ایک دور تھا جب سالانہ بجٹ کی اس لحاظ سے بہت اہمیت ہوتی تھی کہ اس کے بعد باقی سارا سال حکومت کی جانب سے کوئی منی بجٹ یا مالیاتی بل پیش نہیں کیا جاتا تھا‘ حکومت کی معاشی پالیسیوں میں کوئی خاص تبدیلی ہوتی تھی اور نہ ہی ملکی و عالمی حالات ملکی معیشت پر اس طرح اثر انداز ہوتے تھے جیسے آج کل کے دور میں ہوتا ہے اور ہر دوسرے‘ تیسرے ہفتے اشیا کی قیمتوں میں رد و بدل اور پالیسیوں میں تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو ڈالر کی قدر و قیمت ہے جس کی وجہ سے معیشت کا جہاز آئے روز ہچکولے کھانے لگتا ہے۔ دوسری وجہ سیاسی عدم استحکام ہے جس نے غیر یقینی کی صورتِ حال کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ بجٹ سے ہر طبقے کو کچھ نہ کچھ توقعات ہوتی ہیں لیکن یہ پوری تبھی ہوتی ہیں جب حکومت ان کی بات سنے یا اس کے پاس اتنے وسائل ہوں کہ وہ ان کی توقعات پر پورا اتر سکے۔ اس سال کے وفاقی بجٹ سے بہت زیادہ امیدیں لگانا اس لیے بھی مشکل ہے کہ ڈالر بڑھنے کی وجہ سے واجب الادا حکومتی قرضے خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں‘ پیداواری لاگت بڑھنے سے جاری اور نئے منصوبوں کے لیے اضافی رقم درکار ہے اور حکومتی مشینری چلانے کے لیے بھی زیادہ رقم چاہیے کیونکہ مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے تنخواہیں بڑھانے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے لیکن ان سارے مسائل سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ملکی برآمدات زیادہ ہوں اور حکومت کے پاس اتنا وافر پیسہ موجود ہو کہ وہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ملکی معاملات کو بھی بہتر انداز میں چلا سکے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ملک کے قیام کے ساڑھے سات عشروں کے بعد بھی ابھی تک ہم یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ہم نے آئی ایم ایف کے ساتھ چلنا ہے یا اسے خیرباد کہنا ہے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ ایک حکومت آتی ہے تو وہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کر لیتی ہے‘ دوسری آتی ہے تو شروع میں آئی ایم ایف کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہوتی لیکن جب پانی سر سے اونچا ہونے لگتا ہے تو بھاگم بھاگ کڑی شرائط پر معاہدہ کر لیا جاتا ہے جیسے کہ سابق دور میں تحریک انصاف نے کیا اور جاتے جاتے ایک اور وار یہ کیا کہ آئی ایم ایف سے جو معاملات طے کیے تھے ان کے مطابق عمل نہیں کیا جس کا خمیازہ موجودہ حکومت اور عوام کو بھگتنا پڑا۔ سیاست دانوں کی اپنی ہی دنیا اور اپنے ہی اصول ہیں۔ یہ صرف عوامی جذبات سے کھیلنا جانتے ہیں۔ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو پاپولر سٹینڈ لیتے ہیں تاکہ عوام کے دل میں جگہ بنا سکیں اور حکومت کے خلاف عوامی جذبات کو اشتعال دلا سکیں۔ الیکشن مہم میں یہ ایسے ایسے خواب دکھاتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔ یعنی اپوزیشن کے دور میں دعوے کرتے تھے کہ ہماری حکومت آئے گی تو آتے ہی ملک سے باہر پڑا دو سو ارب ڈالر پاکستان لے کر آئیں گے اور اس میں سے سو ارب ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پر ماریں گے جبکہ باقی سو ارب ڈالر پاکستانیوں پر لگائیں گے۔اس جماعت کے انقلابی لیڈر نے یہ بھی کہا تھا کہ ہماری حکومت آنے کے پہلے ہی مہینے ایک کروڑ بیروزگار نوجوانوں کو یا تو نوکریاں دی جائیں گی یا بیروزگاری وظیفہ مقرر کر دیا جائے گا۔ آج کوئی ان 'خواب فروشوں‘ کو ملے تو انہیں ان کے وڈیو بیانات دکھا کر یہ پوچھا جائے کہ آپ کے وعدوں کا کیا بنا۔ یہ مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان ووٹ اور اقتدار کے حصول کی جنگ لڑتے ہوئے اتنا بھی نہیں دیکھتے کہ وہ جو بات کہہ رہے ہیں‘ جوش خطابت میں جو بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں کیا وہ زمینی حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ کیا اقتدار میں آنے کے بعد وہ انہیں پورا کر بھی پائیں گے یا نہیں۔ تاہم جلسوں اور ٹاک شوز میں کوئی اصول‘ کوئی حقائق مدنظر نہیں رکھے جاتے‘ صرف عوام کا دل لبھایا جاتا ہے‘ ان کا لہو گرمایا جاتا ہے اور اس کے لیے کوئی بھی حد پار کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔
ہمارے ہاں ایسے ایسے سیاست دان معاشی دعوے کرتے نظر آتے ہیں جن کا پورٹ فولیو میدانِ معیشت سے میل نہیں کھاتا‘ نہ ہی انہوں نے ماضی میں کسی طور معاشی میدان میں کوئی کارنامہ دکھایا ہوتا ہے۔ یہ لوگ صرف اپنے لیڈر کے سامنے نمبر ٹانکنے کے لیے اس کو دیوتا بنا کر تخت پر بٹھا دیتے ہیں اور اس دیوتا کو علم بھی نہیں ہوتا کہ وہ یہ کام کر پائے گا یا نہیں‘ لیکن اس کے طفیلی اس کی شان میں قلابے ملانے کے لیے اپنے طور پر پوری معیشت ایک دن میں ٹھیک کر چکے ہوتے ہیں۔ جیسے معیشت نہ ہو گئی کوئی سائیکل یا موٹر سائیکل ہو گئی جسے لیڈر صاحب نے چٹکی بجاتے ہی ٹھیک کر دینا ہے۔
ہمارا دوسرا مسئلہ عدم پلاننگ ہے۔ یہاں سیاسی دیوتا پچیس‘ پچیس سال سے سیاسی جنگ لڑنے کے بھاشن سناتے چلے آ رہے تھے لیکن جب انہیں حکومت ملی تو پتا چلا نہ کوئی معاشی پلان ہے نہ کوئی ہوم ورک۔ یہ صرف باتیں بنانے والے‘ لمبی لمبی چھوڑنے والے اور بھڑکیلے اور بڑھکیں مارنے والے خواب فروش سیاستدان ہیں جو اربوں ڈالر آئی ایم ایف کے منہ پر مارنے کا دعویٰ ایسے کرتے تھے جیسے یہ پیسے ان کی جیب میں پڑے ہوں۔ اس طرح کے سیاستدان ہی آج کے حالات کے ذمہ دار ہیں اور ایسے سیاستدان بلاتخصیص ہر سیاسی جماعت میں پائے جاتے ہیں؛ تاہم ایک انقلابی جماعت نے تو یوں دعوے کیے تھے جیسے اس کے حکومت میں آتے ہی ملک میں انقلاب برپا ہو جائے گا اور ڈالر کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ معاشی انقلاب کی نوید سنانے والوں کے ہاتھوں کوئی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی البتہ قوم کو نو مئی کا دن دیکھنا ضرور نصیب ہوا کہ جب ملک کی اہم شخصیات کے خلاف مسلسل الزامات اور پروپیگنڈا کرنے کے نتیجے میں اس جماعت کے کارکنوں نے اپنے ہی ملک کے دفاعی اداروں اور تنصیبات کو نشانے پر رکھ لیا۔ایک طرف یہ جماعت اپنے ورکرز کا بھرپور خیال رکھنے کا دعویٰ کر رہی ہے‘ انہیں قانونی معاونت فراہم کر رہی ہے اور دوسری جانب اس کے لیڈر موصوف نے اپنے کارکنوں اور حملہ آوروں کو پہچاننے ہی سے انکار کر دیا ہے۔ پھر یہ کہنا کہ میں اداروں کے خلاف نہیں ہوں‘ میں نے چند شخصیات کے حوالے سے بات کی تھی‘ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اندازہ کریں موصوف خود ایک سیاسی جماعت کے چیئرمین ہیں‘ ان کے چاہنے والوں نے انہیں ریڈ لائن قرار دیا ہوا تھا اور نو مئی کو ہر حملہ آور یہی کہہ رہا تھا کہ ہماری ریڈ لائن کراس کی گئی ہے‘ اب اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا؛ یعنی آپ تو اپنے ورکروں کی ریڈ لائن ہیں‘ کوئی آپ کو کچھ نہ کہے مگر ملک کے دفاعی اداروں کو آپ جب چاہیں نشانے پر رکھ لیں اور جب چاہیں یہ کہہ دیں کہ میں تو اداروں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ ویسے اس معصومیت کی داد دینی چاہیے۔ آپ اہم شخصیات پر بغیر کسی ثبوت کے الزام تراشی کریں مگر جب خود پر بن آئے تو عدل و انصاف کی دہائی دینا شروع کر دیں۔
دوسری جانب پروپیگنڈا جنگ بھی زوروں پر ہے۔ نو مئی کے واقعات میں نامزد خواتین کے نام پر بھی سیاست کی جا رہی ہے۔ قید میں ان کے ساتھ زیادتی کے جھوٹے الزامات لگا کر ایک طوفان برپا کر دیا گیا۔ ان خواتین نے عدالت میں پیشی کے موقع پر خود ہی واضح کر دیا کہ جیل میں ان کے ساتھ قطعاً کوئی غیر مناسب سلوک نہیں کیا گیا۔ جب خود گرفتار ہوئے تو اس پر بھی الزام لگایا کہ میرے سر پر ڈنڈا مارا گیا تھا۔ اگر ہمارے سیاسی لیڈر اس طرح کے ہوں گے توکیا خاک معیشت ترقی کرے گی؟ اس طرح کے حالات میں ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے کیسے نکلیں گے؟
جو بھی اقتدار کی کشتی سے نکلتا ہے‘ وہ اس میں کوئی نہ کوئی چھید کر دیتا ہے تاکہ نئے آنے والوں پر سارا ملبہ گرایا جا سکے۔ قوم اور ملک کے مفادات کو کوئی نہیں دیکھتا۔ یہ ملک ہیجانی سیاست اور کتنی دیر تک سہہ سکتا ہے؟ سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلا کر‘ نت نئے پروپیگنڈا حربوں سے آپ نے اقتدار تو حاصل کر لیا لیکن حکومت ہیجان انگیزی اور بوگس دعووں سے چلتی ہوتی تو ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار سنہری الفاظ سے یاد کیا جاتا۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ خرابیوں کو اتنے کم وقت میں دور نہیں کیا جا سکتا لیکن ساڑھے تین برسوں میں سمت تو درست کی ہی جا سکتی تھی مگر اس جانب کوئی ایک قدم بھی نہیں اٹھایا گیا بلکہ آپ کی سمت کا اندازہ بارہ کروڑ آبادی والے سب سے بڑے صوبے کو ''وسیم اکرم پلس‘‘ کے حوالے کرنے سے ہی ہو گیا تھا۔