شہباز شریف ایک مرتبہ پھر ایکشن میں ہیں۔وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے ایک مرتبہ پھر سپیڈ پکڑ لی ہے اور جس طرح بطورِ وزیراعلیٰ پنجاب بڑے فعال نظر آتے تھے‘ اب وزیراعظم بن کر بھی وہی اندازِ حکمرانی اپناتے دکھائی دے رہے ہیں۔ صبح آٹھ بجے سے پہلے وہ دفتر پہنچ جاتے ہیں اور ظاہر ہے اس وجہ سے سرکاری عملے کو بھی بروقت پہنچنا پڑتا ہے۔ پھر وہ اسی طرز کی میٹنگز کر رہے ہیں اور چھوٹی چھوٹی خامیوںکو ساتھ ہی ساتھ دُور کرنے کے احکامات بھی جاری کر رہے ہیں۔ایک وقت انہوں نے اسے پنجاب سپیڈ کا نام دیا تھا اور اب وزیراعظم بننے کے بعد وہ اسے پاکستان سپیڈکہہ رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وقت کم ہے‘ پہلے ہی بہت وقت ضائع ہو چکا ہے اس لیے انتقام کی سیاست کے بجائے مثبت انداز میں آگے بڑھنا ہو گا۔
دوسری جانب تحریک انصاف اور اس کے رہنما عمران خان صاحب بھی اُسی پرانی ڈگر پر چل رہے ہیں جس سے انہوں نے سیاست کا آغاز کیا تھا؛ یعنی جلسے‘ دھرنے اور لانگ مارچ۔ چوتھی چیز ان کے پاس شاید ہے ہی نہیں جو وہ عوام کو دے سکیں۔ سوشل میڈیا پر اتنے لوگوں نے جلسہ دیکھا‘ ٹویٹر پر اتنوں نے تقریر سنی‘ فیس بک پر فلاں ریکارڈ بن گیا‘ یہ سب باتیں ان لوگوں کے لیے تو پُرکشش ہو سکتی ہیں جن کے پیٹ میں دو وقت کی روٹی بہ آسانی اتر رہی ہے اور جنہیں سوشل میڈیا پر ضائع کرنے کے لیے بہت سارا وقت مل جاتا ہے؛ تاہم وہ غریب آدمی‘ دیہاڑی دار مزدور‘ جس نے روز کما کر کھانا ہے اور جس کے پاس نہ ضائع کرنے کے لیے وقت ہے نہ وسائل اور نہ ہی وہ ٹھنڈے اے سی والے کمرے میں بیٹھ کر دوسری سیاسی جماعتوں کی میمز بنا کر ان پر مذاق اور ان کا ٹھٹھا اڑا سکتا ہے‘ ایسے لوگوں کو عملی اقدامات سے ہی فرق پڑتا ہے۔ وہ نعروں کے فریب میں آ ہی نہیں سکتے کیونکہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کا چولہا بجھ جائے گا اور فاقوں کا اژدہا انہیں پل بھر میں دبوچ لے جائے گا۔
مجھے یاد ہے کہ جب دس‘ گیارہ سال قبل لاہور میں میٹرو بس بننا شروع ہوئی تھی تو بہت سے سینئر صحافیوں نے اس پر تنقید کی تھی کہ یہ منصوبہ فلاپ ہو جائے گا۔ ان کی تحریریں اور وڈیوز آج بھی ریکارڈ پر ہیںجن میں وہ کہہ رہے ہیں کہ عوام کو اس قسم کے منصوبوں کی کوئی ضرورت نہیں‘ ان سے قومیں ترقی نہیں کرتیں‘ سڑکوں سے تقدیر نہیں بدلا کرتی‘ موٹرویز امیروں کے لیے ہوتی ہیں‘ لیپ ٹاپ سکیموں کا بھی کوئی فائدہ نہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ جغادری فرماتے تھے کہ غربت کے مارے لوگ میٹروبس سٹیشنز کے جنگلے اکھاڑ کر لے جائیں گے اور ان کا لوہا سکریپ میں کوڑیوں کے بھائو بیچ دیں گے۔پھر اس کی لاگت پر بھی بڑے بڑے مفروضے گھڑے گئے۔ گھاگ رپورٹرز اپنی سٹوریز لے کر آئے کہ یہ منصوبہ اتنے ارب میں مکمل ہونا تھا لیکن اس کی لاگت میں اتنا اضافہ ہو گیا‘ اتنے پیسے کھا لیے گئے۔ یہ منصوبہ امیر ملکوں میں اچھا لگتا ہے‘ پاکستان میں اس نے نہیں چلنا۔ یہاں پر عام بسوں اور ٹرانسپورٹ کو بہتر کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس منصوبے پر تنقید بھی کی جاتی تھی اور ساتھ ہی ان منصوبوں کو خزانے پر بوجھ بھی قرار دیا جاتا تھا؛ تاہم آج میٹرو بس منصوبے کو دس برس گزر چکے ہیں اور یہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ جنہوں نے لاہور میٹرو بس منصوبے کو غیرضروری قرار دیا تھا‘ خود خیبرپختونخوا میں ایسا ہی منصوبہ شروع کر دیا اور پھر اس منصوبے کا جو حال ہوا‘ وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ دوسروں پر تنقید کر کے عوام کا دل جیتنے کی کوشش کرنا اتنہائی بھونڈی حرکت ہے اور اس وقت تو حیا آ ہی جانی چاہیے جب آپ خود بھی وہی کام کرنے لگیں جس پر کبھی آپ تنقید کرتے تھے۔
