرح سے فائدے میں رہیں گے۔ اس طرح کے بحران تو ان کیلئے مال بنانے کے نئے مواقع لے کر آتے ہیں جبکہ ملک اور معیشت کا دیوالہ نکل جاتا ہے۔ خدا کی پناہ‘ چار مارچ سے اب تک ڈالر کی قیمت میں دس روپے سے زائد اضافہ ہو چکا ہے لیکن مجال ہے کسی کو اس کی کوئی فکر ہو۔ خان صاحب کے ساڑھے تین سالہ دور میں ڈالر کی قیمت روپے کے مقابلے میں بیالیس فیصد بڑھ چکی ہے اور اس وجہ سے ہر چیز کی قیمت کو آگ لگ گئی ہے‘ چاہے وہ اشیائے خورونوش ہوں‘ بلڈنگ میٹریل ہو‘ سٹیشنری ہو حتیٰ کہ مقامی طور پر پیدا اور تیار ہونے والی اشیا کی قیمتیں بھی گھنٹوں کے حساب سے بڑھ رہی ہیں۔ اسحاق ڈار جب وزیرخزانہ تھے تو ڈالر غالباً سو سے بڑھ کر ایک سو بیس پر پہنچ گیا جس پر اپوزیشن نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اسحاق ڈار نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ چند دنوں میں ڈالر کو واپس اسی قیمت پر لے آئیں گے جس پر انہیں پی ٹی آئی کے ایک اہم اتحادی نے غالباً یہ کہا تھا کہ اگر ایسا ہو گیا تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ تاہم اسحاق ڈار نے ڈالر کی عارضی خریدو فروخت کرنے والوں کو تنبیہ کی اور چند ہی دنوں میں ڈالر واپس ایک سو پر آ گیا‘ لیکن اس سیاستدان نے سیاست نہ چھوڑی۔ موجودہ دور میں ڈالر ساٹھ ستر روپے بڑھ چکا ہے لیکن کسی نے اسے واپس لانے کی‘ اس کی رفتار سست کرنے کی کوشش کی نہ کوئی ایسا چیلنج قبول کیا۔ شاید کسی میں اتنی اہلیت ہی نہ تھی۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ میں تو کوئی چیک اینڈ بیلنس نام کی چیز ہی نظر نہیں آ رہی۔ سیاستدان تو دوبارہ انتخابات کے ذریعے حکومت میں آ جائیں گے یا اپوزیشن میں چلے جائیں گے اور ان کے پھر وارے نیارے ہو جائیں گے لیکن ملکی معیشت کے ساتھ جو کھلواڑ اور نقصان ہو چکا ہو گا وہ شاید کبھی بھی پورا نہ کیا جا سکے۔ الزامات کی سیاست نے ملک کے معاشی اور اخلاقی ڈھانچے کو نیست و نابود کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اکثریت شتر بے مہار ہو چکی اور کسی بات کا جواب دلیل سے دینے کے بجائے گالیوں اور الزامات کے ذریعے دفاع کیا جاتا ہے۔اگر انہیں کہا جائے کہ حکومت کے فلاں وزیر کا بیان اخلاق سے گرا ہوا ہے یا فلاں نے کرپشن کی ہے اور ثبوت بھی ہیں تو جواب یہ آتا ہے کہ ماضی کے حکمران کون سے دودھ کے دھلے تھے۔حالت یہ ہے کہ اس وقت برائلر مرغی کی فی کلوقیمت چار سو روپے سے تجاوز کر چکی ہے ۔ ماضی میں بیس تیس روپے فی کلو بھی اضافہ ہوتا تھا تو تحریک انصاف کا بریگیڈ فوراً یہ کہہ کر ایک سیاسی جماعت کے رہنما کو اس اضافے کا ذمہ دار قرار دے دیتا تھا کہ وہ اس کاروبار میں ہیں اور وہی منافع کما رہے ہیں۔ اب جو مرغی چار پانچ سو روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے تو کون اس کاروبار میں ہے اور کون قیمتیں بڑھا رہا ہے؟ اس کا جواب اگر آپ پوچھیں گے تو جواب میں سوائے بوگس جملوں اور الزامات کے کچھ نہیں آئے گا۔ حکومت بھی ہر چیز کی قیمت کو عالمی مہنگائی سے جوڑتی آ رہی ہے جو اس لیے درست نہیں کہ مارکیٹ میں سینکڑوں ایسی اشیا ہیں جو سو فیصد ملک میں تیار ہوتی ہیں مگر ان کی قیمتیں بھی اسی طرح بڑھائی جا رہی ہیں جیسے وہ براہ راست فرانس اور سوئٹزر لینڈ سے منگوائی جاتی ہوں۔
