امریکہ سمیت تمام بڑے ممالک اسرائیل اور فلسطین میں مرنے والے عام شہریوں کے قتل کا افسوس تو کرتے نظر آتے ہیں لیکن فلسطینیوں کے لیے ان کی ہمدردی برائے نام ہے کیونکہ وہ نہ تو اسرائیل کو انتقامی کارروائیوں سے باز رکھنے کی کوئی عملی کوشش کر رہے ہیں نہ ہی فلسطینیوں کی آزاد دیاست کے قیام کے لیے کوئی قدم اٹھانے کو تیار ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن آج (بدھ کے روز) اسرائیل کا دورہ کر رہے ہیں اور ان کی مکمل ہمدردیاں صرف اور صرف اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ انہیں یہ بھی علم ہے کہ اسرائیل کا فلسطین پر قبضے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا اور غزہ پر زمینی حملے اگر نہ رکے تو اس سے ایک نئی قسم کی جنگ چھڑ جائے گی جس میں مزید عام شہری بڑی تعداد میں جاں بحق ہوسکتے ہیں۔ابھی تک اسرائیل کسی قسم کی بات سننے کو تیار نہیں حتیٰ کہ اس نے وحشیانہ پن میں جنگ کے تمام تر عالمی اصولوں اور ضوابط کو بھی بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ مصر سے جو سینکڑوں ٹرک خوراک‘ادویات اور دیگر سامان غزہ میں عام شہریوں اور جنگی زخمیوں کے لیے لے جانا چاہتے ہیں انہیں بھی سرحد سے واپس موڑا جا رہا ہے۔اور تو اور ہسپتالوں پر بھی اسرائیل کی جانب سے بمباری کی گئی ہے اور کئی ہسپتالوں کو خالی کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ ستم یہیں تک محدود نہیں بلکہ وہ لٹے پٹے قافلے‘ جو اپنی جان بچانے کے لیے غزہ کے شمال کی جانب رواں دواں ہیں‘ ان پر بھی اسرائیل انتہائی بے حسی کے ساتھ ظالمانہ انداز میں میزائل برسا رہا ہے اور اب تک سینکڑوں افراد ان قافلوں میں شہید ہو چکے ہیں۔
اسرائیل پر حملہ عام فلسطینیوں یا اہلِ غزہ نے نہیں بلکہ حماس کے مزاحمت کاروں نے کیا تھا اس لیے اسرائیل کو لڑائی بھی انہی کے ساتھ کرنی چاہیے لیکن اس کی بزدلی کہیں یا ڈھٹائی کہ وہ جواب میں بچوں‘ عورتوں اور بے گناہ شہریوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ غزہ کے بائیس لاکھ شہریوں میں آدھی سے زیادہ آبادی کم عمر بچوں پر مشتمل ہے۔ یوں ہر گرنے والا بم درجنوں بچوں کو موت کی نیند سلا رہا ہے۔اس طرز کی بربریت شاید ہی جدید دنیا نے کبھی دیکھی ہو اور اس طرز کی بے بس زندگی بھی شاید ہی سامنے آئی ہو جس میں ایک جیل نما محدود علاقے میں انسانوں کو اِدھر سے اُدھر کیڑے مکوڑوں کی طرح بھگایا جا رہا ہے اور ان پر آسمان سے بارود کی بارش کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ بے قصور شہریوں کو مارنے والا ملک کسی قانون کو مانتا ہے نہ عالمی ضابطے کو۔
امریکی صدر جو بائیڈن ایک طرف کھل کر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں اوراس کے لیے ایک امریکی بحری بیڑہ بھی اسرائیل کی مدد کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے جبکہ دوسرا بیڑہ بھیجنے کا اعلان بھی کر دیا ہے اور فوجی دستوں کو بھی اسرائیل بھیجنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے مگر دوسری طرف فلسطین کا ساتھ دینے والے ممالک کو وہ کھلے عام دھمکیاں بھی دے رہے ہیں اور ایران کو یہ کہہ کر خبردار کر رہے ہیں کہ ایران یا لبنان کی تنظیم حزب اللہ فلسطین میں جاری تنازع میں داخل ہوں نہ ہی اس کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیں۔اندازہ ہے کہ اس وقت حماس کے پاس 199 غیر ملکی یرغمالی موجود ہیں جن میں تیرہ امریکی شہری بھی شامل ہیں۔ امریکہ کو ان تیرہ امریکی شہریوں کی جان بچانے کی تو خوب فکر ہے لیکن جو لاکھوں بے قصور بچے‘ خواتین اور مرد غزہ میں پھنسے ہوئے ہیں‘ ان کے لیے بیانات صرف خانہ پُری کے لیے دیے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اسرائیل کے پیچھے ڈٹ کر کھڑا ہے اور اس کی بھرپور مالی‘ عسکری اور سفارتی امداد کر رہا ہے۔دوسری جانب امریکہ میں ایسے لوگوں کو نوکری سے نکالنے کا سلسلہ بھی جاری ہے جو فلسطین کے حق میں کسی قسم کا ٹویٹ کرتے ہیں، کوئی بیان دیتے ہیں یا پھر اسرائیل کے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ یہ دنیا کا وہ ملک کر رہا ہے جو خود کو جمہوری ملک کہتا ہے اور جس کے ڈنکے بجا کر وہ پوری دنیا میں جمہوریت اور آزادیٔ اظہارِ رائے کا از خود چیمپئن بنا ہوا ہے۔ ایسا کسی ڈکٹیٹرشپ میں ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن کینیڈا اور امریکہ جیسے ممالک اس طرز کی روایات کا مظاہرہ کریں گے‘ اس کی امید کم ہی تھی۔تاہم اب ساری حدیں پار کی جا رہی ہیں اور اسرائیل کا ہاتھ روکنے کی ساری امیدیں توڑ دی گئی ہیں۔
