اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے جیسے ترقی پذیر معاشروں میں طاقتور طبقہ عوام کا استحصال بھی کرتا ہے اور ان کی ہر کمزوری کا ناجائز فائدہ بھی اٹھاتا ہے لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ غریب کو جتنا زیادہ نچلے طبقات لوٹ رہے ہیں اتنا شاید طاقتور طبقہ بھی نہ لوٹتا ہو۔ چاہے وہ پھل‘ سبزی یا گوشت بیچنے والا ہو‘ دکاندار ہو‘ کوئی کار ڈیلر یا کوئی ٹھیکیدار‘ الا ماشاء اللہ ہر کوئی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے اور کوئی بھی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا جس میں دیہاڑی لگتی نظر آ رہی ہو۔یہ جو احتجاج ہوتے ہیں‘ سڑکوں پر ٹائر جلا کر ٹریفک روکی جاتی ہے اس میں بھی عوام ہی ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور انہی کے کندھوں پر بندوق رکھ کر اپنے مطالبات منوائے جاتے ہیں۔ یہ جو آئے روز موبائل فون پر انعامات نکلنے کی جھوٹی خوش خبریوں والے پیغامات آتے ہیں ان کے پیچھے بھی متوسط اور غریب طبقے کے افراد ہوتے ہیں جو پندرہ‘ بیس ہزار مہینہ کمانے والے کو بھی کنگلا کرنے سے باز نہیں آتے۔یہ اپنے جیسے لوگوں کو بھی نہیں بخشتے اور ان سے بھی کبھی موبائل بیلنس تو کبھی انعام حاصل کرنے کی فیس کے نام پر ہزاروں‘ لاکھوں روپے وصول کر لیتے ہیں۔ آج کل ایک اور فراڈ یہ چلا ہوا ہے کہ آپ کو کسی پولیس والے کی کال آتی ہے کہ آپ کے بیٹے یا بھائی یا فلاں رشتے دار کو ہم نے فلاں جرم میں گرفتار کیا ہے۔ وہ آپ کو آپ کے رشتے دار کا نام وغیرہ بھی بتاتے ہیں‘ کچھ کیسز میں تو ان کے پاس آپ کے گھر کے ایڈریس اور شناختی کارڈ کی معلومات بھی ہوتی ہیں اس لیے ایک مرتبہ تو لوگ یہ سب کچھ سچ سمجھ لیتے ہیں اور بے شمار لوگ ایسے فراڈیوں کے ہاتھوں لٹ بھی چکے ہیں۔ یہ فراڈیے پولیس والے بن کر کال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کے بیٹے یا بھائی نے فلاں شخص سے پیسے چھینے ہیں اور اس کے ساتھ اس کا دوست تھا جو فرار ہو گیا‘ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم اس کے خلاف پرچہ نہ کاٹیں تو فلاں نمبر پر اُتنے پیسے بھجوا دیں جو اس نے چھینے تھے‘ چند منٹوں میں پیسے آ گئے تو ہم اسے چھوڑدیں گے نہیں تو پھر تھانہ، کچہری، حوالات اور جیل تک لمبا مقدمہ بھگتنا پڑے گا۔ لوگ مقدمہ بازی سے بچنے کے لیے فوری طور پر پیسے ارینج کر کے ان لوگوں کو ٹرانسفر کرتے ہیں اور بعد میں پتا چلتا ہے کہ یہ سب کچھ فراڈ تھا۔
فراڈ کی ایک اور قسم بینکوں کا جعلی نمائندہ بن کر کال کرنا ہے۔ ایسی ہی ایک کال مجھے بھی موصول ہوئی تھی اور کال کرنے والا شخص میرا بینک اکائونٹ نمبر‘ میرا شناختی کارڈ نمبر تک بالکل ٹھیک بتا رہا تھا۔ اسے نہ صرف میرا اکائونٹ بیلنس معلوم تھا بلکہ آخری ٹرانزیکشن تک کا علم تھا۔ میں نے جب اس سے چند دیگر سوالات پوچھے تو اس کی آواز لڑکھڑا گئی‘ وگرنہ جس طرح وہ تمام معلومات بالکل صحیح بتا رہا تھا اس سے یہی لگتا تھا کہ بینک کا نمائندہ ہی فون کر رہا ہے۔ اس طرح کے فراڈ کرنے والوں کی ایک مشترکہ کمزور ی ہوتی ہے۔ چاہے وہ انعام والا گینگ ہو‘ بینک کا جعلی نمائندہ ہو یا جعلی پولیس والا‘ یہ سب افراد انتہائی کم یا معمولی پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور ان کی آواز، لہجے اور الفاظ بالخصوص انگریزی الفاظ کی ادائیگی سے سارا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔پھر یہ لوگ حقیقی نمائندوں کے برعکس دھمکی آمیز انداز میں بات کرتے ہیں جبکہ بینک کے نمائندگان‘ اول تو کال ہی نہیں کرتے یا بہت کم‘ کسی ضرورت کے مطابق کال کرتے بھی ہیں تو زیادہ تر کیسز میں وہ یہی کہتے ہیں کہ اس مسئلے کے حل کے لیے اپنی متعلقہ برانچ سے رابطہ کریں۔ دوسری جانب اگر صارفین انہیں کال کریں تو وہ انتہائی تحمل اور شائستہ انداز میں بات کرتے ہیں چاہے آپ ان کے ساتھ جتنی مرضی گرما گرمی کر لیں‘ وہ شائستگی کے ساتھ آپ کی باتوں کا جواب دیں گے کیونکہ ان کی تربیت انہی خطوط پر ہوتی ہے اور انہیں علم ہوتا ہے کہ یہ تمام کالز ریکارڈ کی جا رہی ہیں۔ اس کے برعکس فراڈ کرنے والے جب بھی کال کریں گے تو یہی کہیں گے کہ اگر ابھی آپ نے یہ کام نہ کیا، یا فلاں کوڈ نہ بتایا تو آپ کا اکائونٹ بند ہو جائے گا۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ محض فون کال پر کسی کا اکائونٹ بند نہیں ہو سکتا۔ اس کے کچھ ضابطے ہوتے ہیں اور ایک مخصوص مدت درکار ہوتی ہے۔
ہم اس لحاظ سے بدقسمت واقع ہوئے ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی بنانا تو دُور کی بات‘ جو موجود ہے اسے بھی اچھے طریقے سے استعمال کرنے کو تیار نہیں بلکہ اُلٹا اسے غلط طریقے سے استعمال میں لا کر زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی آن لائن ٹیکسی سروس کا رواج اور استعمال عام ہو چکا ہے اور بے شمار افراد اسے روزانہ استعمال کرتے ہیں۔ شیطان صفت دماغ اس سروس کو عوام کو لوٹنے کیلئے استعمال نہ کریں‘ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور میں ایک طالبہ کے ساتھ ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔ اس بچی نے رائیڈ بک کروائی اور ابتدائی طور پر کرایہ چار سو روپے کے قریب ظاہر ہو رہا تھا۔ اس نے رائیڈ اوکے کر دی مگر جب گاڑی آئی تو اس کا ماڈل اور کمپنی وہ نہیں تھی جو اسے موبائل پر نظر آ رہی تھی بلکہ ڈرائیور بھی کوئی اور تھا۔ بچی نے استفسار کیا تو ڈرائیور نے کمپنی کا میسج دکھایا کہ وہ گاڑی کسی اور رائیڈ پر بُک ہو گئی ہے اس لیے یہ گاڑی آئی ہے۔ خیر بچی اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ گئی تو ڈرائیور نے کرایہ مانگا جس کا سن کر اس بچی کے ہوش اُڑ گئے۔ صرف بارہ منٹ کی ڈرائیو کے 2700 روپے مانگے جا رہے تھے، اُس نے کہا کہ اس رائیڈ کے اتنے پیسے تو نہیں بن سکتے جس پر ڈرائیور نے اسے اپنے موبائل فون کی سکرین دکھائی جس پر ستائیس سو روپے ہی کرایہ نظر آ رہا تھا۔ بچی کے پاس پانچ ہزار کا نوٹ تھا، ڈرائیور نے وہ نوٹ پکڑا اور کہا کہ اس کے پاس فی الوقت چینج نہیں ہے‘ لہٰذا وہ باقی 2300 روپے اس کے آن لائن ایپ اکائونٹ میں ٹرانسفر کر دے گا اور اس نے ایسا اپنی موبائل ایپ پر کر کے بھی دکھایا؛ تاہم اس کا میسج بچی کو فوری طور پر نہیں مل سکا، چونکہ عید میلاد النبی کی وجہ سے موبائل سروس اور انٹرنیٹ سستی کا شکار تھے‘ لہٰذا اس بچی نے زیادہ توجہ نہیں دی کہ اسے میسج نہیں ملا۔ وہ بچی اپنے گھر داخل ہوئی اور تھوڑی دیر بعد جب انٹرنیٹ ٹھیک ہو گیاتواس کے موبائل پر رائیڈ سروس کا میسج آیا کہ آپ کا کرایہ چار سو روپے بنا ہے۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ میسج میں گاڑی کا ماڈل اور نمبر مختلف تھا اور باقی کی رقم بھی اس کو نہیں ملی تھی۔ وہ سمجھ گئی کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ اس نے فوری طور پر کمپنی سے رابطہ کیا اور اپنی شکایت درج کرائی مگر کسی قسم کا کوئی تعاون نہیں کیا گیا۔ اس بچی کے پاس ہر قسم کے سکرین شارٹس محفوظ تھے۔ اس نے ڈرائیور کے نمبر پر بھی کال کی لیکن وہ نمبر مسلسل بند مل رہا تھا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ کئی دیگر لڑکیوں کے ساتھ بھی ایسا ہو چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اندر کے کچھ لوگ اس میں ملوث ہیں جو خواتین صارفین کو آسان ہدف سمجھ کر شکار کرتے ہیں۔ممکن ہے ان لوگوں نے اصل سافٹ ویئر سے ملتا جلتا کوئی سافٹ ویئر بنا لیا ہو اور اس کے سکرین شارٹس دکھا کر اضافی رقم بٹور لیتے ہوں تاکہ صارفین کو شک نہ ہو سکے کہ ان کے ساتھ کوئی فراڈ ہو رہا ہے۔
یہ ممکنات کا ملک ہے ۔ یہاں ہر کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں درجنوں ڈاکے مارنے والا باعزت بری ہو سکتا اور دھنیا چرانے والا سالوں تک جیل میں قید رہ سکتا ہے۔جسے قانون کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانا آتا ہے‘ وہ کھل کر کھیلتا ہے‘ قرضے لے کر ری شیڈول اور معاف کرانا جانتا ہے‘ اپنا نقصان خود ہی کر کے انشورنس کلیم کر سکتا ہے۔ اس معاشرے میں انہی لوگوں کی چاندی ہے جو اس طرح کی دو نمبریوں کے ماہر ہیں۔ ایسے لوگ ہر حکومت میں‘ ہر جگہ پر اپنی گیم سیٹ کرناجانتے ہیں اس لیے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ذرائع ابلاغ میں زیادہ وقت صرف اور صرف سیاست کی بات ہوتی ہے۔ لوگ بھی مسالا دار لیکس اور چٹ پٹی خبریں سننا چاہتے ہیں اسی لیے انہیں بھی یہی کچھ بھاتا ہے۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے ہم کسی جنگل میں رہ رہے ہیں اور ہر جانور اپنے سے کمزور کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ ہم اسی میں مگن رہتے ہیں کہ اسی ملبے سے ہم اپنی تعمیرِ نو کریں گے۔ یہ باتیں صرف دل کے بہلانے کو ہی اچھی لگتی ہیں ۔ بقول غالبؔ :
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے