جب تک سیلاب کی خوف ناک ترین وڈیوز سامنے نہیں آئیں نہ ذرائع ابلاغ ٹس سے مس ہوئے نہ ہی سیاستدانوں کو خیال آیا کہ ملک میں کوئی سیلاب بھی آیا ہوا ہے۔ دو ہفتے سے مسلسل سارا فوکس شہباز گل کی گرفتاری پر رہا اور چوبیس گھنٹے ان پر خبریں‘ تبصرے اور ٹاک شوز چلتے رہے۔ جب سوات میں سیلابی ریلا داخل ہوا اور مشہور ہنی مون ہوٹل گرا‘ تب جا کر سب کو ہوش آیا کہ شہباز گل کے علاوہ بھی اس ملک میں مسائل موجود ہیں۔ میں نے بیس اگست کو موسمیاتی تبدیلی کے عنوان سے اپنے کالم میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذکر کیا تھا اور اس وقت تک بھی سیلاب بہت زیادہ تباہی مچا چکا تھا لیکن مجال ہے کہ کسی کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔ اُدھر پی ٹی آئی جلسوں کی نئی سیریز کا اعلان کر چکی تھی‘ حالانکہ کے پی میں اسی کی حکومت ہے لیکن وہ تو جلسے ختم کرنے کے موڈ میں ہی نہیں تھی۔ جہلم میں پی ٹی آئی کو جلسہ کرنے کے لیے کسی نے ترغیب دی تھی یا شاید خان صاحب خود اس زعم میں تھے کہ ان کی مقبولیت سیلاب کی تباہ کاریوں سے کہیں زیادہ ہے‘ جو بھی تھا اس کا انہیں نقصان ہی ہوا۔ جہلم کے جلسے میں ایک چوتھائی گرائونڈ بھی نہ بھری جا سکی لیکن پھر بھی سیلاب سے تباہ حال عوام کے زخموں پر نمک پاشی سے گریز نہیں کیا گیا۔ یہی کام کسی اور جماعت نے کیا ہوتا تو پی ٹی آئی کی جانب سے اس جماعت پر خوب لفظی گولہ باری کی جارہی ہوتی۔ لیکن بات وہی ہے کہ دوسروں کی آنکھوں میں تنکا ڈھونڈنے والوں کو اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا۔ جو بات جہاں خود کو سُوٹ کرتی ہے اسے اپنے مفاد میں استعمال کر لو‘ اور بس۔ ایسا ہر کوئی کرتا ہے لیکن پی ٹی آئی اس کام میں خاصی آگے ہے۔ اس کے پیروکار 'آمنا و صدقنا‘ کہہ کر اپنے لیڈر کی ہر بات پر عمل کرنے کو تیار رہتے ہیں‘ چاہے وہ غلط ہو یا صحیح۔ کیا برطانیہ کی جمہوریت میں ایسا ہوتا ہے جس کی مثالیں خان صاحب ربع صدی سے سناتے آ رہے ہیں۔ کیا وہاں غلط کو غلط نہیں کہا جاتا‘ چاہے آپ کی اپنی جماعت کا لیڈر ہی وہ کام کیوں نہ کر رہا ہو؟
میٹرو بس سے شروع کر لیں اور آئی ایم ایف تک آ جائیں‘ کون کون سی بات پر یوٹرن نہیں لیا گیا۔ اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آج بھی جو کچھ کہا جا رہا ہے‘ اس پر قائم رہیں گے یا اسے بھی یوٹرن کی نذر کر دیا جائے گا۔ دس بارہ برس قبل جب میٹرو بس منصوبہ لاہور میں بن رہا تھا تو کوئی دن نہیں جاتا تھا جب تحریک انصاف کی جانب سے اس منصوبے کے بخیے نہیں ادھیڑے جاتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ عوام کو میٹرو بسوں کی نہیں‘ تعلیم کی ضرورت ہے۔ اس وقت ایک کالم نگار نے لکھا تھا کہ میرا یہ کالم سنبھال لیں اور میرے الفاظ لکھ لیں کہ چند ہی برسوں میں یہ بسیں گوداموں میں گلنے سڑنے کے لیے پڑی ہوں گی اور اس کے اردگرد لگا جنگلا غریب لوگ اکھاڑ کر لے جائیں گے۔ آج بارہ برس گزر گئے اور نہ صر ف یہ کہ یہ منصوبہ کامیابی سے چل رہا ہے بلکہ خان صاحب نے یہ منصوبہ پشاور میں بھی شروع کیا۔ اب ان سے یہ پوچھا جانا چاہیے کہ اگر میٹرو بسوں سے قوموں کی تقدیریں نہیں بدلتیں تو پھر یہ منصوبہ اپنے ہاں کیوں اپنایا؟ اربوں روپے لگا کر یہ منصوبہ کے پی میں کیوں شروع کیا گیا؟
تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کے ووٹرز اور سپورٹرز کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ سیاستدان غلطیوں سے مبرا نہیں ہوتے۔ اس لیے ان کے پیچھے آنکھیں بند کر کے نہ چل پڑا کریں۔ یہی کچھ دیگر جماعتوں کو بھی کرنا چاہیے۔ اسی طرح آپ کے لیڈر راہ راست پر رہیں گے۔ وگرنہ کل کو وہ حکومت میں آ کر آپ یعنی اپنے ووٹرز یعنی عوام ہی کے خلاف اقدامات کرنا شروع کر دیں گے۔ تب جا کر احساس ہو گا کہ عوام کو شروع سے ہی غلط اور صحیح کی تمیز کرنی چاہیے تھی تاکہ لیڈر بھی پٹڑی پر رہیں۔ بدقسمتی سے ووٹرز کا کام صرف ووٹ دینے تک محدود کر دیا گیا ہے یا ایسا سمجھ لیا گیا ہے‘ حالانکہ ہرگز ایسا نہیں ہے۔ آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے آپ اپنی رائے کا اظہار سارا سال کر سکتے ہیں۔ ہر ایشو پر اور سیاستدانوں کے ہر اقدام پر اپنی مثبت یا منفی رائے دے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں ہو کیا رہا ہے؟ جو لوگ پی ٹی آئی کے سپورٹرز بنے بیٹھے ہیں وہ دن رات اپنے لیڈر کی تعریفوں کے پل باندھتے رہتے ہیں اور مخالفین کے خلاف پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔ آٹے میں نمک سے بھی کم تناسب ایسے لوگوں کا ہو گا جو خان صاحب کو جہلم جلسہ ملتوی کرنے کی تاکید کر رہے تھے۔ اگر ایسے لوگوں کا مشورہ مان لیا جاتا تو پی ٹی آئی کو جہلم جلسے میں خفت نہ اٹھانا پڑتی‘ نہ ہی یہ باتیں سننا پڑتیں کہ کروڑوں لوگ پانی میں ڈوب رہے ہیں اور انہیں جلسہ کرنے کی پڑی ہے۔ دوسری پارٹیوں میں بھی ایسی ہی صورتِ حال ہے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ جیسے ایشوز کو ذرا بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ ایسے مضامین بھی انتہائی کم لکھے جاتے ہیں جبکہ پروگرام تو ان ایشوز پر نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ ان پر ویسی ریٹنگ نہیں آتی جیسی سیاست کے گرما گرم ایشوز پر ملتی ہے۔ اگر آپ موسمیاتی تبدیلی پر کوئی مضمون لکھیں یا پروگرام کریں تو اسے پڑھنے اور دیکھنے میں لوگ دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ حالانکہ مغرب اور امریکہ میں یہی اصل ایشوز ہوتے ہیں۔ اب جب سیلاب نے قیامت ڈھا دی ہے تو سب کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ یہ کتنا بڑا مسئلہ ہے اور اگر اس پر زیادہ سے زیادہ بات کی جائے تو حکومتیں بھی اس کا اثر لیتی اور اس مناسبت سے اقدامات کرتی ہیں۔ لیکن یہاں سب کو سیاست‘ سیاست کھیلنے کی پڑی ہے۔ کہیں غداری کے الزامات کی فیکٹری لگی ہے‘ کہیں حقیقی آزادی کی جنگیں لڑی جا رہی ہیں‘ کہیں کسی کو ملک دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسے میں سیلاب اور دیگر آفات سے بچائو پر کون توجہ دے گا؟ پی ٹی آئی دیگر جماعتوں کو سیلاب سے تباہی کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے حالانکہ کے پی میں یہ جماعت لگ بھگ ایک دہائی سے برسر اقتدار ہے لیکن وہاں جو تباہی ہوئی‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ لبِ دریا جو ہوٹل بنائے گئے تھے‘ وہ کس کی اجازت سے بنے؟ صوبائی ٹورازم کون چلا رہا تھا؟ شاہراہوں کا محکمہ کس کے پاس تھا؟ کیا دریا کے سنگم پر تعمیرات کرنا جرم نہیں؟ کیا یہ عمارات رشوت اور سفارش کے بغیر ہی تعمیر ہو گئیں؟ اگر ان میں کچھ پرانی تعمیر شدہ عمارتیں تھیں تو انہیں گرایا اور ہٹایا کیوں نہیں گیا؟
سیاسی مخاصمت اب اتنی بڑھ چکی ہے کہ مخالفین سے بدلہ لینے کے چکر میں ملکی معیشت کو بھی دائو پر لگایا دیا گیا تھا۔ ایسے وقت میں جب آئی ایم ایف پروگرام منظوری کے آخری مراحل میں تھا‘ خیبر پختونخوا حکومت اس پروگرام کو ناکام بنانے کے لیے ایک خط لکھ دیتی ہے۔ اگر بالفرض آئی ایم ایف کی جانب سے قسط روک لی جاتی اور ملک ڈیفالٹ کر جاتا تو اس کی ذمہ داری کس پر آتی؟ یہ سیاست کی کون سی قسم ہے جو اس وقت ملک میں عام ہو چکی ہے؟ جب آپ حکومت میں تھے تو آپ کا آئی ایم ایف سے ریلیف مانگنا جائز تھا لیکن کوئی اور ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ اس سے ملک میں استحکام آ جائے گا اور اس کا کریڈٹ آپ کے بجائے کوئی اور لے جائے گا اور یہ شاید آپ برداشت نہیں کر سکتے؛ چنانچہ آپ اپنا کام جاری رکھیں‘ لوگوں کے گھر تباہ ہو جائیں‘ وہ سیلاب کا شکار ہو جائیں‘ سڑکوں پر آ جائیں‘ بالکل بھی پروا مت کریں۔ بس اقتدار کے حصول کی کوشش کریں اور عوام کی کوئی فکر نہ کریں۔ عوام کا کیا ہے‘ یہ پٹرول‘ پیاز‘ ٹماٹر کے چکروں سے باہر نکلیں گے تو کچھ سوچیں گے۔