لکھنے کے لیے جو پنسل استعمال کی جاتی ہے اس پر انگلش کے دو حروف ایچ اور بی لکھے ہوتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ایچ اور بی کس کا مخفف ہے؟ ہو سکتا ہے کہ آپ کو معلوم ہو لیکن کم از کم مجھے اس کا علم نہیں تھا۔ ایک انگلش ٹی وی چینل پر ایک ڈاکیومنٹری چل رہی تھی جس میں جرمنی کی کسی فیکٹری میں پنسلیں بنانے کا پورا عمل دکھایا گیا تھا۔ جو رپورٹر یہ ڈاکیومنٹری بنا رہا تھا‘ اسے فیکٹری آفیسر نے پنسل پر لکھے جانے والے حروف ''ایچ اور بی‘‘ کے بارے میں بتایا کہ ایچ کا مطلب ہارڈ یعنی سخت اور بی کے معانی بلیک یعنی سیاہ کے ہیں۔ اس فیکٹری میں سولہ قسم کی پینسلیں تیار کی جاتی تھیں اور مشینیں خودکار طریقے سے ایچ بی کے مختلف نمبر ہر پنسل پر درج کر دیتی تھیں۔ جس پنسل کا سکہ زیادہ سخت اور سیاہی تیز رکھی جانی ہوتی ہے‘ اس کا نمبر الگ ہوتا ہے‘ کسی کی سیاہی ہلکی اور سکہ درمیانہ رکھنا مقصود ہوتا ہے‘ اس کو ایچ بی کا الگ کوڈ الاٹ ہو جاتا ہے۔ یہ ڈاکیومنٹری کوئی پچاس منٹ کی تھی۔ میں نے چند دن قبل یہ ڈاکیومنٹری دیکھی اور اس روز سے اب تک درجنوں لوگوں سے ایچ بی کا مطلب یا یہ کس کا مخفف ہے‘ پوچھ چکا ہوں لیکن کسی کو بھی اس کا علم نہیں تھا۔ چاہے وہ بچے ہوں‘ والدین یا پھر سینئر افراد۔ یہ معاملہ کس چیز کی نشاندہی کرتا ہے۔ کیا ہم جو کام کرتے ہیں‘ بچے سکولوں‘ کالجوں میں جو علم حاصل کرتے ہیں‘ روزانہ چھ چھ‘ آٹھ آٹھ گھنٹے پڑھائی کر کے گھر آتے ہیں اور والدین نرسری کے ایک بچے کی فیس تیس‘ تیس ہزار روپے بھر رہے ہیں‘ کیا انہیں اس بات کا احساس ہے کہ ان کے بچے واقعی تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا پھر ہم نے صرف یہ سوچ لیا ہے کہ بچوں کو سکول‘ کالج بھیجنا اور ان پر لاکھوں روپے خرچ کرنا ہی کافی ہے؟ قصور والدین کا بھی ہے اور معاشرے اور حکومتوں کا بھی۔
ہمارا نظام تعلیم ہی ایسا بنا دیا گیا ہے کہ ہمیں محض زیادہ سے زیادہ نمبر اور گریڈ لینا ہی سکھایا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک ایک طالب علم کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ فرسٹ‘ سیکنڈ یا تھرڈ آئے‘ چاہے اسے اُس نصاب کے بارے میں ذرہ بھر شعور اور آگاہی نہ ہو جس کو پڑھ کر وہ نمبر اور گریڈ لیتا ہے۔ پھر ہمارا نظام تعلیم اور عملی زندگی‘ دونوں یکسر مختلف ڈائریکشن میں چل رہے ہیں۔ زیادہ تر نصاب دس دس برسوں سے تبدیل ہی نہیں ہوا۔ کمپیوٹر کے حوالے سے آج بھی فلاپی ڈسک اور سی ڈی روم کے بارے میں پورا پورا صفحہ یاد کرنے کو کہا جاتا ہے جو عملی طور پر مفقود ہو چکے ہیں اور آج شاید ہی کسی کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ میں موجود ہوں۔