امریکہ کے کئی چہرے ہیں جن سے دنیا اچھی طرح واقف ہے۔ یہ دنیا بھر خاص طور پر عرب اور ایشیائی ممالک کو کسی نہ کسی فساد اور جنگ میں مبتلا رکھنے کا فن جانتا ہے۔ کبھی عراق پر ممنوعہ ہتھیاروں کا الزام لگا کر اس پر چڑھ دوڑتا ہے، کبھی افغانستان کو دہشت گردوں کا مرکز ٹھہرا کر اس کو ''تورا بورا‘‘ بنا دیتا ہے۔دوسری جانب مسلم دنیا ہے جو کبھی بھی کسی مسئلے پر اکٹھے ہونے کو تیار نہیں ہوتی۔چاہے وہ مسئلہ مسلمانوں سے متعلق ہو یا پھر ان کے دین کے بارے میں۔ مسلم ممالک ہمیشہ سے گومگو کا شکار رہے ہیں۔ فلسطین کے حالیہ معاملے پر بھی انفرادی طور پر کچھ ممالک آواز اٹھا رہے ہیں مگر او آئی سی کا کردار پہلے ہی خاصا کمزور ہے اور اس کمزوری کی وجہ وہ اندرونی خلفشار ہے جو مسلم ممالک میں بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
جہاں تک حماس کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں بھی اسی طرح شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے جیسے کہ اسرائیل پر حماس کے حالیہ حملے میں اسرائیل کی لا علمی اور اطلاعاتی کمزوریوں پر انگلیاں اٹھائی گئیں جس کی بنا پر یہ حملہ انتہائی کامیاب ثابت ہوا۔یہ کہانی نائن الیون سے خاصی حد تک ملتی جلتی ہے کہ جس میں امریکی ایئرپورٹس کی سکیورٹی کو تہس نہس کرتے ہوئے پانچ طیاروں کو ناقابلِ یقین انداز میں اغوا کر کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پنٹاگون سے ٹکرا دیا گیا۔ اس وقت بھی خود امریکہ کے اندر سے یہ سوالات اٹھے تھے اور درجنوں کتابیں شائع ہوئی تھیں کہ جن میں ان حملوں کو مشکوک قرار دیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ حملے خود امریکی پلان کا حصہ تھے تاکہ ان کو جواز بناتے ہوئے دنیا بھر سے ہمدردیاں سمیٹی جائیں اور ملکوں کے ملک دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر روند کر دکھ دیے جائیں۔امریکہ اپنے ماضی سے سبق سیکھتا ہے نہ دنیا میں امن و سکون باقی رہنے دیتا ہے۔شاید یہی اسی کی عالمی سیاست کا محور و مرکز ہے کہ چند ممالک کو چھوڑ کر کہ جہاں اس کا بس نہیں چلتا‘ باقی سب ملکوں کو ایسے چکروں میں الجھا دو کہ سب کو اپنی پڑ جائے اور کوئی کسی دوسرے کی فکر یا مدد کرنے کے قابل نہ رہے۔یہی وجہ ہے کہ آج تمام مسلم ممالک اپنی اپنی معیشتوں اور داخلی مسائل کے گرداب میں الجھے ہوئے ہیں۔ فلسطین کے حق میں چند روایتی قسم کے بیانات سے آگے بڑھنے کی ان میں ہمت ہے نہ صلاحیت۔یہی وجہ ہے کہ مظلوم فلسطینی کسی ملک کی طرف دیکھنے کے بجائے صرف خداہی سے مدد مانگ رہے ہیں۔کئی مرتبہ تو ان کا حوصلہ دیکھ کر رشک آتا ہے کہ ہر خاندان کی الگ اور دل دہلا دینے والی کہانی ہے لیکن وہ پھر بھی مایوس دکھائی نہیں دیتے بلکہ انہیں امید ہے کہ ایک دن وہ اپنی الگ ریاست لے کر رہیں گے۔ ظلم کتنا بھی بڑھ جائے‘ ایک نہ ایک دن اسے مٹنا ہی ہوتا ہے۔ماضی کی بات اور تھی جب اسرائیل من چاہے بیانات دے کر مزاحمتی تحریک کو مختلف رنگ دے دیتا تھا۔ آج جدید میڈیا اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی موجودگی میں یہ سب آسان نہیں ہے۔
آج اگر اسرائیل دنیا کو حماس کے حملے میں مرنے والے عام اسرائیلی شہری دکھا رہا ہے تو یہی دنیا گزشتہ ستر برس سے لاکھوں فلسطینیوں کو زندہ درگور ہوتے ہوئے بھی دیکھ چکی ہے۔ اگر اسرائیل غزہ پر حملے کا ارادہ ترک نہیں کرتا اور ظلم کی نئی کہانیاں رقم ہوتی ہیں تو پھر انہی مظلوموں میں سے وہ مزاحمت کار اٹھیں گے جو اپنے پیاروں کا بدلہ لینے اور آزاد ریاست کی جنگ لڑنے کے لیے میدان میں اتر آئیں گے‘یوں جنگ کے شعلے مزید پھیلیں گے اور اسرائیل کو ہمیشہ کی طرح منہ کی کھانا پڑے گی۔