شاید یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ نعمتیں اور کامیابیاں ملنے کے بعد ان کی قدر اس طرح سے نہیں کرتا‘ جتنی ان نعمتوں اور کامیابیوں کے حصول سے قبل بے چینی کا اظہار کرتا ہے۔ پھر وہ چاہے اپنا گھر ہو‘ نئی گاڑی ہو‘ آزادی ہو یا کچھ اور۔ انسان کو ان چیزوں کے ملنے کے بعد ان کی قدر وقیمت کا ویسے احساس نہیں ہوتا‘ جتنا ان کے حصول سے قبل ہوتا ہے۔ زیادہ نہیں تو صرف آٹھ نو برس پیچھے چلے جائیں‘ جب ملک نائن الیون واقعے کے بعد سے مسلسل دہشت گردی کا شکار تھا۔ کوئی دن ایسا نہیں تھا کہ جب کہیں سے دھماکوں اور دہشت گردی کی خبر نہ آتی ہو۔یہ ہماری جنگ تھی یا نہیں‘ یہ ایک الگ بحث ہے مگر اس طرح ہم نے بموں کا رُخ اپنی جانب کر لیا اور پھر ہم دہشت گردی کا اس طرح شکار ہوئے کہ دہائیوں تک اس دلدل میں پھنسے رہے۔ ضربِ عضب اور دیگر آپریشنز ہوئے اور ملک میں امن قائم ہو گیا۔ اسی طرح کراچی بھی کئی عشروں تک دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا۔ بوری بند لاشیں‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری جیسے الفاظ جب کہیں گونجتے ہیں تو لامحالہ کراچی کا نام اور عکس نظروں کے سامنے آ جاتا ہے۔ پھر وہ دن بھی آئے کہ جب کراچی کے عوام کو بھی اس مسلسل قتل و غارت گری اور دہشت گردی سے نجات اور آزادی ملی۔ آج ملک دہشت گردی سے پاک ہو چکا ہے‘ کراچی بھی پُرامن ہو چکا ہے جس پر خدا کا جتنا شکر ادا کیا جائے‘ کم ہے۔
اسی طرح جب بات ملک کے ایٹمی قوت بننے کی ہوتی ہے‘ ایٹمی دھماکوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے یا پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے کی بات کی جاتی ہے تب بھی ہمارا جذبہ دیدنی اور قابلِ فخر ہونا چاہیے۔ مئی 1998ء میں جب ایٹمی دھماکے کیے گئے تھے تو یہ صرف بھارت کے دھماکوں کا جواب نہیں تھا بلکہ پاکستان کی بقا اور سالمیت کا معاملہ تھا اور یہ قدم اگر اس وقت کی حکومت کی جانب سے بروقت نہ اٹھایا جاتا تو حالات کسی اور جانب بھی پلٹا کھا سکتے تھے۔ یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب بھارت نے 74ء میں پہلا ایٹمی تجربہ کیا تھا۔ اس وقت پاکستان کو آزاد ہوئے ابھی صرف ستائیس برس ہی گزرے تھے اور اس دوران اس کی بھارت کے ساتھ دو بڑی جنگیں بھی ہو چکی تھیں۔پاکستان کی معیشت اپنے قدموں پر کھڑی ہو رہی تھی لیکن اس وقت بھی سب سے اہم فیصلہ ملکی بقا اور سلامتی کا تھا۔ اس راستے میں مشکلات اور قربانیاں بھی تھیں لیکن یہ راستہ بالآخر ہمیں اس مقام پر پہنچا سکتا تھا جہاں ہم بھارت کے تسلط سے مکمل اور حقیقی طورپر آزاد ہو سکتے تھے۔ ہم نے یہ کٹھن راستہ اختیار کیا اور وقت نے ثابت کیا کہ یہ فیصلہ بالکل درست تھا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم اور دیگر سائنسدانوں اور ان کی ٹیم کی خدمات کے نتیجے میں پاکستان ایٹمی طاقت بنا اور وطن کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا دیا گیا۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 10دسمبر 1984ء کوجنرل ضیاء الحق کو تحریری طورپر اطلاع دے دی کہ اللہ نے چاہا تو ہم ایک ہفتے کے نوٹس پر ایٹمی دھماکے کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ بھارت نے 1974ء میں پوکھران میں پہلے ایٹمی دھماکے مئی کی اٹھارہ تاریخ کو کیے جبکہ چوبیس برس بعد‘ 1998ء میں بھی مئی کے مہینے ہی کا انتخاب کیا گیا۔پوکھران میں ہی گیارہ اور تیرہ مئی کو بھارت نے ایٹمی تجربات کیے اور اس کی کامیابی کے دعوے بھی خود ہی کیے مگر بھارت کے ان دعووں کو عالمی پریس اور خبر رساں ایجنسیوں نے پوری طرح سے قبول نہ کیا بلکہ ان پر کئی طرح کے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ مغربی میڈیا نے تو کھل کر لکھا کہ بھارت ان تجربات میں بری طرح ناکام رہا ہے۔البتہ ان تجربات کے بعد بھارت کی سیاسی قیادت کے لب و لہجے میں واضح تبدیلی آ گئی اور پاکستان کو دھمکیاں دی جانے لگیں۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں یہ ضروری تھا کہ پاکستان بھی اپنے کرشمے دکھاتا اور اگر یہ ایسا نہ کیا جاتا یا خدانخواستہ اس کا ایٹمی تجربہ ناکام ہو جاتا یا یہ مخصوص پیمانوں پر پورا نہ اترتا تو بھارت ہم پر حاوی ہو چکا ہوتا۔ یہ اقدام خطے میں طاقت کے توازن کے لیے ضروری ہو گیا تھا۔ پاکستان جوہری قوت تو 24برس قبل ہی بن چکا تھا مگر دنیا کو بتانے کے لیے مناسب وقت کا انتظار تھا۔ بھارت کی طرح پاکستان کو غرور تھا نہ تکبر اور نہ ہی اس نے یہ صلاحیت کسی جارحانہ اقدام یا دنیا میں تباہی پھیلانے کے لیے حاصل کی تھی۔ ایسا کرنا ہوتا تو چوبیس برس تک پاکستان یونہی خاموش نہ رہتا بلکہ اپنی اس طاقت کو کسی نہ کسی شکل میں کیش کراتا۔ بھارت نے 11مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کر کے نہ صرف خطے میں عدم توازن پیدا کر دیا بلکہ اربوں لوگوں کے استحکام اور زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہو گئے۔ پاکستان کے پاس اب اس کا اسی زبان میں جواب دینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ میاں نواز شریف اس وقت دوسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر براجمان تھے۔ ملک میں اقتصادی خودمختاری پر زور دیا جا رہا تھا لیکن درمیان میں یہ آزمائش آ گئی۔ یہ عجیب موقع تھا کہ بیک وقت پاکستان کو دھمکیاں اور لالچ‘ دونوں دیے جا رہے تھے اور وزیراعظم صاحب کو دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ یہ کڑے امتحان کا وقت تھا۔ ایک طرف ملک کی بقا، قومی غیرت اور ملکی وقار تھاتو دوسری جانب عالمی قوتوں کا دبائو اور پابندیوں کا خوف۔فیصلہ یہی ہو ا کہ دشمن ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے پر تلا ہوا ہے‘ دھماکا نہ کیا تب بھی سسک سسک کر جینا پڑے گا تو کیوں نہ ہم ایٹمی طاقت بن کر باوقار طور پر مقابلہ کریں۔ اگر خدا نخواستہ جنگ چھڑی تو دشمن بھی باقی نہ رہے گا۔اس وقت الیکٹرانک میڈیا تو نہ تھا ؛چنانچہ سرکاری ٹی وی کی ایک ٹیم کو دھماکے کے مقام پر لے جایا گیا تاکہ وہ ان تاریخی مناظر کو کیمرے کی آنکھ سے ریکارڈ کر سکیں۔ یہ بلوچستان کا علاقہ چاغی تھا جہاں درجہ حرارت 55 درجے سینٹی گریڈ تک تھا۔ موقع پر موجود تمام افراد نے اپنے پروردگار کے حضور کامیابی کی دعاکی اورٹھیک تین بج کر16 منٹ پربٹن دبا کر ایٹمی دھماکا کیا گیا۔ صرف بارہ سیکنڈ بعد چاغی کے پہاڑوں کا رنگ تبدیل ہوگیا کیونکہ وہاں درجہ حرارت دس لاکھ سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا تھا۔ پاکستان ایٹمی قوت بننے کا اعلان کر چکا تھا، الحمدللہ! اس کے بعد دنیا بھر میں عجیب رویے اور مناظر دیکھنے کو ملے۔ پورے عالم اسلام میں جشن کا سماں تھا۔یہ عالم اسلام کی فتح اور کامرانی کا دن تھا۔ شکرانے کے نوافل ادا کیے گئے اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے یوں خوشیاں منائیں جیسے وہ سب محفوظ ہو چکے ہوں۔
آج اگر ہم رات کو سکون سے سوتے ہیں اور صبح اطمینان سے اٹھ کر اپنے اپنے کاموں پر چلے جاتے ہیں تو اس کے پیچھے اٹھائیس مئی کا وہ تاریخ ساز دن‘ یوم تکبیر ہے جب پاکستان ایٹمی قوت بنا تھااور جب بیرونی طاقتوں کے دبائو اور دھمکیوں کے باوجود قومی قیادت نے دفاعِ وطن کو ناقابل تسخیر بنایا تھا۔ اگر ہم ایٹمی طاقت نہ ہوتے تو شاید آج اپنی مرضی سے سانس بھی نہ لے رہے ہوتے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے انیس مئی سے ملکی سطح پر اس حوالے سے دس روزہ تقریبات کا آغاز کیا ہے۔ ان تقریبات میں قوم کو بھرپور انداز میں شریک ہونا چاہیے کیونکہ زندہ قومیں ہمیشہ ایسے کارناموں پر فخر کرتی ہیں جن کی وجہ سے انہیں آزادی کی فضا میسر آتی ہے‘ جن کی بنا پر وہ غلامی کے طوق سے نجات حاصل کر لیتی ہیں اور جن کے باعث دنیا میں ان کا اپنا نام اور اپنا مقام بنتا ہے۔ یومِ تکبیر صرف ایک دن اور ایک واقعے کا نام نہیں بلکہ یہ پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی خودمختاری کے لئے اٹھایا گیا قدم تھا کہ جس نے نہ صرف خطے میں طاقت کا توازن بحال کیا بلکہ پاکستان کو پہلی مسلم ایٹمی قوت بھی بنا دیا۔ ان دس روز کے دوران ہمیں چاہیے کہ ہم سوشل میڈیا پر بھی جتنی ممکن ہو‘ یوم تکبیر کی تشہیرکریں تاکہ دنیا کو یہ پیغام کو پہنچے کہ ایٹمی قوت کے حامل ملک کی زندہ دل قوم اپنی سرزمین کی حفاظت کیلئے کیے گئے ہر اقدام پر فخر‘ محبت اور قدر کا اظہار کرتی ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ اگر ہم ایٹمی طاقت نہ بنتے تو شاید ہماری داستاں تک نہ ہوتی داستانوں میں!