دنیا کے جدید ممالک اور کامیا ب اقوام میں کچھ باتیں مشترک ہوتی ہیں۔ وہ لوگ بچپن سے محنت کے عادی ہوتے ہیں جبکہ ہم گلے پڑنے پر ہی محنت کرنا شروع کرتے ہیں۔ وہ لوگ وقت کی قدر کرتے ہیں‘ بے کار زندگی نہیں گزارتے اور سچ کو اپنا شعار بناتے ہیں‘ جو بتاتے ہیں وہی بیچتے ہیں جبکہ ہم لوگ محنت سے جی چراتے ہیں‘ وقت کی بھی ہمارے نزدیک کوئی وقعت نہیں اور ہر کام جان بوجھ کر دیر سے کرنے کے عادی ہیں۔ ہمارے ہاں کوئی بھی کام رشوت اور سفارش کے ترازو میں تولے بغیر مکمل نہیں ہو پاتا۔ ہم وطن سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن یوم آزادی اور عیدین جیسے تہوار سو کر گزار دیتے ہیں۔ ہمارا طرزِ زندگی ہر انداز سے نرالا ہے۔ ہمارے دن کا آغاز پراٹھوں‘ لسیوں اور سری پائے سے ہوتا ہے‘رات گئے ہوٹلنگ‘ آئوٹنگ اور کھابے جاری رہتے ہیں۔ ہم ہر سٹریٹ کو فوڈ سٹریٹ اور ہر بازار کو اتوار بازار سمجھ لیتے ہیں۔ ہر دو‘ تین گھنٹے بعد اگر ہم چائے کے ایک دو کپ نہ پی لیں تو ہمارا کام میں دل نہیں لگتا۔ ہماری ان عادتوں اور طرزِ زندگی نے ہمیں اس گھونگھے کی مانند بنا دیا ہے جو دنیا وما فیھا سے بے خبر‘ اپنے خول میں بے کار پڑا رہتا ہے۔ ایسی قوم کو بالآخر حالات کے دھارے پر بہتے ہوئے تباہ حال معیشت کی فصل ہی کاٹنا پڑتی ہے۔ کامیابی اور کامرانی کی منزل پر پہنچنے کیلئے وقت‘ محنت‘ خلوص اوردیانتداری کو انویسٹ کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے ملک میں 90 فیصد سے زائد مسلمان ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارا ایمان پختہ نہیں ہے۔ جب ہم پر تھوڑی سی مصیبت پڑتی یا کوئی مشکل آتی ہے تو ہم فوراً چیخنا چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم قدرت کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ خدا پر یقین اور پختہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ہر مشکل میں خدا کو یاد کریں‘ اس پر بھروسہ رکھیں اور اسی سے مدد کی اُمید رکھیں۔ ایسے لمحات ہر شخص کی زندگی میں آتے ہیں جب ہر راستہ بند گلی میں جا نکلتا ہے‘ جب مادی وسائل جواب دے جاتے ہیں اور جب عقل کے سمندر کی حد تمام ہو جاتی ہے۔ ایسا وقت بھی ہم سب کی زندگی میں آتا ہے جب ہم رزق کی تنگی کا شکار ہو جاتے ہیں‘ ہم مقروض ہوتے چلے جاتے ہیں‘ ناجائز مقدمات میں پھنس جاتے ہیں‘ ہمیں کاروبار میں نقصان ہو جاتا ہے‘ اچھا روزگار حاصل نہیں کر پاتے‘ اولاد کی نعمت سے محروم رہتے ہیں‘ بیٹے کی نعمت کو ترس جاتے ہیں‘ ہمارا کوئی کام ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے اور ہم بیک وقت کئی مشکلات میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں سے انسان کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔ اس موقع پر جس نے بھی دل سے اپنے رب کو پکارا‘ جس نے خدا پر یقین کیا اور اپنا کیس اس کی بارگاہ میں رکھا‘ وہ ضرور کامیاب ہو گیا۔ دُعا کی قبولیت کا بہترین وقت رات کا آخری پہر ہوتا ہے۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ رات کے پچھلے پہر اللہ تعالیٰ عرش پر انتظار کرتا ہے کہ اس کے بندے اس کی بارگاہ میں آئیں‘ اس سے اپنی حاجات طلب کریں اور اپنا دُکھ اس کے سامنے رکھیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب آسمان سے ملائکہ کا نزول ہوتا ہے۔ اس وقت کی گئی دُعا‘ اس وقت کی گئی عبادات اور اس وقت کی گئی توبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں زبردست قبولیت پاتی ہے مگر ہم اس وقت گھوڑے بیچ کر سو رہتے ہیں۔ یہ انسان کی مرادیں پوری ہونے کا وقت ہوتا ہے جسے ہم ضائع کر دیتے ہیں ۔ اگر ہم خدا پر ایمان مضبوط رکھیں تو ہر مشکل کے بھنور سے بہ آسانی باہر نکل سکتے ہیں۔
