"ACH" (space) message & send to 7575

نیشنل ایجوکیشن پالیسی

ملک کی ایک معروف سرکاری یونیورسٹی نے ماسٹرز کے کچھ روایتی مضامین کی تعلیم ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ ان مضامین کی نہ تو اس وقت کوئی طلب ہے نہ ہی ڈگریاں لینے والوں کو کوئی فائدہ ہو رہا ہے۔ پچھلے دنوں فن لینڈ میں زیرِ تعلیم ایک طالب علم نے بتایا کہ وہاں تو اس طرح کے کورسز یا ڈگریاں ہوتے ہی نہیں جیسے ہمارے ہاں کرائے جاتے ہیں، مثلاً ماسٹرز اِن جیالوجی‘ ماسٹر ز اِن سائیکالوجی‘ ماسٹرز اِن لٹریچر وغیرہ۔ اس کے بجائے وہاں فوکسڈ اور تفصیلی مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وہ لڑکا وہاں وُڈ مٹیریل سائنس میں ماسٹرز کر رہا ہے۔ اب اس طرح کی ڈگریاں ہمارے ہاں لوگوںکو شاید ہی سمجھ آئیں۔ وہاں ماحولیات میں ماسٹرز کم ہی یونیورسٹیاں کرا رہی ہیں بلکہ وہاں اس کے مختلف اجزا کو الگ الگ سٹڈی کرتے ہیں تاکہ بات گہرائی میں سمجھ آ جائے۔ پاکستان میں سرکاری یونیورسٹیاں کئی سو ایکڑوں پر قائم ہیں اور ان کے ڈیپارٹمنٹس بھی تھوک کے حساب سے بوسیدہ مضامین میں گریجویشن اور ماسٹرز کروا رہے ہیں۔ یہ سب آج سے چالیس‘ پچاس‘ ساٹھ برس قبل تو بہت آئیڈیل تھا۔ یعنی پچھلے وقتوں میں کسی نے اگر صرف اردو‘ تاریخ‘ اسلامیات یا انگریزی میں بی اے ہی کیا ہوتا تھا تو وہ بہت زیادہ پڑھا لکھا شمار ہوتا تھا‘ اسے نوکری بھی فوری اور اچھی مل جاتی تھی حتیٰ کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ہی بی اے کا لفظ بھی لگا لیتا تھا اور اس نام سے گھر کے باہر لگوانے کے لیے تختی بھی بنوا لی جاتی تھی۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ کوئی شخص آج بی اے کرے تو کیا وہ یہ تختی لگوائے گا‘ یا وزٹنگ کارڈ چھپوائے گا لوگوں کو دکھانے کے لیے کہ دیکھو بھائی میں نے بی اے کیا ہوا ہے۔ یہاں ایم اے‘ ایم فل حتیٰ کہ پی ایچ ڈیز کی بھی بھرمار ہو چکی ہے مگر نوکریاں نہیں ملتیں‘ ڈاکٹریٹ کر کے بھی لوگ روزگار کے لیے در در دھکے کھا رہے ہیں تو پھر بی اے کو کون پوچھے گا۔ آج سے تیس برس قبل تک بھی بی اے یا ایم بی اے والے کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ ہو جاتے تھے لیکن اس کے بعد دنیا بدل گئی۔
کمپیوٹر نے جہاں دنیا کو جدید سہولتوں اور آسانیوں سے آراستہ کیا‘ وہاں پرانے روزگاروں کا بھی ستیاناس کر دیا۔ شروع میں تو تعلیم کی بھی خاص ضرورت نہ تھی بلکہ جو بندہ کمپیوٹر میں ونڈو اور دیگر سافٹ ویئرز کر لیتا تھا‘ ہارڈ ڈسک اور ریم لگانا؍ نکالنا جانتا تھا‘جو ہارڈ ویئرز کے ڈرائیورز فوری ڈھونڈ کر مسئلہ حل کر دیتا تھا ایسے بندے کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ میں ایسے ہی ایک لڑکے کو جانتا ہوں جو نوے کی دہائی میں ہم سے پہلی مرتبہ ملا تھا۔ اس نے میٹرک یا ایف اے کیا ہوا تھا لیکن ہم اسے کمپیوٹر کا کیڑ ا کہتے تھے۔ وہ ایک نیوز ویب سائٹ کو اَپ ڈیٹ کرنے یعنی خبریں لگانے آتا اور چھ گھنٹے کا کام چالیس منٹ میں مکمل کر لیتا تھا۔ اس کے علاوہ اسے چیٹنگ کا بہت شوق تھا۔ شاید دو یا تین ہزار ماہانہ لیتا تھا لیکن وہ پیسوں کے لیے کام نہیں کرتا تھا بلکہ اسے سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ جہاں بھی کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی سے متعلق لوگ ملتے یا ادارہ‘ وہ وہاں ضرور کچھ نہ کچھ وقت لگاتا۔ پھر ایک دن پتا چلا کہ اس نے موبل آئل بنانے والی ایک بڑی کمپنی میں نوکری کر لی ہے۔ ہم بڑے حیران ہوئے کہ ایف اے پاس کو نوکری کیسے مل گئی۔ وہاں جا کر دیکھا تو موصوف کمپنی کے ہیڈ آفس میں بطور آئی ٹی انچارج بھرتی ہو چکے تھے۔ ان کا کام پورے دفتر کے کمپیوٹرز کی دیکھ بھال وغیرہ تھا اور مزے کی بات یہ ہے اس فیلڈ کی تعلیم اس نے کہیں سے حاصل نہ کی تھی بلکہ ہمارے ہاں یا جہاں بھی جلد کمپیوٹرز آ گئے تھے‘ یہ وہاں جاتے تھے اور چھیڑ چھاڑ کر کے شوق کے باعث جلد سب کچھ سیکھ گئے۔ پھر ایک دن پتا چلا موصوف نے ایک اور بڑی کمپنی جوائن کر لی ہے۔ کچھ عرصے بعد خبر ملی کہ وہ دبئی پہنچ گئے ہیں وہاں ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے آئی ٹی کے شعبے میں نام اور ریال کما رہے ہیں۔
کوئی بھی شخص کسی بھی فیلڈ میں کامیاب بننا چاہتا ہے تو اسے دیوانگی کی حد تک اس شعبے کے ساتھ عشق کرنا پڑے گا۔ اس لڑکے کا بھی یہی حال تھا۔ بے چینی شروع دن سے اتنی تھی کہ بس آگے سے آگے جانا ہے۔ پھر کچھ برسوں بعد معلوم ہوا کہ موصوف برطانیہ جا پہنچے ہیں‘ بہترین جاب کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ تعلیم بھی مکمل کر لی ہے کیونکہ اس طرح کے جگاڑ پاکستان میں تو چل جاتے ہیں لیکن باہر آپ کے پاس ڈگری ہونا بھی لازم ہے؛ چنانچہ اس نے ڈگری لے لی اور اب برطانیہ کی کسی ٹیلی کام کمپنی میں بہت اچھی سیٹ پر کام کر رہا ہے اور اب اسے برطانوی شہریت بھی مل چکی ہے۔ اس طرح کی اور مثالیں بھی اس دور میں سامنے آئی ہوں گی کیونکہ اس وقت لوگوں کا رجحان ابھی آئی ٹی کی طرف بہت کم تھا اور اس کی تعلیم بھی عام نہ ہوئی تھی۔ اکیسویں صدی کا آغاز ہوا تو کمپیوٹر نیٹ ورکنگ کے چھوٹے چھوٹے کورسز شروع ہوئے جن میں سے ایک ایم سی ایس ای یعنی مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ نیٹ ورک ایسوسی ایٹس کا چھ ماہ کا کورس شامل تھا۔ اس کورس کا امتحان آن لائن براہِ راست کینیڈا یا امریکا وغیرہ سے لیا جاتا تھا اور جو یہ پاس کر لیتا وہ جھٹ سے کینیڈا یا امریکا پہنچ جاتا تھا۔ مائیکروسافٹ کی ونڈوز 95اور 98کے بعد ونڈوز 2000آئی تو کمپیوٹر استعمال کرنے والوں کی تعداد میں بے انتہا اضافہ ہوا کیونکہ یہ ورژن بہت زیادہ آسان تھا۔ پھر اس میں چلانے کے لیے نت نئے سافٹ ویئرز بننے لگے اور ان کے لیے سافٹ ویئر انجینئرز کی ضرورت پڑی۔ بیچلرز اِن کمپیوٹرسائنسز جس جس نے کیا‘ اسے اچھی نوکری ملتی گئی۔ خاص طور پر اس کا فائدہ لڑکیوں کو بہت ہوا جو اس سے قبل زیادہ تر صرف اس لیے ڈاکٹر بنتی تھیں کہ شادی جلدی اور اچھی جگہ ہو جاتی تھی اور وہ بھی ڈاکٹر سے۔ لیکن بعد میں ستر سے اسی فیصد لڑکیاں میڈیکل کی فیلڈ کو خدا حافظ کہہ دیتی تھیں اور یوں یہ سیٹیں ضائع ہو جاتی تھیں؛ تاہم کمپیوٹر سائنسز کا فائدہ یہ تھا کہ لڑکیاں گھر بیٹھ کر بھی آن لائن کام کر کے آمدن کا سبب بنا لیتی تھیں۔ کمپیوٹر کے ساتھ ہی موبائل عام ہوا تو اس کی بھی تعلیم اور ڈیمانڈ بڑھنے لگی۔ سوشل میڈیا اور ای کامرس کے آنے سے تو ساری گیم ہی بدل گئی۔ خاص طور پر کورونا میں ای کامرس اور سوشل میڈیا‘ دونوں میں کام کرنے والوں نے خوب کمایا۔ اب مگر ماسٹرز اِن کمپیوٹر سائنسز یا ماسٹرز اِن آئی ٹی کی بھی ڈیمانڈ کم ہو رہی ہے اور اس کے بجائے بلاک چین‘ ڈیٹا سائنس‘ پائیتھان وغیرہ میں ماسٹرز اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ہی اچھا روزگار حاصل کر پاتے ہیں۔ یعنی آئی ٹی کے شعبے میں بھی اگر کسی نے رہنا ہے تو اس میں بھی سپیشلائز کرنا ہوگا اور عملی طور پر کام آتا ہوگا تو ہی بات بنے گی نہ کہ محض ایک ڈگری لے کر نوکری ڈھونڈنا شروع کر دی جائے۔
یاد رہے کہ اس وقت سینکڑوں ادارے کمپیوٹر سائنسز کی تعلیم دے رہے ہیں اور ہزاروں بچے ہر سال گریجویٹ ہو کر باہر آتے ہیں لیکن پریکٹیکل نالج نہ ہونے پر وہ بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ فن لینڈ‘ سنگاپور حتیٰ کہ بھارت میں بھی اب عملی تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں ابھی تک ڈگریاں ہی پرانے بوسیدہ مضامین میں کرائی جا رہی ہیں اور آئی ٹی کے شعبے میں جو تعلیم دی جا رہی ہے اس میں چند ایک اداروں کے علاوہ باقی سب رٹے اور ڈگری پاس کروانے کی مشینیں لگا کر بیٹھے ہیں۔ یہی حال رہا تو پاکستان میں بیروزگاروں کی ایک نئی کھیپ تیار ہو کر مارکیٹ میں آ جائے گی۔ اس وقت سے بچنے کے لیے نیشنل ایجوکیشن پالیسی اپنائی جائے جو دنیا کے ساتھ مربوط ہو‘ جس کے تحت پرانی اور بے کار ڈگریاں ختم کی جائیں اور مقامی اور عالمی مارکیٹ کے ساتھ طالب علموں کو جوڑا جائے اور عملی تعلیم دی جائے تاکہ ہمارے طالب علم یہاں رہتے ہوئے اور بیرونِ ملک جاکر بھی آسانی سے اپنا نام اور روزگار بنا سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں