یہ سب کچھ کسی پلان کے تحت ہو رہا ہے یا پھر یہ ہونا ہی تھا؛ تاہم حالات کی سنگینی اس قدر بڑھ جائے گی شاید اس کا اندازہ کسی کو نہ ہو۔ کوئی علاقہ‘ کوئی دفتر‘ کوئی فیکٹری‘ کوئی دکان‘ کوئی گھر ایسا نہیں جہاں سیاسی معاملات میں تفریق نہ پائی جاتی ہو۔ بھائی بھائی کی بات سننے کو تیار نہیں‘ والدین اور بچے آپس میں جھگڑ رہے ہیں‘ دوست دوست کا گریبان کھینچ رہا ہے۔ کسی میں دوسرے کی بات سننے یا برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رہا۔ ہر کسی کو لگتا ہے کہ بس وہی حق پر ہے۔ ہر کوئی فتوے جاری کر رہا ہے۔ ہر کوئی قاضی و منصف بنا بیٹھا ہے۔ہر کسی کے پاس اپنے الزامات کو جسٹیفائی کرنے کا جواز موجود ہے‘ بالکل اسی طرح جس طرح جناح ہائوس لاہور پر حملہ کرنے والے ایک نوجوان سے اینکر نے پوچھا کہ یہ ڈیکوریشن کی چیزیں کیوں اٹھا کر لے جا رہے ہو تو اس نے جواب دیا''یہ ہمارے ٹیکسوں کا پیسہ ہے اس لیے ہمارا ان چیزوں پر پورا حق ہے‘‘۔ اس کے بعد بولنے یا پوچھنے کو کیا باقی رہ جاتا ہے؟ پکا ہوا کھانا، کپڑے، فرنیچر حتیٰ کہ گھر میں موجود جانور اور پرندے تک نہیں چھوڑے گئے۔ بہت سے مناظر کیمرے کے ذریعے قید ہو کر عوام کے سامنے آ چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک طوفان آیا اور لوگوں کی عقلیں تک بہا کر لے گیا ہے۔ ملک پہلے ہی سست روی سے چل رہا تھا مگر نو مئی کے واقعات کے بعد تو اس کی سمت ہی بدل گئی ہے۔ ہر آنے والا دن‘ بلکہ ہر آنے والے منٹ کے بارے میں بھی کچھ کہنا مشکل ہے کہ حالات کیا سے کیا ہو جائیں۔ کوئی فریق بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ہر کسی کی اَنا اس ملک کی سالمیت اور خودمختاری سے بلند ہو چکی ہے۔
اپنے محبوب لیڈر کی محبت میں لوگ اپنے ہی ملک‘ اپنے ہی گھر کو جلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ اسے خود آگ لگا رہے ہیں۔ پاکستان کس قدر تیزی سے عالمی سطح پر تنہا ہو رہا ہے کسی کو اندازہ نہیں۔ گروہ بندی اور جتھہ بندی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ لوگوں نے ایک دوسرے سے باتیں کرنا تک چھوڑ دی ہیں۔ ویسے بھی اس ملک میں لوگوں کے پاس بات کرنے کو سیاست کے سوا ہے بھی کیا۔ دفاتر‘سکول‘ کاروبارہر جگہ ایک دوسرے کے لیڈروں کے خلاف بحثیں جاری ہیں۔ہر کوئی ایک دوسرے کو ملک کی تباہی کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ کوئی بھی ایسا نہیں جو خود ذرا سی بھی ذمہ داری لینے کو تیار ہو۔ جو یہ کہے کہ ہاں‘ اس میں ہمارا بھی قصور ہے۔ ہمارے لیڈر کا فلاں فعل غلط تھا‘ فلاں اقدام کمزوری پر مبنی تھا۔ حق بات کرنے پر کوئی بھی تیار نہیں۔ عالمی برادری اور ادارے اس صورت حال پر بہت قریب سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کو تو چھوڑیں‘ دنیا کا کوئی جدید ملک بھی تنہا نہیں چل سکتا۔ اسے دوسرے ممالک کی مدد اور تعاون بہر صورت درکار ہوتا ہے۔
یہ دنیا کچھ لو اور کچھ دوکی بنیاد پر چل رہی ہے۔ کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو صرف دوسروں کو دے رہا ہو اور بدلے میں کچھ بھی وصول نہ کر رہا ہو۔ اسی طرح کوئی ملک ایسا نہیں جو صرف مانگ رہا ہو اور بدلے میں اسے کچھ ادائیگی نہ کرنا پڑ رہی ہو۔ دیکھا جائے تو بدقسمتی سے پاکستان کا شمار دوسرے درجے کے ممالک میں ہوتاہے جو زیادہ تر بیرونی ممالک سے قرض اور امداد طلب کرتا آیا ہے۔ لیکن یہ بھی کب تک چلے گا؟پاکستان کو اپنے بیرونی قرضے بھی ادا کرنے ہیں اور اپنی معیشت بھی چلانی ہیں۔سرکار کا نظام بھی چلانا ہے اور سرکاری عمال کو ادائیگیاں بھی کرنی ہیں۔ عوام کے لیے سہولتیں اور آسانیاں بھی پیدا کرنی ہیں۔ یہ سب کوئی بھی حکومت تبھی کر پائے گی جب اس کے اندرونی و بیرونی معاملات میں توازن آئے گا۔ مگر یہاں تو آوے کا آوا بگڑ چکا ہے۔ ایسی صورت حال پیدا کر دی گئی ہے کہ عوام ایک دوسرے کے گریبان پکڑ رہے ہیں اور اداروں کی تکریم کرنے کو کوئی بھی تیار نہیں۔
کبھی ہم روتے ہیں کہ عالمی کمپنیاں یہاں سرمایہ کاری کیوں نہیں کرتیں؟ بھارت کی طرح یہاں بھی اپنے دفاتر کیوں قائم نہیں کرتیں؟نئی فیکٹریاں اور کارخانے کیوں نہیں لگتے؟ مگر یہاں تو حالات ہی ایسے بنا دیے گئے ہیں کہ باہر سے تو کسی نے یہاں کیا سرمایہ لگانا ہے‘ یہاں کے اپنے لوگ ہی اپنا سرمایہ ملک سے نکال رہے ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ پاکستانی لوگ اپنے آزاد وطن کے ہوتے ہوئے بھی دبئی‘ بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں اپنا سرمایہ لگا رہے ہیں۔ پاسپورٹ دفاتر جا کر دیکھیں‘ آپ کو ملک چھوڑنے کی شدید خواہش لیے ہزاروں لوگ روزانہ لمبی قطاروں میں لگے نظر آئیں گے۔ باہر جا کر ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے‘ انہیں اس کی ذرا بھی پروا نہیں۔
موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے لوگ مزید بددل ہو رہے ہیں۔ ان میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو بیرونِ ملک سے اپنے وطن اس لیے آئے تھے کہ یہاں اپنوں میں رہ سکیں‘ ساتھ میں اپنے ملک کی معیشت کو بہتر بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکیں لیکن یہاں سرمایہ کاروں کو ناکوں چنے چبوا دیے جاتے ہیں‘ اوپر سے ہر ہفتے‘ ہر مہینے‘ کوئی نہ کوئی گھیرائو جلائو‘ دھرنا‘ جلوس اور امن و عامہ کے بگڑے واقعات پیش آنے لگتے ہیں جو جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔عجیب بھگدڑ مچی ہوئی ہے۔ ہر کوئی چیخ چلا رہا ہے۔ نہ کوئی کسی کو سُن رہا ہے نہ کوئی کسی کو سمجھنے کو تیار ہے۔ ہر کسی کی پوٹلی الزامات‘ دشنام طرازیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہر کسی کا سینہ بغض اور حسد سے بھرا ہوا ہے۔ برداشت نام کی چڑیا کب کی اُڑ چکی۔ گھروں میں جو بزرگ ہوتے تھے انہوں نے بھی حالات کو دیکھ کر چپ سادھنے میں عافیت سمجھ لی ہے کیونکہ اس نئی جنگجو قسم کی نسل سے بحث کرنا آسان نہیں۔ ان کے پاس نہ دلائل ہیں نہ زمین حقائق کاانہیں ادراک ہے۔ آپ ان سے بحث کریں گے اور کسی جگہ انہیں دلائل سے زیر کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ دوسری طرف نکل جائیں گے۔غرضیکہ آخر میں وقت کے ضیاع اور ذہنی دبائو کے سوا آپ کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
جس طرح ہم سرکاری سکولوں کے پڑھے ہوئے بچے کبھی ریاضی یا فزکس‘ کیمسٹری کے مسائل اور سوالات کو رٹّا لگا کر یاد کر لیتے تھے اور مجال ہے کہ اس میں سے کسی کو رتی بھر بھی سمجھ آتی ہو کہ اس مسئلے کا عملی زندگی سے کوئی تعلق ہے یا نہیں‘ بس رٹا لگاکر پچاس ساٹھ لائنیں یاد کرنا ہمارا مقصد ہوتا تھا تاکہ پیپر میں نمبر اچھے آجائیں‘ اسی طرح آج کی نئی نسل نے بھی بیس‘ پچیس باتیں رٹا لگا کر یاد کر لی ہیں یا بار بار تقریر کے ذریعے ان کے ذہنوں میں بٹھا دی گئی ہیں۔ یہ ان بیس‘ پچیس جملوں اور الزامات سے آگے سوچنے یا چلنے کو تیار نہیں اور یہ اتنی خطرناک مہم ہے جس کا شاید اس مہم کے ماسٹر مائنڈز کو بھی اندازہ نہ ہو۔پہلے ہم مذہبی عقائد میں تفریق دیکھتے تھے۔ انیس سو اسّی اور نوے کی دہائی میں یہ چورن بہت بکتا تھا۔فرقہ بازی اتنی بڑھ چکی تھی کہ ہر کوئی دوسرے کو دائرۂ اسلام سے خارج سمجھنے لگا تھا۔ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا تو درکنار‘ ایک ساتھ ایک میز پر بیٹھنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا۔ اب بھی کھیل وہی ہے لیکن انداز بدل گئے ہیں۔اب مذہب کی جگہ سیاست نے لے لی ہے۔
اگر آپ ایک سیاسی جماعت کے فالوور نہیں ہیں تو پھر آپ نہ پاکستانی ہیں‘ نہ محب وطن ہیں اور نہ ہی باشعور ہیں۔ اگر آپ آنکھیں بند کر کے ایک خاص لیڈر کو فالو نہیں کرتے‘اس کی اندھی تقلید میں غیر آئینی اقدمات اور قانون کو ہاتھ میں لینے کے لیے تیار نہیں ہوتے تو پھر اس مخصوص طبقے کی نظر میں آپ غدار بھی ہیں اور وطن دشمن بھی۔ آنے والے چند دنوں میں کیا ہونے والا ہے‘ اس بے لگام سوچ اور شتر بے مہار قسم کے جذبات کو دیکھ کر حالات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