پی ٹی آئی کے اس لانگ مارچ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ تو کچھ دنوں میں معلوم ہو جائے گالیکن ایک بات ثابت ہو چکی کہ سیاستدان چاہے کوئی بھی ہو‘ ایک مرتبہ اسے اقتدار کا نشہ لگ جائے تو آسانی سے نہیں اترتا۔ پھر وہ اسے حاصل کرنے کیلئے ہر طرح کے حیلے بہانے کرتا ہے۔اگر اقتدار ہاتھ سے چلا جائے تو معصوم اور مظلوم بننے کے جھوٹے سچے جواز تلاش کرتا ہے اور اگر اپنی حکومت کے دوران قابل ذکر کارکردگی نہ دکھا سکے اور اپنے کئے گئے وعدوں کا دس فیصد بھی پورا نہ کر سکے تو ملبہ ماضی کی حکومت پر ڈال دیتا ہے یا قدرتی آفات‘ عالمی جنگوں اور عالمی بحران کو معیشت میں گراوٹ کی وجہ قرار دے کر خود بچ نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔ عمران خان صاحب بھی یہی کر رہے ہیں۔ وہ اقتدار میں آئے لیکن بعض معاملات میں روایتی سیاستدانوں کی طرح حکومت چلائی اور بعض میں ان سے بھی آگے بڑھ گئے اور ایسے ایسے ریکارڈ قائم کئے کہ خدا کی پناہ۔جس طرح کا انہوں نے عوام کے سامنے اپنا سپر مین جیسا امیج بنایا تھا‘ جیسی تقریریں کی تھیں‘ نوے دن میں تمام ادارے ٹھیک کرنے اور انقلاب لانے کی باتیں کی تھیںوہ سب دعوے ان کے مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کے بعد ماضی کا قصہ بن گئے۔ جب وہ 2018 ء سے قبل اپوزیشن میں تھے اور میڈیا عوام کے وہ انٹرویو دکھاتا تھا جن میں وہ مہنگائی اور ناانصافی کی دہائیاں دیتے تھے تو خان صاحب اسی میڈیا کے کردار کی تعریف کرتے تھے کہ وہ عوام کی آواز ایوانوں تک پہنچا رہا ہے‘ لیکن جب وہ اقتدار میں آئے اور میڈیا نے اپنا کام جاری رکھا تو انہیں لگا یہ میڈیا ان کی جان بوجھ کر مخالفت کر رہا ہے۔ تنگ آ کر انہوں نے یہاں تک کہہ دیا میں آلو پیاز کی قیمتیں پتہ کرنے نہیں آیا۔ ان کے اقتدار کے ابتدا ئی ایام میں جب ڈالر کی قیمتیںاچانک بڑھیں تو انہوں نے ایک جگہ تقریر فرماتے ہوئے کہا کہ مجھے ٹی وی پر دیکھ کر پتہ چلا ڈالر بڑھا گیا ہے اور میری اہلیہ نے مجھے کہا ہے آپ اب وزیر اعظم ہیں۔ ان کی سنجیدگی کا یہ عالم دیکھ کر ان کے باقی ماندہ دور کا اندازہ خوب لگایا جا سکتا تھا لیکن پھر یہی کہا گیا کہ ابھی نئے ہیں‘ پہلی مرتبہ حکومت میں آئے ہیں‘ عوام نے انہیں ووٹ دیا ہے آہستہ آہستہ سنبھل جائیں گے‘ لیکن جناب نے جب بزدار صاحب کو پنجاب کی سرکار سونپ دی تو یار دوست حیرانی اور پریشانی سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے کہ یہ ہے وہ تبدیلی تھی جس کیلئے قوم نے ان سے امیدیں لگائی تھیں ؟ ان کی تقریریں سن سن کر لوگوں کے کان پک گئے تھے۔ ہر تقریر بانوے کے کرکٹ ورلڈ کپ کی تشہیر سے شروع ہوتی تھی۔آسٹریلیا شاید تین مرتبہ کرکٹ کا عالمی مقابلہ جیت چکا لیکن موصوف فرماتے تھے کہ کرکٹ کو ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ یورپ کی بات ہوتی تو کہتے کہ مغرب کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ موصوف نے طویل عرصہ ملک سے باہر گزارا لیکن ملک میں دہشت گردی کی جنگ کی بات ہوتی تو کہتے قبائلی علاقوں کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ اب ساڑھے تین برس گزارے ہیں تو فرماتے ہیں حکومت کیسے چلاتے ہیں مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ واقعی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بارہویں بڑے ملک جتنے صوبے کو ایک گمنام شخص کے حوالے کرکے حکومت چلانا صرف وہی جانتے ہیں جبکہ باتیں اور دعوے میرٹ کے کرتے رہے۔ اگر کسی چھوٹی سی کمپنی نے ایک مقامی منیجر بھی رکھنا ہو تو اشتہار دینے پر پانچ دس ہزار لوگ اپلائی کر دیتے ہیں‘ سی وی میں تعلیم‘ قابلیت اور تجربہ وغیرہ دیکھ کر انٹرویو کیلئے چند امیدار شارٹ لسٹ کئے جاتے ہیں اور اس کے بعد ان میں سے بہترین امیدوار کو منتخب کیا جاتا ہے جبکہ یہ تو سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کی بات تھی جہاں ایک ایسے شخص کی شکل میں اتنا بڑا سرپرائز دے دیا گیا جس کا وزارت اعلیٰ تو دور کی بات چھوٹی موٹی ذمہ داری کا تجربہ بھی نہ تھا۔ اب یہی خان صاحب ایک مرتبہ پھر کنٹینر پر جا چڑھے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ عوام باہر نکلیں‘ انہیں دوبارہ حکومت میں لانے کیلئے ان کا ساتھ دیں‘ انہیں وزیراعظم بنوانے کیلئے پولیس سے مار کھائیں تاکہ وہ پھر سے آ کر حکومت کو انجوائے کر سکیںاور پھر سے انہی میڈیا والوں کے خلاف پرچے کروائیں اور ایسے قوانین لائیں کہ جن سے عوام کو حکومت پر تنقید سے روکا اور دبایا جا سکے۔ویسے بھی سیاستدانوں کیلئے کچھ نعرے اور باتیں ایسے موسموں کی طرح ہوتی ہیں جن کا آنا اور جانا لگا رہتا ہے۔ جو نعرے اور دعوے اپوزیشن میں سُوٹ کرتے ہیں ‘حکومت میں آ کر اگر ان پر عمل نہ کیا جائے تو انہیں حلال یوٹرن کا نام دے دیا جاتا ہے اور سمجھایا جاتا ہے کہ بعض یوٹرن اچھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح نیوٹرل کی جو تعریف خان صاحب بتاتے اور آئے روز تبدیل کرتے رہتے ہیں اس پر بھی ان کے خیال میں کسی کو ان سے سوال نہیں کرنا چاہیے کیونکہ دنیا میں وہ ہی سب سے زیادہ الفاظ کے معانی اور مفہوم کو بہتر سمجھتے اور سمجھا سکتے ہیں۔
جتنا زور تحریک انصاف سڑکوں پر احتجاج کیلئے لگاتی ہیں‘ جتنی توانائیاں مخالفین کی کردار کشی کیلئے یہ جماعت خرچ کرتی ہے اتنی یا اس سے کچھ کم یہ ملکی مسائل اور ایشوز کے حل کی خاطر منصوبہ بندی کرنے کیلئے کرتی تو آج یہ آٹھ برس بعد دوبارہ دھرنوں کیلئے سڑکوں پر خوار نہ ہو رہی ہوتی اور نہ ہی پورے ملک کو عذاب میں ڈالا ہوتا۔اس جماعت سے اگر سب سے زیادہ نقصان کسی کو پہنچا ہے تو وہ نوجوان اور بچے ہیں جن کی اخلاقیات اور تربیت ایسی تقاریر اور جملوں کے ذریعے کی جا رہی ہے جس کو دیکھ کر کسی سٹیج ڈرامے کا منظر یاد آ جاتا ہے۔ جہاں ہر طرف جگتیں لگانے کا مقابلہ ہوتا ہے ‘ ایک دوسرے کو رَج کے ذلیل کیا جاتا ہے‘ نام بگاڑے جاتے ہیں‘ برے القابات سے پکارا جاتا ہے اور اب تو بات اس سے آگے بڑھ گئی ہے اور مخالف سیاسی خواتین کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ خان صاحب کو حکومت جانے کا دُکھ تو ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت معیشت کو نہیں سنبھال پا رہی تو کیا معیشت ان دھرنوں اور روز روز کے جلسوں اور منفی سرگرمیوں سے سنبھلے گی۔ یہ تو ان کے مفاد میں ہے کہ زیادہ سے زیادہ شورش پھیلے تاکہ ڈالر اوپر جائے‘ مہنگائی بڑھے‘ عوام کا جینا دوبھر ہو تاکہ یہ اعلان کر سکیں کہ دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں‘ نئی حکومت تو ملک کو چلانے میں ناکام ہو گئی ہے حالانکہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سارا مسئلہ گزشتہ ساڑھے تین چار سال کے دوران پیدا کیا گیا اور اگر آپ عدم اعتمادآنے سے کچھ دن یا کچھ ہفتے پہلے کی خبریں نکال کر دیکھ لیں تو آپ کو ہر طرف حکومت معاشی محاذ پر ناکام دکھائی دے گی‘ خود تحریک انصاف کے اپنے لوگ حتیٰ کہ اوورسیز پاکستانیوں کے یہ بیانات آ رہے تھے کہ ہم خان کو سپورٹ کر کے پچھتا رہے ہیں۔ ڈالر124 سے 185 تک انہی چار برسوں میں ہی پہنچا تھا۔ گاڑیوں‘ موبائل فون اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی تھیں لیکن پھر انہیں عدم اعتماد کی صورت میں گویا ایک فیس سیونگ کا تحفہ مل گیا اور اگر یہ نہ ملتا اور پانچ سال پورے کر لئے جاتے تو گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والے پچھتاتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہنا شروع ہو چکے تھے کہ ہماری توبہ اگر ہم نے دوبارہ انہیں ووٹ دیا‘ ہمیں کیا پتہ تھا اقتدار میں آ کر یہ ہمیں ہی کھا جائیں گے‘ یہ ہمارا ہی شکار کرنے لگ جائیں گے۔