موسمیاتی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں اور موسمی رجحان ''ایل نینو‘‘ کی متوقع واپسی کی وجہ سے دنیا میں گرمی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور 2023ء یا 2024ء میں گرمی کے نئے ریکارڈ قائم ہو سکتے ہیں۔ ایل نینو کے دوران خطِ استوا کے ساتھ مغرب سے چلنے والی ہوائیں سست ہو جاتی ہیں اور گرم پانی مشرق کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے جس سے سطح سمندر کا گرم درجہ حرارت پیدا ہو جاتا ہے۔ موسموں کے عالمی ریکارڈ کے مطابق اب تک کا دنیا کا گرم ترین سال 2016ء رہا ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں عالمی سطح پر گرمی کی شدت میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ دنیا میں پہلے ہی گرمی کی لہر جاری ہے اور ایل نینو سے دنیا کو شدید گرمی کی لہروں‘ خشک سالی اور جنگل کی آگ کے خطرے کا بھی سامنا کرنا ہوگا۔ موسمیاتی ماہرین نے مزید کہا کہ اگر ایل نینو شدت اختیار کرتا ہے تو 2023ء ایسا سال ہو سکتا ہے جو 2016ء کی گرمی کے ریکارڈ بھی توڑ دے گا۔ 2022ء یورپ کے لیے گرم ترین سال رہا۔ موسمیاتی تبدیلی کے باعث گزشتہ برس ہونے والی شدید بارشوں نے پاکستان میں تباہ کن سیلاب پیدا کیے۔ فروری میں انٹارکٹک سمندری برف کی سطح ریکارڈ کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ دنیا کا اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے میں اب 1.2سینٹی گریڈ زیادہ ہے۔
متذکرہ بالا حقائق بہت زیادہ الارمنگ ہیں کیونکہ موسم کی غیرمعمولی تبدیلی سے خوراک کی کمی‘ بیماریوں‘ قدرتی وسائل میں کمی سمیت درجنوں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی بات کریں تو اس کے مختلف حصوں میں پہلے ہی پانی‘ گیس‘ بجلی اور دیگر ضروریاتِ زندگی میں عدم توازن نظر آتا ہے۔ صوبہ سندھ میں پانی کی شدید کمی ہے اور کسان محدود اراضی پر کپاس لگا تو لیتے ہیں لیکن پانی کی عدم دستیابی اور کمی کے باعث یہ کپاس گرمی سے جل کر راکھ بن جاتی ہے۔ عملی طور پر کئی علاقے قحط سالی کا شکار ہیں۔ لوگوں کو آج کے جدید دور میں کہ جب دنیا میں ڈرون سے کھانوں اور دیگر اشیا کی ڈیلیوری ہو رہی ہے‘ مگر یہاں پانی بھرنے کے لیے کئی کلومیٹر دور کنویں پر جانا پڑتا ہے اور اب تو کنویں بھی خشک ہوتے جا رہے ہیں۔ کئی کنویں برائے نام رہ گئے ہیں اور ان میں پانی نہ ہونے کے باعث انہیں مٹی ڈال کر بند کر دیا گیا ہے جبکہ سندھ کے بے شمار علاقے ایسے ہیں جہاں لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں اور وہ باقاعدہ جوہڑوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ زیر زمین پانی کڑوا اور زہریلا ہو چکا ہے۔ فصلیں خراب ہو رہی ہیں اور مال مویشیوں کو پلانے کے لیے بھی پانی دستیاب نہیں۔ زیادہ تر جانور خوراک اور پانی کی کمی کے باعث ہڈیوں کا پنجر بن چکے ہیں۔ کبھی ان بھینسوں کو پانچ پانچ‘ دس دس لاکھ میں خریدار ہنس کر لے جاتے تھے لیکن اب انہیں کوئی دو لاکھ میں بھی خریدنے کو تیار نہیں کیونکہ ان میں گوشت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ جانوروں کو کھلانے کے لیے سبز چارا بھی وافر مقدار میں موجود نہیں اور چارا اگانے کے لیے بہر حال پانی چاہیے جو پہلے ہی انسانوں کے لیے نایاب ہے تو جانوروں کو کہاں سے ملے گا؟ کئی علاقوں میں تو لوگ زمینیں خالی چھوڑ کر نقل مکانی کر چکے ہیں اور شہروں میں جا کر چھوٹی موٹی مزدوری کرکے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب اگر بارشیں زیادہ ہو بھی جائیں جیسا کہ گزشتہ برس ہوا جس کے باعث سیلاب نے تباہی مچا دی تو اس پانی کو سنبھالنے‘ اس کا رخ موڑنے یا اس کو جمع کرنے اور بجلی بنانے جیسی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی بھی نظر نہیں آتی۔ حالانکہ یہ بات اب بچہ بچہ جان چکا ہے کہ پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثرہ دنیا کے دس ممالک میں شامل ہے اور یہ کوئی آج کی خبر نہیں بلکہ گزشہ دس پندرہ برس سے عالمی ادارے خبردارکرتے آ رہے ہیں لیکن یہاں ایسی وارننگز کو سنجیدہ لینے کا رواج ہے نہ کلچر۔ گزشتہ ماہ اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں پر بھی گرمی کی وجہ سے جنگل کے کچھ حصے میں آگ بھڑک اٹھی اور یہ ابھی مارچ اپریل کی بات ہے جبکہ مئی جون تو ابھی آنا ہے اور جس طرح سے عالمی ماہرینِ موسمیات اس سال گرمی کی پیش گوئی کر رہے ہیں‘ حالات کو سنجیدگی سے نہ دیکھا گیا تو یہ قابو سے باہر بھی ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں خوراک کے مسائل اس سال پنپنا شروع ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس کے سیلاب کے باعث اس سال رمضان میں پھلوں اور سبزیوں کی کمی بھی دیکھی گئی اور اس کی مقدار اور سپلائی بھی خاصی کم رہی۔ گلا سڑا کیلاتین سو سے پانچ سو روپے فی درجن تک فروخت ہوتا رہا جبکہ انار‘ انگور اور دیگر پھل آٹھ آٹھ سو روپے کلو تک جا پہنچے۔ کراچی میں پھلوں کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی کہ یہ مہنگے بیچے جا رہے ہیں تاہم منڈی سے مہنگے لے کر سستے تو کوئی فروخت کر بھی نہیں سکتا۔ گندم کی قیمت بھی آسمان پر جا پہنچی ہے اور گزشتہ برس ایک سو دس روپے فی کلو ملنے والا آٹا اب ایک سو ستر روپے فی کلو سے بھی زائد میں فروخت ہو رہا ہے۔ پاکستان میں زراعت کو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا تھا لیکن اس کی حالت کیا ہو چکی ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ آٹا‘چینی اور دیگر اجناس کے لیے ہم ایک دوسرے کے گلے پڑ رہے ہیں۔
اگر اس سال عالمی موسمیات کے ماہرین کی پیش گوئیوں کے برعکس گرمی نہ پڑی اور گزشتہ برس کی طرح بارشیں دوبارہ سے آ گئیں تو ذرا سوچیں اس کے اثرات اگلے سال ہمیں کس قدر خوف ناک انداز میں بھگتنا پڑیں گے۔ زرعی زمینیں ویسے ختم ہو رہی ہیں‘ ان پر ہائوسنگ سوسائٹیاں اور کنکریٹ کے پہاڑ کھڑے ہو چکے ہیں‘ اوپر سے سیلاب نے انفراسٹرکچر تو تباہ کیا ہی ہے‘ ساتھ میں تین چار کروڑ افراد کو معاشی طور پر بھی بے حد نقصان پہنچایا ہے۔ پچھلے سال لوگوں کے جو گھر ‘زمینیں اور ڈھور ڈنگر ضائع ہوئے‘ ان کا ازالہ ابھی تک نہیں کیا جا سکا۔ بیشتر علاقوں میں تعمیرِ نو کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔ بارش اور سیلاب کا اضافی پانی کہاں اور کس طرح سٹور کرنا ہے‘ اس بارے میں پلاننگ کر لی جائے تو نہ صرف خشک سالی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے بلکہ بجلی کی کمی کو بھی ڈیم بنا کر پورا کیا جا سکتا ہے۔ ملک کے سیاسی حالات جب تک نارمل نہیں ہوتے تب تک اس طرح کی پلاننگ کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ لندن جیسے شہر میں پانی آج سے تیس چالیس سال قبل سے دوبارہ استعمال کے قابل بنا کر استعمال کیا جا رہا ہے تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ ہم اوسطاً پانچ سے دس لٹر پانی روزانہ ٹوتھ پیسٹ اور شیو بنانے میں اور بیس تیس لٹر پانی وضو میں بہا دیتے ہیں جبکہ پچاس سے ستر لٹر نہانے میں ضائع کر دیتے ہیں۔ حکومتوں سے ہم امیدیں تو لگا لیتے ہیں لیکن ہمارے اپنے چلن کیا ہیں‘ یہ ہم اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں تو پتہ چل جائے گا۔ قومیں یونہی نہیں بن جاتیں۔ اس کے لیے ہر ایک فرد کو اپنی اپنی جگہ ذمہ دار بننا پڑتا ہے۔ صرف چوکوں یا بیٹھکوں میں بیٹھ کر تنقید کرنے سے انقلاب یا تبدیلی نہیں آتی۔ تبدیلی انسان کے اندر سے شروع ہوکر معاشرے میں سرایت کرتی ہے پھر قوم بنتی ہے۔ اگر ہم نے گلوبل وارمنگ اور عالمی معیشت میں ہونے والی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنا ہے تو حکومتوں کو تو جو کرنا ہے وہ کرنا ہے‘ ہمیں بھی اپنا لائف سٹائل بدلنا ہوگا تب جا کر ہم معاشی چیلنجز اور موسم کی سرد مہری سے نمٹ سکیں گے۔