گزشتہ دنوں قطر سے چھٹیوں پر پاکستان آئے ایک دوست نے بتایا کہ قطر میں ابتدائی تعلیم میں بچوں کو اسی طرح کمپیوٹر کوڈنگ بنیادی کلاسوں سے سکھائی جا رہی ہے جیسے ہمارے ہاں اردو یا انگریزی کا مضمون لازمی ہوتا ہے۔ پچیس‘ تیس لاکھ کی آبادی کا حامل قطر جیسا ملک ورلڈ کپ فٹ بال کے عالمی مقابلے کی نمائندگی یونہی نہیں کر رہا۔ اس کے پیچھے حکمرانوں کا وژن اور مربوط پلاننگ کارفرما ہے۔ حالانکہ قطری شہریت کے حامل افراد کی تعداد تین‘ سوا تین لاکھ سے زیادہ نہیں ہے لیکن اتنا سا ملک جس طرح کے کارنامے دکھا رہا ہے وہ قابلِ تعریف ہی نہیں قابلِ تقلید بھی ہیں۔ اسی ملک میں اسلامی دنیا کا سب سے مؤثر انگریزی اور عربی چینل الجزیرہ قائم ہوا اور کامیابی سے چل رہا ہے۔
پاکستان کو عالمی معیار تک پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا‘ یہ سوال آج کل کے حالات میں بہت عجیب دکھائی دیتا ہے کہ معیشت نے گزشتہ تین‘ چار مہینوں میں جس طرح ہچکولے کھائے ہیں کہ ابھی ڈوبے کہ ابھی ڈوبے کی صدائیں تک بلند ہونا شروع ہو چکی تھیں اور ملک کے سری لنکا بننے کے خدشات ظاہر کیے جارہے تھے۔ ڈالر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا‘ پٹرول کی قیمتیں لوگوں کا خون اب بھی جلا رہی ہیں‘ ملک کے ڈیفالٹ کرنے کی باتیں گلی محلوں میں یوں کی جارہی ہیں گویا یہ کوئی معمول کی بات ہو۔ چودہ اگست کو پاکستان 75برس کا ہو گیا لیکن اس یوم آزادی کو سوائے باجے بجانے کے‘ کیا کسی نے یہ سوچا کہ ہم نے اتنے عرصے میں کمایا کیا ہے‘ بنایا کیا ہے۔ یہ سوچ کر دُکھ بھی ہوتا ہے اور حیرانی بھی کہ بعض شعبوں میں تو اتنی ترقی‘ جیسے ایٹم بم بنانا‘ اور بعض میں بالکل ہی زیرو اور ایسے ممالک سے سینکڑوں گنا پیچھے جو ہمارے ساتھ یا ہمارے بعد آزاد ہوئے لیکن ہم سے میلوں آگے نکل گئے۔ اور کچھ نہیں تو بنگلہ دیش کی مثال ہی دیکھ لیں جس کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 48ارب ڈالر سے زائد ہیں اور ہماری سانسیں آٹھ‘ نو ارب ڈالر پر اکھڑی ہوئی ہیں اور ان میں سے بھی آدھے یا شاید اس سے زیادہ‘ ہم نے سعودی عرب اور دیگر ممالک سے جز وقتی طور پر لے رکھے ہیں۔ ہم آج تک اپنی کرنسی کو مضبوط کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کا کوئی مربوط پلان ہی نہیں بنا سکے۔