شہبا ز شریف صاحب کے ساتھ جو بیوروکریسی کام کرتی ہے‘ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ وہ معیار پر سمجھوتا کرتے ہیں نہ ہی کام میں تاخیر یا کوتاہی برداشت کرتے ہیں۔ پنجاب کو چلانے کیلئے ان کے مقابلے میں خان صاحب نے بزدار صاحب کو زمامِ کار سونپی‘ جو پنجاب اور اس کے عوام سے بدلہ لینے والی بات تھی۔ممکن ہے یہ بھی ''امریکی سازش‘‘ ہو اور کسی دن خان صاحب اسے بے نقاب کریں کہ بزدار سرکار کو امریکا نے سازش کے تحت پنجاب میں لگوایا تھا۔ خان صاحب کی دیگر غلطیوں پر شاید لوگ صرفِ نظر کردیتے لیکن ان کے حق میں لکھنے اور بولنے والے بھی اس فیصلے پر ششدر رہ گئے تھے۔اب شہباز شریف وزیراعظم بن کر ایک مرتبہ پھر متحرک ہو چکے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہوں نے بلوچستان کا دورہ کیا تو وہاں بھی ایسے منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا جو پنجاب میں انہوں نے کامیابی سے چلائے تھے‘ مثلاً انہوں نے بلوچستان میں ٹیکنیکل یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کے ہاتھ بندوق کے بجائے لیپ ٹاپ تھمائیں گے۔سب جانتے ہیں کہ بلوچستان پسماندہ ترین صوبہ ہے۔ وہاں پر لوگوں کو روایتی طویل تعلیم کے بجائے چھوٹے چھوٹے ہنر سکھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ فوری طور پر اپنا روزگار کما سکیں۔پنجاب میں سکلز ڈویلپمنٹ کے حوالے سے 'ٹیوٹا‘ بہترین کام سرانجام دے رہا ہے۔ یہ نوجوانوں کو شارٹ کورسز کے ذریعے ہنرمند بناتا ہے اور انہیں انڈسٹری کے ساتھ جوڑنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب میں ایک کام شہبا ز شریف صاحب نے نوجوانوں کو لیپ ٹاپ دینے کا کیا تھا جو بلوچستان میں بھی شروع کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں پہلے ہی غربت آسمانوں کو چھو رہی ہے‘ وہاں کے بیشتر غریب طالبعلم لیپ ٹاپ خریدنے کا خواب میں بھی نہیں سوچ سکتے۔ اب مگر یہ خواب حقیقت بن جائے گا۔ اس کے علاوہ بھی وزیراعظم نے بہت سے منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے‘ جو وہاں کی دیرینہ ضرورت رہے ہیں مثلاً وزیراعظم نے خضدار کچلاک قومی شاہراہ کے سیکشن ون اور ٹو کا سنگِ بنیاد رکھا ہے، صوبے کیلئے ایک جامع پیکیج کا اعلان بھی کیا گیا ہے، کوسٹل ہائی وے کے اطراف سیاحت کے فروغ اور افرادی قوت کی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے لیے اداروں کے قیام کی تجاویز بھی دی گئیں‘ اسی طرح یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ آف دی گرڈ منصوبوں سے بلوچستان میں بجلی کی قلت کا مسئلہ حل کیا جائے گا، جاری ترقیاتی منصوبوں کی مانیٹرنگ یقینی بنائی جائے۔اسی طرح بلوچستان کے طلبہ و طالبات کیلئے وظائف کا سلسلہ بھی دوبارہ شروع کیا جائے گا۔ بلوچستان کے لاپتا افراد کا بھی معاملہ حل طلب ہے جسے جلد حل کرنا ضروری ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان خود دار بلوچوں کا صوبہ ہے۔ یہ جغرافیائی لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے؛ تاہم بلوچستان میں بنیادی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے یہ ترقی کے سفر میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ دوسری جانب یہاں سے نکلنے والی قدرتی گیس سے پورا پاکستان مستفید ہوتا ہے اس لیے بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی بہت ضروری اور اس کا پہلا حق ہے۔وزیراعظم صاحب نے درست کہا کہ ہمیں ماضی سے سبق حاصل کر کے آئندہ اتحاد اور اتفاق سے آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ آپس میں دست و گریبان رہنے سے ملک کو کوئی فائدہ ہوا‘ نہ ہو گا۔ بلوچستان سمیت ملک کے مسائل حل کرنا ہر سیاسی جماعت بشمول اپوزیشن کا فرض ہے کیونکہ اگر یہ ملک ہے تو پھر سیاست بھی چلتی رہے گی لیکن اگر ہم یونہی چند سالہ اقتدار کے لالچ کیلئے باہم دست و گریبان رہے تو اس کا فائدہ صرف دشمنوں کو ہو گا۔