بجلی جاتی ہے تو پرانے وقتوں کی یاد آتی ہے۔ بجلی تب بھی جایا کرتی تھی لیکن تب بجلی جانے پر گھر والے ایک دوسرے کے مزید قریب ہو جایا کرتے تھے‘ خاص طور پر سردیوں میں۔ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ گپ شپ لگانے کا موقع ملتا۔ ایک آدھ پائو مونگ پھلی لے کر سبھی بستروں میں بیٹھ جاتے اور کھل کر گپ لگاتے۔ گرمیوں میں بھی لوڈ شیڈنگ کو انجوائے کیا جاتا۔ کوئی ہاتھ والا پنکھا لے کر بیٹھ جاتا تو کوئی ٹھنڈی کچی لسی بنا کر گرمی بھگانے کی کوشش کرتا۔ یو پی ایس ہوتا نہیں تھا اور گرمی بھی اتنی شدید نہیں تھی۔ برائلر کا اتنا زور نہیں تھا۔ دالیں اور سبزیاں کیمیکلز سے پاک تھیں۔ اس لیے خوراک بھی اچھی تھی اور نتیجتاً صحتیں بھی ٹھیک تھیں۔ رات کو دیر تک جاگنے کا رواج اس لیے نہیں تھا کہ سرکاری ٹی وی دس بجے بند ہو جاتا تھا۔ اس کے بعد جاگنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ ڈش اور کیبل ٹی وی کا دور آیا اور اس کے کچھ عرصے بعد موبائل فون کی آمد ہو گئی جس کے بعد ساری گیم یا بازی ہی پلٹ گئی۔ جس کو دیکھو موبائل فون کی جانب ٹُکڑ ٹُکر دیکھ رہا ہوتا ہے۔ پہلے کیبل اور ڈش پر طرح طرح کے چینلز اور اس پر ٹائم ضائع ہوتے دیکھ کر افسوس ہوتا تھا لیکن موبائل کے سامنے تو ٹی وی اور کیبل وغیرہ بہت ہی معصوم اور بے ضرر دکھائی دینے لگے ہیں۔ ٹی وی کیبل پر تو مخصوص وقت میں مخصوص چیزیں آتی تھیں مگر یہ بلا جب سے آئی ہے اس نے تو لائف سٹائل کے پرخچے اڑا کر دکھ دیے ہیں۔ ہر گھر پریشان ہے۔ بجلی جاتی ہے تو موبائل فون چلتے ہیں جس کی وجہ سے کوئی ایک دوسرے سے بات چیت کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ بجلی آ جاتی ہے تب بھی ایک ہی گھر کے مقیم ایک دوسرے کے مسائل سے بے خبر اجنبیوں کی طرح زندگی گزارے چلے جارہے ہیں۔ لکھنے کی عادت ویسے ہی عنقا ہوتی جا رہی ہے حتیٰ کہ ایک ہی کمرے میں بیٹھا ہوا شخص دوسرے کو زبانی کچھ کہنے کے بجائے موبائل پر پیغام بھیجتا ہے کیونکہ وہاں پر ٹیکسٹ کے ساتھ ایموجیز بھی آتی ہیں جس میں ہنسنے رونے والی شکلیں بنا کر جذبات کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ یوں موبائل فون مکمل طور پر انسانی شخصیت پر حاوی ہو چکا ہے۔ جب موبائل فون نہیں آیا تھا اور کمپیوٹر کے ذریعے نئی نئی ویڈیو کال کی سہولت آئی تھی تو لوگ کہنا شروع ہو گئے تھے دنیا گلوبل ویلیج بن گئی ہے‘ ٹیکنالوجی نے سب کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ اس بات میں مگر کتنی حقیقت ہے اس کا اندازہ ہمیں اپنے گھر‘ اپنے دفاتر اور دیگر جگہوں پر بخوبی ہو جاتا ہے کہ اس جدت نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کیا ہے یا فاصلے مزید بڑھا دیے ہیں۔ ٹھیک ہے یہ انسان کو معلومات فراہم کرتا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک انسان کو کس قدر معلومات درکار ہوتی ہیں یا اس کا دماغ سکرین کے ذریعے ویڈیو اور آڈیوز کے سیلاب کی صورت میں ایک دن میں کتنی ویڈیوز ہضم کر سکتا ہے۔ پاکستان میں لوگ سائیکالوجسٹ کے پاس جانے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نارمل انسان ان کے پاس نہیں جا سکتا‘ تاہم اگلے پانچ سے دس برسوں میں حالات بالکل تبدیل ہو جائیں گے کیونکہ نئی نسل جس تیزی کے ساتھ اس بیماری کا شکار ہو رہی ہے‘ جس تیزی سے اس کے اثرات دماغوں کو آلودہ کر رہے ہیں‘ امکان یہی ہے کہ نفسیاتی امراض کئی گنا بڑھ جائیں گے۔ اب بھی آپ کسی بھی والدین سے پوچھ لیں تو وہ یہی کہیں گے کہ خدا کے لیے ان کو کوئی طریقہ بتا دیں کہ ان کا بچہ موبائل فون کی جان چھوڑ دے۔ کہتے ہیں بچے سکول سے آتے ہی موبائل پکڑ لیتے ہیں۔ کھانا سامنے میز پر لگا دیا جاتا ہے لیکن کھانا اس وقت تک شروع نہیں کرتے جب تک ہر بچے کے سامنے اس کے مرضی کے کارٹون یا ویڈیو نہیں چل جاتی۔ عجیب بات ہے کہ چونکہ سب کی پسند اپنی اپنی ہے اس لیے اگر دو بچے بیٹھے ہیں تو دونوں مختلف موبائل فون پر مختلف ویڈیوز لگائیں گے۔ کھانا ختم ہو جائے گا لیکن ویڈیوز ختم نہیں ہوں گی کیونکہ پاکستان میں اس وقت اگر کوئی چیز دیگر ممالک کے مقابلے میں سستی ہے تو وہ موبائل ڈیٹا ہے۔ یہاں موبائل سم بھی آسانی سے مل جاتی ہے اور موبائل ڈیٹا بھی ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے۔ جنوبی کوریا میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق میں ایک ہزار طالب علموں سے سروے کیا گیا جس میں 72فیصد بچے گیارہ سے بارہ برس کی عمر میں ہی ذاتی سمارٹ فون کے مالک بن گئے اور اوسطاً چار پانچ گھنٹے روزانہ فون استعمال کرتے ہیں۔ موبائل فون یورپ اور امریکہ میں بھی بہت استعمال ہوتا ہے لیکن ایشیا اس معاملے میں بہت آگے ہے۔ پھر کسی جگہ کھانے پر پہلے سیلفی لینا زیادہ ضروری خیال کیا جاتا ہے‘ اسی طرح کھانے کی تصاویر لے کر ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا پر ڈالی جاتی ہیں اور اس کے بعد گروپ فوٹو بھی ضروری ہوتا ہے۔ کھانا کیسا تھا کیا کھایا‘ کتنا کھایا ان باتوں کی طرف اب کسی کی توجہ نہیں جاتی۔ اس ڈیجیٹل لت کا شکار تمام عمر کے افراد ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر ایسے افراد جو تعلیم حاصل کرنے یا نوکری کاروبار کے علاوہ کسی چیز کے لیے وقت نہیں نکالتے یعنی ورزش یا چہل قدمی کرنا۔ یا پھر تیراکی یا کوئی اور کھیل باقاعدگی سے نہیں کھیلتے وہ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ جیسے ہی اپنے کام یا پڑھائی سے فرصت ملے فوری طور پر فون کو اٹھا لیں۔ ماہرین کے مطابق کچھ ایسی خصوصیات یا عادات ہیں اگر وہ آپ میں ہیں تو سمجھ لیں آپ بھی اس حد کو کراس کر چکے ہیں اور اس لت کا شکار ہو نے والے لشکر میں شامل ہو چکے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اگر آپ بغیر کسی وجہ کے ہر پانچ دس منٹ بعد فون اٹھاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کون کون سے نوٹیفکیشن آئے ہیں۔ اسی طرح اگر فون آپ کے پاس نہ ہو تو آپ خود کو بے چین اور نامکمل محسوس کرتے ہوں۔ آپ اپنے بہترین دوست کے ہمراہ ہوں‘ یا شوہر بیوی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوں اور دونوں میں سے ایک بلاوجہ فون کی سکرین کو انگلیاں مار رہا ہو۔ آپ فون کو باتھ روم میں بھی ساتھ لے کر جاتے ہوں۔ آپ بلاضرورت کئی وٹس ایپ یا فیس بک گروپوں میں شامل ہوں اور بلاوجہ لوگوں کی پوسٹس اور کمنٹس پڑھنے میں وقت گزارتے ہوں۔ رات کو سوتے وقت دیر تک فون استعمال کرتے ہوں یا آدھی رات کو آنکھ کھلے تو پہلا خیال موبائل فون کو چیک کرنے کا آئے تو پھر سمجھ لیں کہ آپ اس علت کا بخوبی شکار ہو چکے ہیں اور اگر آپ اس مرض میں مبتلا ہیں تو پھر آپ کے بچے بھی دیکھا دیکھی یہی کریں گے اور آپ چاہتے ہوئے بھی انہیں روک نہیں سکیں گے۔ اگر آپ نے اس مسئلے پر یہیں قابو نہ پایا تو آپ اور اہلِ خانہ کئی پیچیدگیوں کا شکار ہو سکتے ہیں جن میں چڑچڑاپن‘ بینائی کی کمزوری‘ اُکتاہٹ‘ کام میں دل نہ لگنا‘ نیند کی کمی‘ وسوسوں اور اندیشوں کا آنا اور مستقل کا بلاوجہ کا خوف‘ یہ سب یا ان میں سے کچھ نے بھی آپ کو متاثر کرنا شروع کر دیا تو آپ کی زندگی کلر سے بلیک اینڈ وائٹ ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ ا س گڑھے میں آپ گرے بھی خود ہیں اس لیے نکلنا بھی خود ہی پڑے گا۔ اب اس سے مکمل جان بھی چھڑائی نہیں جا سکتی۔ بہتر ہے خود اور اہلِ خانہ روزانہ زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے تک اس کا دورانیہ لے آئیں۔ اس کے علاوہ موبائل اٹھاتے وقت پہلے سے پلان کریں کہ کس مقصد اور کتنی دیر کیلئے اٹھایا ہے اس کے مطابق استعمال کریں اور رکھ دیں۔ اس سے بھی مسائل کی شدت میں کافی حد تک کمی آ جائے گی۔ بہتر ہے اپنے پاس چھوٹی سی تسبیح رکھا کریں اور کثرت سے اللہ کا ذکر کریں‘ یہ ذکر آپ کو اس 'ڈیجیٹل لت‘ سے خود بخود نجات دلا دے گا۔