جتنی ہماری قوم نڈر اور بے خوف ہے شاید ہی دنیا کی کوئی اور قوم ہو۔ اب اسے نہ زلزلے ڈرا سکتے ہیں‘ نہ خوفناک وبائیں اور نہ ہی کچھ اور۔ ویسے تو سب کہیں گے کہ پاکستان کلمہ کی بنیاد پر بنا اور اس ملک کو ہم اسلام کا قلعہ بنائیں گے لیکن جس طرح سے یہاں ذخیرہ اندوزی‘ دھوکا دہی اور فریب کاری سے سب مال بنانے میں لگے ہیں‘ اس کے بارے میں کسی کو فکرہے نہ پروا۔ سب کو مال جمع کرنے کی ہوس نے اندھا کر رکھا ہے۔ اس وقت ملکی معیشت کی ابتری کی جہاں دیگر کئی وجوہ ہیں وہیں ایک وجہ یہ ہے کہ غیر یقینی کی صورتِ حال کا فائدہ اٹھا کر ہر کوئی اپنی تجوری بھرنا چاہتا ہے‘ بھلے اس سے کسی کی حق تلفی ہی کیوں نہ ہو رہی ہو۔ ترکیہ اور شام میں زلزلہ آیا، اب تک کی اطلاعات کے مطابق لگ بھگ سینتیس ہزار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ ابھی تک ہزاروں افراد ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ہزاروں عمارتیں ملیا میٹ ہو گئیں‘ مختلف جگہوں پر زمین تک پھٹ گئی اور یہ سارے مناظر وڈیوز کی شکل میں کئی دن سے ہماری نظروں کے سامنے گھوم رہے ہیں لیکن مجال ہے کسی کو رتی بھر بھی احساس ہوا ہو کہ زندگی اتنی بے وفا اور ایسی محدود بھی ہو سکتی ہے۔ ہر کسی نے سمجھ رکھا ہے کہ وہ ستر‘ اسّی سال تک جئے گا اور اس دوران وہ جو کچھ کرے گا‘ اس کے بارے میں اس سے کوئی سوال ہو گا نہ پوچھ گچھ۔
جس 'سائنسدان‘ نے ترکیہ، لبنان، شام اور یونان ریجن میں 7 شدت کا زلزلہ آنے کا امکان ظاہر کیا تھا‘ اسی نے چند دیگر ممالک کے بارے میں بھی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ وہاں بھی شدید زلزلہ آ سکتا ہے اور ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے لیکن مجال ہے کسی کو پروا ہو۔ (واضح رہے کہ سائنسی طور پر زلزے کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی، یعنی یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ فلاں دن فلاں جگہ پر اتنی شدت کا زلزلہ آئے گا، جس طرح بارش اور طوفانوں وغیرہ کی پیش گوئی کی جاتی ہے؛ البتہ زلزلے کے خدشات ضرور ظاہر کیے جا سکتے ہیں جو زیادہ تر طویل المیعاد یا غیر معینہ ہوتے ہیں۔ مثلاً سائنس دان زمین کی پلیٹوں کی نقل و حرکت دیکھ کر یہ بتا سکتے ہیں کہ فلاں ریجن میں اتنی شدت کے زلزلے کا امکان ہے‘ لیکن یہ زلزلہ کب آئے گا‘ اس کا حقیقی وقت وہ نہیں بتا سکتے) پاکستان کا دو تہائی سے زائد رقبہ فالٹ لائنز پر ہے‘ جہاں کسی بھی وقت شدید نوعیت کا زلزلہ آ سکتا ہے، لیکن اس کے باوجود جس کا جتنا بس چلتا ہے‘ وہ اتنی ہی بڑی دیہاڑی لگا رہا ہے۔ چاہے وہ پھل فروش ہو یا پراپرٹی ایجنٹ۔ ہمارے ہاں زیادہ تر کاروباری طبقہ جھوٹ کے ذریعے مال کی خرید و فروخت کو جائز خیال کرتا ہے۔ گاڑی خریدنے چلے جائیں تو دس‘ دس سال پرانی گاڑی کا میٹر پیچھے کر کے یہ بتاتے ہیں کہ یہ صرف بیس ہزار کلومیٹر ہی چلی ہے۔ جب ان سے کہا جائے کہ اتنی گاڑی تو ایک سال میں چل جاتی ہے تو اپنے جھوٹ کو چھپانے کے لیے مزید جھوٹ بولیں گے کہ مالک بیرونِ ملک چلا گیا تھا، گاڑی زیادہ نہیں چلتی تھی، وغیرہ وغیرہ۔