میں درجنوں بار لکھ چکا ہوں کہ یہ آئی ٹی کا دور ہے۔ پوری دنیا میں گزشتہ دس‘ پندرہ برسوں میں ٹاپ ٹین یا ٹاپ ٹونٹی کمپنیوں میں سے اسی فیصد آئی ٹی سے متعلقہ کمپنیاں ہیں۔ اس سے قبل اسّی‘ نوے فیصد مارکیٹ شیئر سافٹ ڈرنکس یا ریئل اسٹیٹ جیسے شعبوں کا ہوتا تھا۔ آج کے دور میں حکومتوں کو اپنے عوام کو نوکریاں اس طرح نہیں دینیں جس طرح پہلے کوٹوں کے تحت بانٹی جاتی تھیں۔ اب دور بدل چکا ہے اور صحیح معنوں میں دنیا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ اس وقت کہنے کو ہم پاکستانی کرنسی استعمال کرتے ہیں لیکن ہمارے دماغوں اور ہماری معیشت پر امریکی ڈالر راج کر رہا ہے۔ یہ ہمارے ہر فیصلے‘ ہرا قدام پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ جو شخص آن لائن کوئی کام کر رہا ہے اسے مہنگائی سے کچھ لینا دینا نہیں۔ وہ ڈالر میں تنخواہ لے رہا ہے‘ خود بھی مزے میں ہے اور ملک کو بھی فائدہ ہو رہا ہے کہ زرمبادلہ آ رہا ہے۔ اس سارے عمل میں حکومت کو صرف سپورٹ یعنی معاون کا کردار ادا کرنا ہے۔ آئی ٹی کا کام کرنے والوں کو بیرونِ ملک سے پیسے منگوانے میں جو مشکلات پیش آتی ہیں‘ انہیں دور کرنا ہے‘ آئی ٹی سیکٹر پر ٹیکسوں وغیرہ کو ختم یا بہت کم کرنا ہے اور گوگل‘ فیس بک‘ مائیکروسافٹ جیسی کمپنیوں کے دفاتر کو‘ انڈیا کی طرح‘ پاکستان میں بھی لانا ہے اور سب سے اہم کام یہ کرنا ہے کہ بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی لاجک یعنی دلیل اور منطق پر مبنی تعلیم فراہم کرنے کا انتظام کرنا ہے۔
اس وقت طالب علم جو پڑھ رہے ہیں‘ اس کے بارے میں انہیں مکمل علم ہونا چاہیے۔ رٹّا سسٹم اب بالکل نہیں چلنے والا۔ اپنے نصاب کو عالمی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح طالب علموں کو انڈسٹری کے ساتھ رابطے میں لانا بھی بے حد ضروری ہے۔ کاغذ کیسے بنتا ہے‘ چیزوں کی پیکیجنگ کیسے ہوتی ہے‘ سپورٹس کا سامان کہاں اور کیسے تیار ہوتا ہے‘ مال کو ایکسپورٹ اور امپورٹ کیسے کیا جاتا ہے‘ اسمبلی کی کارروائی کیسے چلائی جاتی ہے‘ اسمبلی میں بل پیش ہونے سے لے کر قانون بننے تک کے مراحل کیسے طے ہوتے ہیں‘ شہریوں کے بنیادی حقوق کیا ہوتے ہیں‘ ان حقوق کو قانونی طور پر حاصل کرنے کے لیے کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ بجٹ کسے کہتے ہیں‘ آئی ٹی انڈسٹری کون سی دیگر صنعتوں اور شعبوں میں کس طرح مددگار ثابت ہو رہی ہے‘ یہ ایسے ایشوز ہیں جن کا عملی زندگی میں آنے کے بعد سامنا کرنا پڑتا ہے تو کیوں نا ان کی آگاہی بچوں کو ساتھ ساتھ ہی دی جائے تاکہ ان کے وژن اور سوچ کا دائرۂ کار وسیع ہو اور وہ صرف درسی کتابوں کے ارگرد نہ گھومتے رہیں بلکہ عملی زندگی کے چیلنجز سے بھی بروقت واقف ہو سکیں اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو سکیں۔ حکومتوں‘ تنظیموں‘ میڈیا‘ تھنک ٹینکس‘ ریٹائرڈ پروفیسرز‘ بیورو کریٹس‘ قانون دانوں کو کبھی وقت ملے تو اس بارے میں بھی ضرور سوچیں۔