تیسری چیز ہے غصہ۔ بحیثیت مجموعی ہم بہت زیادہ جذباتی اور غصیلی قوم بن چکے ہیں۔ کوئی ہماری گاڑی کو غلطی سے چھو لے‘ کوئی ہم سے اونچی آواز میں بات کر لے یا کوئی ہمیں تھوڑا سا 'کولڈ شولڈر‘ دے دے تو ہم اس کی جان کے درپے ہو جاتے ہیں حالانکہ غصہ ایسی چیز ہے کہ جو کامیاب اور امیر ترین انسان کو بھی ایک دن کے اندر ناکام اور کنگال بنا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہم سب انسان ہیں اور انسان کو بہر طور غصہ آ جاتا ہے لیکن ہمیں یہ بھی علم ہے کہ غصہ انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ یہ انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب غصہ آتا ہے تو انسان کے اعصاب اور حواس کھنچنے لگتے ہیں‘ اس کی نسیں پھولنے لگتی ہیں اور اس کے خون کی رفتار بے قابو ہو جاتی ہے۔ ہمیں یہ بھی علم ہے کہ غصے کا فوری اثر دماغ پر ہوتا ہے‘ یہ انسان کی قوتِ فیصلہ پر ضرب لگاتا ہے اور خون میں ایسا زہریلا مادہ پیدا کرتا ہے جس سے چہرے کی رونق ختم ہو جاتی ہے اور آنکھوں اور ہونٹوں سے تازگی غائب ہو جاتی ہے۔ ہمیں یہ بھی پتا ہے کہ غصہ انسان کے اعصابی نظام کو ریورس گیئر میں ڈال دیتا ہے۔ یوں انسان کے کردار اور اخلاق میں منفی اور تخریبی اثرات پیدا ہو جاتے ہیں اور انسان جذبات کی انتہائی سطح پر پہنچ جاتا ہے اور اس حالت میں یہ اپنے عزیز سے عزیز رشتے کو بھی ٹھوکر سے اڑا دیتا ہے، یہ اپنی اولاد‘ اپنی دولت‘ اپنے کیریئر‘ حساس رشتوں حتیٰ کہ اپنی زندگی تک کو دائو پر لگا دیتا ہے۔ بسا اوقات سب کچھ جاننے کے باوجود انسان غصے کی حالت میں اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کی شمع کو بجھا دیتا ہے۔ یقین کیجیے کہ دنیا کے ستر فیصد انسان صرف اس لیے ناکام ہوتے ہیں کہ وہ غصے پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ تیس فیصد کامیاب افراد میں آپ کو یہ خاصیت مشترک ملے گی کہ وہ کول مائنڈڈ رہتے ہیں‘ وہ غصے میں بھی ہونٹوں پر مسکراہٹ لانے کا فن جانتے ہیں اور یہی زندگی کا سب سے بڑا فن ہوتا ہے۔
ہماری چوتھی خرابی ہے لالچ۔ ہم بنیادی طور پر لالچ کے پیروکار ہیں۔ کوئی ہمیں پیسہ ڈبل کرنے کا کہے‘ لاٹری کا جھانسہ دے یا غیر معمولی منافع کی پیشکش کرے‘ ہم وہیں لیٹ جاتے ہیں۔ ہم فوراً سے پہلے اپنا بٹوہ کھول کر اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ جو جتنی زیادہ فنکاریاں دکھائے‘ ہم اتنا ہی اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ ہم دولت کے پیچھے بھاگتے ہیں لیکن سکلز کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہر دوسرا شخص دولت کو خوشی‘ اطمینان اور راحت کا منبع سمجھ کر اس کے پیچھے دیوانہ وار بھاگا پھرتا ہے۔ دولت کی ہوس میں لوگ خونی رشتوں کا خون کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ جس خوشی اور سکون کی تلاش میں وہ دولت جمع کرتے ہیں‘ وہی دولت ان کی بے سکونی‘ بے چینی اور تباہی کی وجہ بن جاتی ہے۔ وہ سونے کے بستر پر لیٹتے ہیں لیکن خواب آور گولیاں کھائے بغیر سو نہیں پاتے۔ لاکھوں کے سوٹ پہنتے ہیں لیکن ان کا باطن گندگی سے اَٹا رہتا ہے۔ دنیا کی ہر چیز اولاد کے قدموں میں لا کر رکھ دیتے ہیں لیکن یہی اولاد بڑھاپے میں ان کو دھتکار دیتی ہے، ان کی عزت تک نہیں کرتی۔ اپنی خدمت کی خاطر وردی پوش ملازموں کی فوج جمع کر لیتے ہیں لیکن خودکو بے یار و مددگار محسوس کرتے ہیں۔ سیر و تفریح کی خاطر دنیا کا کونا کونا پھر لیتے ہیں لیکن بے چینی اور بے قراری کے تحفے لے کر وطن لوٹتے ہیں۔ جان کی حفاظت کیلئے محافظ اور بلٹ پروف گاڑیاں تک خرید لیتے ہیں لیکن موت کا فرشتہ پھر بھی ان تک پہنچ جاتا ہے اور مقررہ وقت پر روح قبض کر لیتا ہے۔ دنیا کا مہنگا ترین علاج اختیار کرتے ہیں لیکن صحت کی آس لیے ہی موت کی وادی میں اتر جاتے ہیں۔
ہم اکثر یہ سنتے ہیں کہ ہماری قوم میں بڑا پوٹینشل موجود ہے‘ یہ عظیم کارنامے سر انجام دے سکتی ہے۔ گاہے گاہے ہم پاکستانیوں کی غیر معمولی کامیابیوں کی خبریں بھی سنتے رہتے ہیں‘ لیکن بحیثیت قوم اب بھی ہم منظم اور ترقی یافتہ اقوام سے کوسوں دُور ہیں۔ ہم اخلاقی خرابیوں کو برائی ہی نہیں سمجھتے اور ناپ تول میں کمی‘ وعدہ خلافی اور جھوٹ کو کاروبار کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اگر ہم محنت کی عادت بچپن ہی سے اپنا لیں‘ ایک ایک منٹ کوضائع ہونے سے بچائیں‘ اگر بددیانتی سے باز آ جائیں‘ روپے پیسے کے پیچھے بھاگنے کے بجائے نئی سکلز اور نئے علوم کے حصول کی کوشش کریں اور اگر خدا پر یقین کو مزید پختہ کر لیں تو ہمارے انفرادی مسائل بھی حل ہو جائیں گے اور ہم ایک قوم بھی بن جائیں گے۔