اس وقت اشیا کی قیمتیں اس تیزی سے بڑھ رہی ہیں کہ ملکی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اسی لیے سارے بہتی گنگا میں صرف ہاتھ نہیں دھو رہے بلکہ نہانے میں لگے ہیں۔ انہیں پتا ہے کہ عوام بھی وہی چیز زیادہ خریدتے ہیں جو مہنگی ہو رہی ہو‘ ویسے بھی انہوں نے سوال یا احتجاج تو کرنا نہیں اور انہیں یہ بھی یقین ہے کہ بالفرض اگر احتجاج ہوتا بھی ہے تو کسی نے اس کا نوٹس نہیں لینا۔ چند روز قبل لاہور میں جوہر ٹائون کے علاقے میں ایک مرکزی شاہراہ شق ہو گئی اور ایک گاڑی اس میں جا گری۔ مین روڈ پر بیس‘ پچیس فٹ کا شگاف پڑ گیا لیکن عوام اور ہمارے ادارے اسے معمول کا واقعہ یا قدرت کی مرضی سمجھ کر بھول گئے کہ یہ سب تو ہوتا رہتا ہے۔ یہ واقعہ لندن، نیویارک، ٹوکیو یا کسی اور ترقی یافتہ شہر میں ہوا ہوتا تو ہم دیکھتے کہ سڑک بنانے والے ٹھیکیدار کیسے سزا سے بچتے۔ جو گاڑی اس اچانک نمودار ہونے والے گڑھے میں گری تھی‘ اس میں ایک خاتون سوار تھی‘ جسے شدید چوٹیں آئیں‘ پوری گاڑی لگ بھگ تباہ ہو گئی لیکن کسی کے لیے بھی یہ غیرمعمولی خبر نہیں۔ بدقسمتی سے ہم ہر واقعے اور سانحے کو معمول کی کارروائی سمجھنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ سب کا خون سفید ہو گیا ہے۔ ہم اپنے بڑے شہروں کے دس فیصد حصے کو لش پش کر کے یہ سمجھ بیٹھے ہیں یہ شہر ترقی یافتہ بن گئے ہیں۔ کوئی حکمران آتا ہے تو پیرس بنانے کے دعوے کرتا ہے‘ کوئی آتا ہے تو وہ لندن کے برابر لا کھڑا کرنے کے دعویٰ کرتا ہے‘ پیرس یا لندن محض اپنی ترقی کی وجہ سے مشہور نہیں۔ وہاں قانون و آئین کی جو سربلندی ہے‘ بلاتفریق قانون کا جو ڈنڈا چلتا ہے‘ کوئی بھی اسے یہاں لاگو کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ان کی اپنی گردنیں پھنستی ہیں۔ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ کچھ چالاکیوں سے‘ کچھ حربوں سے وہ بچ جائے گا۔
کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر کسی کے ساتھ کچھ غلط ہوا ہے تو اس میں اس کی اپنی بھی غلطی ہو گی۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کسی کو معاف کرنے کو تیار نہیں۔ آپ وہاں اگر یہ بھی لکھ دیں کہ ہمیں جھوٹ نہیں بولنا چاہیے‘ بجلی چوری کرنا جرم ہے‘ ذخیرہ اندوزی سے باز آ جانا چاہیے تو لوگ اس کے جواب میں بھی دور کی کوڑی لے آئیں گے۔ کوئی کہے گا کہ اگر حکمران جھوٹ بولتے ہیں تو عوام پر ہی کیوں پابندی ہے؟ پہلے انہیں جا کر سمجھائیں‘ پھر ہمیں سکھائیں۔ ایک شخص اٹھے گا اور بجلی چوری کے حق میں دلائل پیش کرنے لگے گا کہ اشرافیہ اور حکمرانوں نے جان بوجھ کے بجلی مہنگی کی‘ وہ خود بل بھی نہیں دیتے اور عوام کو کہتے ہیں کہ بل دو۔ کوئی کہے گا کہ ہم آئی ایم ایف کے غلام نہیں جو اس کی ہر بات مانتے رہیں۔ ذخیرہ اندوز کہیں گے کہ ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں‘ ہم نے بھی گزارہ کرنا ہے‘ حکومت تو ہمیں سپورٹ دیتی نہیں‘ ایسے میں ہم کس طرح اپنا رزق کمائیں۔ الغرض ہر کوئی اچھی سے اچھی بات میں بھی ایسے ایسے دلائل لے کر آے گا کہ آپ یا تو لاجواب ہو جائیں گے یا پھر لامتناہی بحث میں پڑے رہیں گے۔ آپ ان سے کہیں گے کہ خواہ کچھ بھی ہو‘ حرام رزق حرام ہی رہتا ہے‘ وہ کہیں گے کہ ہم اپنے مستقبل کے لیے کیوں نہ کچھ بچائیں۔ کل کو کیا حالات ہوں کچھ علم نہیں‘ پھر سے کورونا آ جائے یا کوئی اور عذاب نازل ہو جائے تو اس میں کیسے گزارا کریں گے؟ یعنی ان کے پاس اپنے حرام کو حلال ثابت کرنے کے لیے بھی دلائل موجود ہیں۔ یہ تو محض ایک طبقہ ہے‘ عام لوگوں کو بھی دوسرے لوگوں کا کوئی خیال نہیں۔
شادی کی کسی تقریب میں چلے جائیں تو ایسے لگے گا جیسے ہر کوئی پہلی یا آخری مرتبہ کھانا کھا رہا ہے۔ بعض لوگ تو تقریبات میں آدھی آدھی دیگ اپنی پلیٹوں میں انڈیل لیتے ہیں‘ ان کا پیٹ تو چند لقموں سے بھر جائے گا لیکن دل نہیں بھرے گا۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ کھانا ضائع ہوگا، اگر ہم اعتدال سے کام لیں تو مزید کئی لوگوں کا پیٹ بھر سکتے ہیں۔ قریب سوا مہینے بعد رمضان المبارک کا آغاز ہو جائے گا‘ ایسے میں جن رویوں کا مظاہرہ ہو گا‘ وہ مناظر بھی دیکھنے والے ہوں گے۔ ایک روزہ دار دوسرے روزہ دار کو کھجور اور دیگر کھانے پینے کی اشیا دو‘ تین گنا مہنگی کر کے بیچے گا۔
اب تو یقین ہو چلا ہے کہ یہ معاشرہ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ عوام سے کہیں تو وہ کہتے ہیں کہ پہلے حکمرانوں کو ٹھیک ہونا چاہیے۔ خواہش ہر کسی کی یہی ہے کہ وہ صبح اٹھے تو یہ ملک جاپان یا جرمنی بنا ہو لیکن جاپان اور جرمنی کے لوگوں والی تمیز یا تہذیب سے وہ کوسوں دور بھاگتے ہیں۔ حالانکہ ہر کام میں پیسے نہیں لگتے‘ سڑک پر کچرا نہ پھینکنے سے اگر شہر صاف دکھائی دے گا تو اس میں کس کا فائدہ ہے؟ اگر حکومت سرعام کچرا پھینکنے پر جرمانہ عائد کر دے تو سب یہی کہیں گے کہ پہلے کیا کم ٹیکسز تھے جو مزید لگا دیے ہیں۔ ایک قوم بننے کو کوئی تیار نہیں‘ جس کیلئے پیسے نہیں‘ محض تھوڑی سی فہم و فراست درکار ہے۔ یہی لوگ جب مغربی ممالک کے ایئر پورٹس پر اترتے ہیں تو قانون پسند شہری بن جاتے ہیں اور وہاں کے سسٹم کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے مگر جیسے ہی واپس وطن آتے ہیں‘ سب سے پہلے انہی عادتوں کو ترک کرتے ہیں جن پر بیرونِ ملک دل و جان سے عمل کرتے ہیں۔ ہمارا یہی دہرا معیار ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