پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 3ارب ڈالر کا معاہدہ طے ہو گیا۔ یہ وہ خبر تھی جس کا ہر طبقے کو شدت سے انتظار تھا‘ سوائے ان کے جو اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے پاکستان کو ڈوبتا دیکھنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان تمام سیاسی اداکاروں کی امیدوں پر اس معاہدے نے پانی پھیر دیا۔ اس خبر کے ساتھ ہی پاکستانی روپیہ مستحکم ہوا۔ وہ لوگ جو ملکی معیشت خطرے میں دیکھ کر دھڑا دھڑ ڈالر اور سونا خرید رہے تھے‘ انہیں بھی نظر آ گیا ہے کہ اس کا اب کوئی فائدہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دو تین ہفتوں میں دس گرام خالص سونے کی قیمت میں فی تولہ 25ہزار روپے تک کمی آ چکی ہے اور یہ دو لاکھ 14ہزار روپے فی تولہ پر آ گیا ہے۔ اسی طرح اوپن مارکیٹ میں ڈالر 325روپے تک پہنچ گیا تھا وہ 300روپے تک آ گیا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے نتیجے میں پاکستان کے بیرونِ ملک بانڈز کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے جو غیرملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ جمعہ کے روز آئی ایم ایف کی جانب سے سٹاف لیول معاہدے کا اعلان کردیا گیا جس کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 3ارب ڈالر مالیت کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے معاہدے پر اتفاق ہوا ہے جبکہ آئی ایم ایف نے معاہدہ کی تصدیق کردی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ سٹاف لیول معاہدہ کی منظوری دے گا جب کہ ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس جولائی کے وسط میں ہوگا۔ آئی ایم ایف اور پاکستانی کے درمیان طے پانے والا سٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) معاہدہ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔ اعلامیہ کے مطابق نیا سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ حالیہ بیرونی جھٹکوں سے معیشت کو مستحکم کرنے‘ میکرو اکنامک استحکام کو برقرار رکھنے اور کثیر جہتی اور دو طرفہ شراکت داروں سے فنانسنگ کیلئے ایک فریم ورک فراہم کرنے کیلئے حکام کی فوری کوششوں کی حمایت کرے گا۔ نیا ایس بی اے معاہدہ پاکستانی عوام کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کیلئے ملکی آمدنی کو بہتر بنانے اور محتاط اخراجات پر عملدرآمد کے ذریعے سماجی اور ترقیاتی اخراجات کیلئے جگہ بھی پیدا کرے گا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کے موجودہ چیلنجوں پر قابو پانے کیلئے مستحکم پالیسی پر عملدرآمد کلیدی حیثیت رکھتا ہے‘ بشمول زیادہ مالیاتی نظم و ضبط‘ بیرونی دباؤ کو جذب کرنے کیلئے مارکیٹ کا تعین شدہ زرِ مبادلہ کی شرح اور اصلاحات پر مزید پیش رفت‘ خاص طور پر توانائی کے شعبے میں‘ موسمیاتی لچک کو فروغ دینے اور بہتر بنانے میں مدد کرنا ہے۔ اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ معاہدہ پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ کم کرے گا اور معاہدے سے سماجی شعبے کیلئے فنڈز کی فراہمی بہتر ہوگی جبکہ معاہدے کے تحت پاکستان ٹیکسز کی آمدن بڑھائے گا اور ٹیکس کی آمدن بڑھنے سے عوام کی ترقی کیلئے فنڈنگ بڑھ سکے گی۔ معاہدہ پاکستان میں مالی نظم و ضبط کا باعث بنے گا اور اس سے توانائی کی اصلاحات یقینی بنائی جائیں گی جبکہ ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے حساب سے مقرر کیا جائے گا۔
حماد اظہر جیسے نابغہ روزگار کم ہی پیدا ہوتے ہیں جبھی تو انہوں نے اس معاہدے کو بھی پاکستان کیلئے نقصان دہ قرار دے دیا ہے جبکہ بطور سابق وزیر خزانہ اور معاشی ماہر انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کن شرائط کے تحت کیے جاتے ہیں اور آئی ایم ایف اگر کسی ملک کو ڈالر دیتا ہے تو اس کی اس ملک کو کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق موجودہ معاشی مسائل کو حل کرنے کیلئے پالیسیوں پر سختی سے عملدرآمد ضروری ہے جبکہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی جائیں۔ اب اس میں کون سی غلط بات ہے۔ کیا شعبوں میں اصلاحات لانا درست بات نہیں۔ آئی ایم ایف یہی کہتا ہے کہ ملکی اکانومی کو ڈاکومنٹ کرو‘ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس فائلر ہونا چاہیے۔ آخر اس میں کیا برائی ہے۔ جو لوگ اور ادارے اگر ایک خاص حد سے زیادہ آمدنی کماتے ہیں تو کیا ان کی رقوم کی ترسیلات کا ریکارڈ نہیں ہونا چاہیے۔ کیا ان پر ٹیکس نہیں لگنا چاہیے۔ اگر کوئی ماہانہ ایک کروڑ یا دس کروڑ کما رہا ہے تو کیا اسے ٹیکس نیٹ میں نہیں آنا چاہیے؟ اسی طرح وہ رفاہی تنظیمیں اور این جی اوز جو باقاعدہ رجسٹرڈ نہیں ہیں‘ انہیں رجسٹر نہیں ہونا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کون انہیں فنڈنگ کر رہا ہے اور کہیں وہ ممنوعہ فنڈنگ کے زمرے میں تو نہیں آ رہیں؟ آئی ایم ایف کی شرائط کڑی ہو سکتی ہیں اور ان کی وجہ سے عوام پر بھی بوجھ پڑ سکتا ہے لیکن یہ بوجھ زیادہ تر ان بڑے بڑے مگر مچھوں کی وجہ سے پڑتا ہے جو خود تو اربوں روپے کما کر ٹیکس چوری کر لیتے ہیں اور اپنا پیسہ بیرونِ ملک لے جاتے ہیں۔ جبکہ ٹیکس وصولی کم ہونے سے خسارا بڑھتا ہے جو بالآخر نئے ٹیکسوں کی شکل میں پورا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان پروگرام کی مدت جمعہ کو ختم ہو رہی تھی تاہم یہ معاہدہ بروقت کر لیا گیا جس سے پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ بھی ٹل گیا ہے اور معاشی طوفان میں بھی ٹھہرائو آنے کی امید ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے آئندہ چند دنوں میں مزید ایک ارب ڈالر اور سعودی عرب سے بھی مزید 2ارب ڈالر جولائی میں ملنے کی امید ہے‘ اس معاہدے کے بعد پاکستان کو عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے رکی ہوئی دو ارب ڈالر مالیت کی فنانسنگ بھی ملنا شروع ہو جائے گی اور ساتھ ہی سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد تعمیر و ترقی کیلئے عالمی برادری کی جانب سے اعلان کردہ امداد کی فراہمی پر بھی عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس معاہدے کیلئے موجودہ حکومت نے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ ان پر بہت زیادہ سیاسی دبائو تھا‘ تحریک انصاف کی جانب سے الگ کچوکے لگائے جا رہے تھے اور انہیں یہ کہنے کا موقع مل رہا تھا کہ ہم معیشت کو بہتر چلا رہے تھے حالانکہ یہ سارا کیا دھرا ہی انہی کا ہے اور اس حال میں عام پاکستانی کو پہنچانے میں ان کا بنیادی کردار ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کرکے جان بوجھ کر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا جس کا خمیازہ اس ملک کے عوام اور کمزور معیشت کو بھگتنا پڑا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اس مسئلے کو سب سے زیادہ ترجیح دی کیونکہ انہیں معلوم تھا اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو پی ڈی ایم کی حکومت کو بہت زیادہ سیاسی نقصان ہو گا۔ اس کیلئے اس حکومت کو سخت اور کڑوے فیصلے بھی کرنا پڑے لیکن یہ باامرمجبوری کیے گئے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے ملاقاتیں بھی کیں۔ اسی طرح وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کردار بھی اہم تھا۔ انہوں نے خاصا متوازی بجٹ پیش کیا۔ اسی طرح آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں بھی انہوں نے کافی سنجیدگی دکھائی۔ وہ پاکستان کے بہت منجھے ہوئے معیشت دان ہیں اور غالباً چھٹا یا ساتواں وفاقی بجٹ پیش کرنے والے پاکستان کے پہلے وزیرخزانہ ہیں۔ انہوں نے بجٹ سے ایک روز پہلے خبردار کر دیا تھا کہ عوام سونا اور ڈالر نہ خریدیں ورنہ نقصان ہو گا اور وہی ہوا‘ اب ان دونوں سے لوگ پیسہ نکال رہے ہیں۔ آئندہ تین ماہ پاکستان کیلئے بہت اہم ہیں۔ اگلے انتخابات میں وہی جماعت کامیاب ہو گی جو عوام کے ساتھ ساتھ اس ملک اور اس کے اداروں کے ساتھ بھی مخلص ہے‘ جو معیشت کو کھیل اور رکھیل نہیں بناتی نہ ہی حکومت جانے پر ملک توڑنے اور اپنے ہی اداروں اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی ہے۔ گزشتہ ایک برس میں بہت سے چہروں سے نقاب اٹھ گئے‘ وہ سیاسی دیوتا اور بت جنہیں لوگ اندھے ہو کر پوجتے تھے‘ ان کی اصلیت بھی نو مئی کو سب کے سامنے آ گئی۔ خدا کرے وہ دن آئے کہ ہم آئی ایم ایف کے چنگل سے ہمیشہ کیلئے نکل آئیں اور ان سازشی شرپسند سیاسی عناصر سے بھی جو اپنے اقتدار کو ڈوبتا دیکھ کر پورے ملک کی کشتی میں سوراخ کرکے اسے ڈبونا چاہتے ہیں۔