"ACH" (space) message & send to 7575

نئی نسل پر تجربات نہ کریں

اس سال پنجاب میں نویں جماعت کے سالانہ امتحانات میں صرف اڑتالیس فیصد طلبہ کامیاب ہوئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں باون فیصد یعنی ڈیڑھ لاکھ سے زائد طلبہ فیل ہو گئے ہیں جبکہ گزشتہ برس کورونا کی وجہ سے تمام طلبہ کو پاس کر دیا گیا تھا بلکہ سات سو طلبہ ایسے تھے جنہوں نے پورے یعنی گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر حاصل کیے تھے۔گزشتہ سال صرف سائنس کے مضامین کا امتحان لیا گیا جس کی وجہ سے طلبہ کے پورے نمبر آئے جبکہ اس سال نہ صرف پورے نصاب کا امتحان لیا گیا بلکہ رٹا سسٹم ختم کرنے کے لیے پچیس فیصد سمجھ بوجھ والا نظام بھی لاگو کیا گیا جس کی وجہ سے رٹا لگوانے والے اداروں کا نتیجہ کافی خراب آیا۔کہا جا رہا ہے کہ اگلے سال کانسیپٹ سوالات کی شرح پچاس فیصد کر دی جائے گی جس سے نتائج اور بھی مختلف آ سکتے ہیں۔ یہ اس لیے ضروری سمجھا جا رہا ہے تاکہ طلبہ نصاب کو سمجھ کر پڑھیں اور تُکے لگانے سے پرہیز کریں۔ ہوتا یہ ہے کہ روایتی نظام کے باعث طلبہ میٹرک میں رٹا لگا کر پورے نمبر تو لے لیتے ہیں لیکن آگے انٹرمیڈیٹ اور پھر گریجوایشن اور ماسٹرز میں نصاب کو سمجھ نہیں پاتے اور وہاں جا کر ناکام ہو جاتے ہیں۔ اگر جیسے تیسے کر کے وہ پاس ہو جائیں‘ تب بھی عملی زندگی میں انہیں مسلسل مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ عملی زندگی میں رٹے کام نہیں آتے ۔
ہمارے اکثر تعلیمی اداروں میں جو پرانا نظام چلا آرہا ہے وہ قابل بچے نہیں بلکہ رٹا مارنے والی مشینیں پیدا کر رہا ہے۔ انہیں ہر حال میں بچے کے پورے نمبر چاہئیں، چاہے اسے مضمون کی سمجھ لگے یا نہ لگے‘ نمبر پورے آنے چاہئیں۔ اساتذہ پر بھی دبائو ہوتا ہے کہ ان کی کلاس میں زیادہ سے زیادہ بچوں کے پورے مارکس آنے چاہئیں بصورت دیگر انہیں یا تو کسی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یا پھر انکریمنٹس وغیرہ کی بندش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اکثر اساتذہ اس بھیڑ چال کے نظام میں مجبور ہو جاتے ہیں کہ کریں تو کیا کریں۔ اس سارے معاملے میں اصل نقصان بچوں اور معاشرے کا ہو رہا ہے۔جب بچوں کی بنیاد ہی مضبوط نہیں ہو گی تو وہ اعلیٰ تعلیم کیسے حاصل کریں گے کہ وہاں پر تو رٹے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جہاں تک نمبر لینے کی بات ہے تو ہر بچہ مختلف ذہن اور منفرد صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ ہر بچہ فرسٹ نہیں آ سکتا۔ ہر بچہ ایک جیسا پرفارم بھی نہیں کر سکتا۔ قدرت نے بچوں کو الگ الگ انداز میں مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے۔ بعض کی صلاحیتیں ذرا جلد سامنے آ جاتی ہیں اور بعض کی دیر سے لیکن کسی انسان کو بھی قدرت نے بے کار نہیں بنایا جبکہ ہمارے مروجہ سسٹم کے نزدیک ہر وہ بچہ بے کار ہے جو اعلیٰ گریڈز یا پوزیشنز نہیں لیتا۔ آپ آج کے کامیاب اور بڑے عہدوں پر موجود لوگوں کا بائیو ڈیٹا نکال کر دیکھ لیں‘ آپ کو ان میں اسّی فیصد بیک بینچرز ملیں گے جو اوسط نمبر لے کر پاس ہوئے اور آہستہ آہستہ اپنی منزل پرگامزن ہوتے چلے گئے۔ آپ اپنی کلاس کے ان ہم جماعت طالب علموں کو بھی یاد کر لیجئے جن کے کلاس میں سب سے زیادہ نمبرز آتے تھے‘ آج وہ کہاں ہیں اور ان ساتھیوں کو بھی دیکھ لیجئے جو عملی زندگی میں ساٹھ فیصد یا اس سے بھی کم نمبر لے پاتے تھے۔ آپ دیکھیں کہ اوسط نمبر لینے والے کئی طالب علم ٹاپ آنے والے طالب علموں سے آگے نکل چکے ہوں گے۔قدرت کا الگ نظام ہے اور اس نظام کو چیلنج کر کے ہم کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ہم بچوں کو گریڈز اور پوزیشنز کے نام پر دبائو اور جبر کا شکار کر دیتے ہیں اسی لیے بچے تعلیم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں شاید یہ تعلیم انہیں بطورِ سزا دی جا رہی ہے اور نجانے انہیں کب اس سے چھٹکارا ملے گا۔ آپ خود سوچیں جو طالب علم تعلیم کو سزا سمجھے گا‘ اس کی سوچ اور دماغ کے دریچے کیسے اور کیونکر کھلیں گے۔ بالآخر ایسا بچہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو بھی کھو بیٹھے گا۔
سمجھ بوجھ پر مبنی نظام پہلی جماعت ہی سے لاگو ہونا چاہیے تاکہ بچوں کی بنیاد مضبوط ہو جائے۔ دوسرا‘ بچوں کے سکول بیگ بھی ہلکے کیے جانے چاہئیں۔ اتنا بچوں کا اپنا وزن نہیں ہوتا جتنا وزنی بیگ وہ کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔طبی ماہرین کے مطابق اس سے بچوں کی جسمانی ساخت پر منفی اثر پڑتا ہے اوران کی کمر ‘ریڑھ کی ہڈی اور نشوونما متاثر ہو سکتی ہے۔ ہم نجانے کون سے زمانے میں رہ رہے ہیں۔ دنیا کہاں سے کہاں جا رہی ہے اور ہم آج تک یہ فیصلہ ہی نہیں کر سکے کہ بچوں کا نصاب کیسا ہونا چاہیے ۔ہر حکومت آتی ہے اور اپنے تئیں تجربات کر تی ہے۔سابق دور میں اردو کو وہاں بھی نصاب کا زبردستی حصہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی جہاں اس کی ضرورت نہیں تھی۔ پھر یہ بھی دیکھا جانا چاہیے تھا کہ بچے ان چیزوں کو کیسے ہضم کریں گے۔ایک بچہ جو پلے گروپ‘ نرسری‘ پریپ‘ ون‘ ٹو ‘ تھری کلاس میں سوائے اردو کے سارے مضامین انگریزی میں پڑھتا آ رہا ہے‘ اچانک چوتھی یا پانچویں جماعت میں معاشرتی علوم کو اردو میں کیسے پڑھے گا؟ وہ اتنے ثقیل اور مشکل الفاظ کو یکدم کیسے سمجھے گا؟ ہمارے ہاں مقننہ کا کتنے لوگوں کو پتا ہے؟ اگرچہ یہ اخبارات میں ایک مستعمل لفظ ہے مگر میں عام لوگوں کی بات کر رہا ہوں۔ آپ چوتھی جماعت کی سوشل سٹڈیز کی کتاب اٹھا کر دیکھیں‘ اس میں ایسے ایسے ثقیل الفاظ ملیں گے کہ الامان الحفیظ۔بچے رونے پٹنے والے ہو جاتے ہیں کہ وہ کریں تو کیاکریں۔ ایسے ایسے الفاظ انہیں یاد کرنے پڑتے ہیں جو زندگی میں شاذ ہی استعمال ہوتے ہوں۔ نصاب کو اردو میں کرنا مقصود تھا تو اسے نرسری یا اول جماعت سے لاگو کیا جاتا تاکہ بچوں کی اردو پر گرفت ابتدا ہی سے مضبوط ہو۔ اب کل کلاں کوئی یہ فیصلہ کر لے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مضامین بھی اردو میں پڑھائے جانے چاہئیں تو اس کی عقل پر ماتم کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے؟ سینکڑوں نہیں‘ معاشیات اور آئی ٹی کے ہزاروں ایسے الفاظ ہیں جن کو اردو کے قالب میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ اگر زبردستی ڈھال بھی لیا جائے تو کسی کے کچھ پلے نہیں پڑے گا۔ ویسے بھی جو سیاستدان اردو کے نام پر ہمیں بھٹکا رہے ہیں‘ خود وہ اور ان کے بچے انگریزی میڈیم سکولوں‘ کالجوں ہی کے پڑھے ہوئے ہیں اور بیرونِ ملک عیش و عشرت کی زندگیاں گزار رہے ہیں لیکن قوم کے بچوں کو وہ قومی زبان کی اہمیت سمجھا رہے ہیں۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں جو کرنسی رائج ہے وہ ڈالر ہے اور جو زبان وسیع پیمانے پر قبول کی جاتی ہے وہ انگریزی ہے۔ جو ان کے ساتھ نہیں چلے گا وہ رُل جائے گا۔آپ یہاں اردو بولیں‘ پڑھیں‘ لکھیں آپ کو کسی نے نہیں روکا لیکن یہ جو ننھے بچوں پر آپ تجربات کر رہے ہیں اور ان تجربات کی آڑ میں انہیں پڑھائی سے متنفر کر رہے ہیں‘ اس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اگر چین یا جاپان ہی کی مثال دینی ہے تو پھر چند ایک مضامین نہیں‘ سارا نصاب اپنی زبان میں کر دیں‘ حکومت‘ عدلیہ اور دیگر تمام اداروں کی دفتری زبان بھی قومی زبان ہی ہو،فرق تبھی پڑے گا۔ یہ کیا کہ آدھے تیتر آدھے بٹیر کی طرح کہیں اردو اور کہیں انگریزی پر لگا دیں۔ آپ بھارت کے تعلیمی نظام پر لاکھ تنقید کر سکتے ہیں لیکن وہاں آپ کو بچے فر فر انگریزی بولتے ملیں گے۔ بھارت کے متعدد ٹی وی چینلز انگریزی زبان میں ہیں حتیٰ کہ زیادہ تر تقاریب بھی انگریزی ہی میں ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے بھارتی امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں اہم کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جبکہ ہمارے گریجوایٹس بھی انگریزی میں ایک ڈھنگ کی درخواست نہیں لکھ سکتے۔ یہاں کی حکومتوں کے تجربات کی وجہ سے اہم بین الاقوامی کمپنیوں میں پاکستانی خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ایک تو یہاں کوئی حکومت اپنی پانچ سالہ مدت مکمل نہیں کرتی اور اگر کر بھی جائے تو اگلی حکومت آکر نئے سرے سے پہیہ ایجاد کرنے لگ جاتی ہے۔ بہتر ہو گا کہ نئی نسل پر تجربات بند کیے جائیں ‘اگر آپ کے پاس کوئی دیرپا اور ٹھوس پلاننگ ہے تو اسے ضرور اپنائیں‘ نہیں تو جیسا چل رہا ہے‘ ویسا ہی چلنے دیں اور ترقی کے کھوکھلے خواب دیکھنا‘ دکھانا بند کردیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں