کیا ہر دو منٹ بعد موبائل فون اٹھانا اور اس پر انگلیاں چلانا ضروری ہے؟ یہ سوال ہر اُس شخص کو خود سے پوچھنا چاہیے جو سمارٹ فون رکھتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق امریکہ میں ایک شخص اوسطاً روزانہ 2617مرتبہ موبائل فون پر انگلیاں چلاتا ہے۔ اگر امریکہ جیسے مصروف ملک کا یہ حال ہے تو پاکستان میں تو یہ تعداد دو گنا‘ یعنی پانچ ہزار سے بھی زائد ہو گی کیونکہ یہاں لوگ مصروفیت کے باوجود بھی موبائل فون سرفنگ اور گیمیں کھیلنے سے باز نہیں آتے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی ایک سٹڈی کے مطابق جب ایک شخص موبائل فون آن کر کے بلاضرورت سوشل میڈیا استعمال کرتا ہے تو اسے واپس اپنے کام پر فوکس کرنے کے لیے کم از کم 23 منٹ‘ 15 سیکنڈ لگتے ہیں۔ یعنی اس شخص نے جووقت موبائل فون پر ضائع کیا‘ سو کیا لیکن اس کے بعد لگ بھگ تئیس منٹ مزید ضائع ہوئے۔کسی نے سچ کہا ہے کہ موبائل فون آج کل گویا جسم کا ایک عضو بن گیا ہے۔ صبح بستر پر بیدار ہونے سے لے کر رات کو سونے تک کے دوران اگر کسی وقت کچھ دیر کے لیے آپ کو اپنا موبائل فون نہ ملے تو جسم میں ایک بے چینی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ اب تو بہت سے لوگ موبائل فون باتھ روم میں بھی لے جانے لگے ہیں۔ سنگاپور میں ایک کنسٹرکشن کمپنی نے باتھ روم بھی ایسے ڈیزائن کرنا شروع کر دیے ہیں کہ جن میں آپ شیو‘ ٹوتھ پیسٹ‘ نہانے حتیٰ کہ دیگر کاموں کے دوران بھی سامنے دیوار پر موبائل فون کو نصب کر کے اپنی ان مصروفیات کے دوران بھی اس سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔یعنی ایک جگہ جو اس 'شر‘ سے محفوظ رہ گئی تھی‘ اب وہاں بھی یہ بلا پیچھا کرتی ہوئی پہنچ گئی ہے۔
سویڈن کے ایک کمپیوٹر سائنس پروفیسر کے مطابق موبائل فون پر بہت زیادہ سکرولنگ سے انسان کی یادداشت متاثر ہو سکتی ہے۔ انسانی ذہن چیزوں کو دیکھتے ہوئے انہیں اپنے دماغ میں محفوظ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن جب کم وقت میں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ مختلف موضوعات پر مبنی چیزیں موبائل فون کی سکرین پر دیکھی جائیں تو دماغ کی میموری سٹور کرنے کی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں دماغ کو چیزوں کو محفوظ کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ تیزی کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ دماغی کمزوری کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ کتاب کا معاملہ مختلف ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے انسان کی نظر سکرین پر نہیں ہوتی اور اس کی آنکھوں کو اس طرح زور بھی نہیں لگانا پڑتا۔ اسی طرح دماغ کے سیلز میں کتاب کے صفحات سے نکلی ہوئی چیزیں یا معلومات بہ آسانی محفوظ بھی ہو جاتی ہیں۔ آپ آدھا گھنٹہ فیس بک‘ ٹویٹر یا سوشل میڈیا کے کسی اور پلیٹ فارم کو مسلسل استعمال کریں‘ آپ کے سامنے درجنوں‘ سینکڑوں وڈیوز آئیں گی‘ آپ کچھ کو پورا دیکھیں گے اور کچھ کو محض چند سیکنڈز کے لیے‘ لیکن آدھے گھنٹے بعد جب آپ موبائل فون سے نظریں ہٹا لیں گے تو ایک آدھ وڈیو کا مواد ہی آپ کی یادداشت میں محفوظ ہو گا او وہ بھی وقت کے ساتھ چند منٹوں‘ گھنٹوں اور دنوں میں غائب ہو جائے گا۔ دوسری جانب اگر آپ نے اپنے بچپن میں کوئی کتاب اچھے طریقے سے ایک‘ دو مرتبہ پڑھی تھی تو کئی سالوں‘ دہائیوں کے بعد بھی اس کے بیشتر حصے آپ کے حافظے میں محفوظ ہوں گے۔ سکرین اور کاغذ کی تاثیر میں بہت فرق ہے‘ اس لیے حتی المقدور کوشش یہی ہونی چاہیے کہ جو معلومات یا مواد کتاب کی صورت میں میسر ہے اسے ترجیح دی جائے۔
سوال یہ ہے کہ انسان کو زندگی میں کتنی معلومات درکار ہیں۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ اس کا پیٹ کسی چیز سے نہیں بھرتا۔ اسے زمین کا ایک ٹکڑا مل جائے تو دوسرے کی تمنا کرتا ہے۔ ایک ترقی یافتہ ملک کی شہریت مل جائے تو دوسرے‘ تیسرے ملک کا پاسپورٹ بھی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لالچ اور طمع ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ موبائل فون کے ''سمارٹ‘‘ ہوجانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں موجود ہر چیز کو ہر وقت دیکھا جائے۔ اب ایک کام اور شروع ہو گیا ہے اور وہ یہ کہ جب کوئی بڑی خبر آتی ہے‘ ملک میں کوئی سانحہ پیش آتا ہے یا کوئی بریکنگ نیوز چلتی ہے تو اس سے متعلقہ مواد بھی تیزی کے ساتھ تیار ہونے اور سامنے آنے لگتا ہے۔ جیسے کسی سیاسی جماعت کا لانگ مارچ یا کسی ملک میں طیارے کا حادثہ۔ کچھ افراد بلکہ اکثریت ایسے میں مسلسل نئی اور مختلف معلومات کی تلاش میں لگ جاتی ہے۔ وہ مختلف ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پیجز پر جاتے ہیں اور ایسی معلومات سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں جو اس سے پہلے انہیں کسی اور جگہ نہ ملی ہوں۔یہ غیر ضروری تجسس اور معلومات کا غیر ضروری حصول بھی انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ جب معلومات کا ذریعہ صرف اخبارات اور رسائل و جرائد ہوتے تھے تو اس وقت ان کی اشاعت میں تمام ضروری معلومات ایک جگہ دستیاب ہوتی تھیں۔ اخبارات بھی اس وقت گنتی کے چند ہوتے تھے لیکن اب جس کے پاس موبائل فون ہے وہ خود چلتا پھرتا اخبار ہے۔ روزانہ سینکڑوں‘ ہزاروں کی تعداد میں یوٹیوبرز جنم لے رہے ہیں۔ ہر کسی کو اپنا مسالا دار منجن بیچنا ہے۔ ہر کسی کے تئیں اس کے پاس دوسروں سے مختلف‘ منفرد اور انوکھا مواد اور بہتر معلومات ہیں اور کسی نے ان معلومات کو اس سے حاصل نہ کیا تو وہ علم کی بہت بڑی دولت سے محروم رہ جائے گا۔ صرف پاکستان کی بات کریں تو پانچ سے چھ کروڑ افراد کے پاس سمارٹ فون ہے اور زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو ہر وقت نت نئی وڈیوز کی تلاش میں رہتے ہیں اور درجنوں سوشل میڈیا چینلز کو سبسکرائب کر دیتے ہیں۔انہیں ہر گھنٹے‘ آدھ گھنٹے بعد نئی وڈیوز کے نوٹیفکیشن موصول ہوتے رہتے ہیں جنہیں وہ دیکھ دیکھ کر اپنا سارا دن اور تمام قیمتی وقت برباد کر دیتے ہیں۔
اس سارے منظر نامے میں ایک نقصان آنکھوں کا بھی ہو رہا ہے۔ پرانے لوگ کتابیں پڑھتے تھے‘ صبح جلدی اٹھتے تھے‘ گھاس پر چلتے اور سبزے کے نظارے لیتے تھے ان کی آنکھیں ستر‘ اسی سال کی عمر میں بھی کمزور نہیں ہوتی تھیں‘ لیکن آج پانچ‘ چھ سال کے بچوں کو بھی موٹی موٹی عینکیں لگ رہی ہیں۔وجہ وہی ہے کہ والدین سے بچہ سنبھالا نہیں جاتا تو وہ اس کے آگے موبائل رکھ کر کارٹون لگا دیتے ہیں۔ اب بچہ کھانا بھی کھاتا ہے تو اسے کارٹونز کی ضرورت ہوتی ہے‘ والدین کی نہیں۔گویا نشے کی ایک ایسی عادت نئی نسل کے خون میں رچ بس رہی ہے جس سے پیچھا چھڑانا شاید دیگر نشہ آور اشیا سے زیادہ مشکل ہو چکا ہے۔حالت یہ ہو گئی ہے کہ جمعہ کے خطبے کے دوران اور اس کے علاوہ بھی مسجد میں لوگ خطبہ سننے یا تسبیحات کے بجائے موبائل فون سکرولنگ میں مصروف نظر آنے لگے ہیں۔اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ خود کو چند اصولوں کا پابند بنایا جائے۔ گھروں میں موبائل فون کے ستعمال کا شیڈول بنایا جائے۔ رات کو جب سب گھر میں موجود ہوں تو سات سے نو بجے تک تمام موبائل فون کسی الماری میں رکھ دیے جائیں اور گھر کے افراد مل بیٹھ کر ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کریں اور ایک دوسرے کے مسائل سنیں۔رات کو موبائل فون سرہانے سے دور رکھیں۔ موبائل سے تمام غیرضروری ایپس اَن انسٹال کر دیں۔ انتہائی ضروری کے علاوہ سبھی نوٹیفکیشنز بند کر دیں۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کی پوسٹس پر بلاوجہ کمنٹس کرنے اور بحثیں کرنے سے باز رہیں۔بلاوجہ تجسس اور اضطراب کا شکار نہ ہوں بلکہ اس وقت کو ذکر اذکار‘ قرآنِ مجید کی تلاوت‘ اس کو ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھنے میں صرف کریں۔ سب سے اہم یہ کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے موبائل سکرین اور سکرولنگ کے نشے سے دور رہیں تو اس کی پہل اپنی ذات سے کریں کیونکہ بچے وہی کچھ کرتے ہیں جو وہ والدین کو کرتا دیکھتے ہیں۔جس طرح کچھ پیٹو لوگوں کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ کھانا زندگی کے لیے ہے زندگی کھانے کے لیے نہیں‘ تو اسی طرح اگر یہ بات خود کو اور اہلِ خانہ کو سمجھائیں گے کہ موبائل فون ہمارے لیے بنا ہے ہم موبائل فون کے لیے نہیں بنے تو زندگی قدرے آسان اور آسودہ ہو جائے گی۔