تحریک انصاف کو کبھی بھی حکومت نہ ملتی اگر (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی ملک کو نیک نیتی کے ساتھ چلاتیں۔ دونوں کو کئی مرتبہ باریاں ملیں اور ہر مرتبہ سیاسی رسہ کشی اور اقتدار کی ہوس ہی دیکھنے میں آئی ۔ عوام ان دونوں کی پے در پے حکومتوں سے اکتا چکے تھے۔ خاص طور پر نوجوان یہ سمجھتے تھے کہ اس وقت اگر کوئی سیاستدان تبدیلی لا سکتا ہے تو وہ عمران خان ہی ہیں کیونکہ ابتدا سے ہی ان کی جماعت کا فوکس نوجوان تھے جو ملک کا ساٹھ پینسٹھ فیصد ہیں۔ملک میں ایسی فضا بنائی گئی اور یہ مقدمہ شدت اختیار کرنے لگا کہ اگر نوجوان تحریک انصاف کے ساتھ مل جائیں اور ان کے ساتھ بوڑھے‘ عورتیں اور بچے بھی شریک ہو جائیں اور یہ جماعت ایک واضح اور قابل عمل لائحہ عمل پیش کرے اور یہ لائحہ عمل واقعی کرشمے دکھانا شروع کر دے تو ملک کی تقدیربدل جائے گی۔دو ہزار گیارہ میں مینار پاکستان پر عمران خان کا شاندار جلسہ ان کی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اس جلسے نے تحریک انصاف میں نئی روح پھونک دی تھی۔ اس دن واقعی لگا کہ اگر ملک میں کوئی سیاسی جماعت سٹیٹس کو توڑ سکتی ہے تو وہ تحریک انصاف ہے۔ یہ کہا جانے لگا کہ اگر ملک کے عوام پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے خوف سے نکل آئیں اور یہ ایک مرتبہ عمران خان پر اعتبار کر کے دیکھ لیں تو ممکن ہے ان کا خوف بھی دور ہو جائے اور ملک بھی ٹریک پر آ جائے‘ لیکن اس کہانی کا دوسرا پہلو انتہائی خوفناک تھا اور وہ یہ کہ اگر عمران بھی ناکام ہو گئے ‘ یہ اپنے منشور پر عمل نہ کر سکے‘ اپنا ایجنڈا نافذ نہ کرسکے‘ ماضی کی غلطیاں دہراتے رہے‘ اگر انہوں نے ون مین پارٹی کا امیج نہ بدلا‘ اگر ان کی پارٹی میں کالی بھیڑیں گھس گئیں‘ اگر انہوں نے بھی مجرموں‘ بے ایمانوںکو ٹکٹ دینا شروع کر دیے‘ اگر یہ اقتدار میں آ کر عوام کو بھول گئے اور اگر یہ مخلص نظریاتی ساتھیوں اور کارکنوں کے بجائے سازشی مشیروں کے ٹریپ میں آ گئے اور اگر یہ مشیر تحریک انصاف کا اتحاد روایتی سیاسی جماعتوں سے کرانے میں کامیاب ہو گئے‘ اگر ان لوگوں نے خان صاحب کا رُخ مشرق سے مغرب کی طرف موڑ دیاا ور اگر یہ انہیں ناکام بنانے میں کامیاب ہو گئے تو عمران خان کی ساکھ مٹی میں ملنے میں ذرا دیر نہیں لگے گی۔ دیکھا جائے تو آج صورت اسی طرف جا رہی ہے۔اب بہت سے لوگ جو عمران خان کو دل سے چاہتے تھے وہ نواز شریف اور آصف زرداری کی طرح انہیں بھی سیریس لینے کو تیار نہیں ۔نوجوان انہیں ٹوٹ کر چاہتے تھے لیکن انہوں نے نوجوانوں کا دل توڑ دیا۔ جو نوجوان پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں وہ اس لیے ان کے ساتھ نہیں کہ عمران خان نے ملک کو واقعی تبدیل کر دیا بلکہ زیادہ تر لوگ صرف اس لیے ان کا ساتھ دے رہے ہیں کہ انہیں ( ن) لیگ اور پیپلزپارٹی پسند نہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ یہ دونوں جماعتیں دوبارہ اقتدار میں آجائیں۔ وہ ان کے چہرے دیکھ دیکھ کر تھک چکے ہیں اور صرف اسی لیے تحریک انصاف کو سپورٹ کر رہے ہیں لیکن اس بات میں کوئی لاجک نظر نہیں آتی۔ تحریک انصاف کو نوجوانوں‘ میڈیا اور سول سوسائٹی کی بڑی تعداد نے سپورٹ کیا تھا لیکن انہوں نے اس سپورٹ کا جواب جس طرح حکومت کر کے دیا اور جس طرح کی روایتی اننگز کھیلی‘ اس پر آنکھیں بند کر کے انہیں مسلسل تھپکی دیے جانا بھی مناسب نہیں۔ جو حکومت جو کام بہتر کرتی ہے اس کی تعریف کی جانی چاہیے اور جہاں کوئی غلطی نظر آئے اس کی نشاندہی ہونی چاہیے۔ مگر تحریک انصاف میں برداشت اور خوداحتسابی نام کی چیز دکھائی نہیں دیتی۔ اگر اتحادیوں نے خان صاحب کی حکومت کو بلیک میل کیا تو پھر خان صاحب کو ان کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنانی چاہیے تھی اور اپوزیشن میں بیٹھ جانا چاہیے تھا۔ستم بالائے ستم یہ کہ بائیس سال میں وہ ایک ٹیم بھی نہ بنا سکے‘ میچ جیتنا تو دُور کی بات تھی۔