"ACH" (space) message & send to 7575

اصل چہرہ

اصحابِ کہف تین سو سال غار میں سوئے رہے۔ جب اُن میں سے ایک شخص سکہ لے کر بازار کو نکلا تو معلوم ہوا کہ یہ کرنسی تو کب کی بدل چکی۔ وہ سکہ اس نے دوسرے دکاندار کو دکھایا تو وہ بھی حیران ہوا۔ اصحابِ کہف کا ساتھی یہ کہتا رہا کہ میں اس شہر کا باشندہ ہوں اور کل ہی یہاں سے گیا ہوں لیکن اس کل کو تین صدیاں گزر چکی تھیں۔ لوگوں کو شبہ گزرا کہ کہیں اس شخص کو مدفون خزانہ نہ ملا ہو۔ یہ بات بادشاہ یا حاکمِ وقت تک پہنچی اور اس کے ساتھی کی مدد سے وہ غار تک پہنچا اور اصحابِ کہف سے ملاقات کی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں وفات دے دی۔ اصحابِ کہف کا یہ احوال تفسیرِ ابنِ کثیر میں بیان کیا گیا ہے۔ تین سو سال میں یقینا بہت کچھ بدل جاتا ہے‘ لیکن پاکستان میں تین چار سال میں بھی تیس چالیس سال یا اس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ مہنگائی بڑھ چکی ہے۔ 2019ء میں اگر کوئی شخص چار برس کے لیے سو جاتا ہے یا پھر کسی اور ملک میں چلا جاتا ہے یا خریداری نہ کرتا اور آج چار سال قبل کے حساب سے پیسے لے کر کچھ خریدنے بازار میں جاتا ہے تو اسے حیرانی ہو تی کہ اتنے کم وقت میں کتنا کچھ بدل گیا ہے۔ پہلے تو وہ پٹرول ڈلوانے کے لیے فیول سٹیشن پر جائے گا اور ستر اسی روپے فی لٹر پٹرول کے حساب سے گاڑی کا ٹینک فل کروانے کا کہے گا اور جب اسے پتہ چلے گا کہ اس کی جو چالیس لٹر ٹینک والی گاڑی تین‘ ساڑھے تین ہزار میں بھر جاتی تھی‘ اب بارہ تیرہ ہزار میں بھر رہی ہے تو اس کے ہوش و حواس اڑنے لگ جائیں گے کہ اب اسے گاڑی کا ٹینک بھروانے کے تین چار سو گنا زیادہ نرخ ادا کرنا پڑیں گے۔ اس سے اگلی منزل کوئی شاپنگ پلازہ ہوگی جہاں وہ گاڑی کھڑی کرے گا تو پارکنگ سٹینڈ والا ایک پرچی کاٹ کر اسے دے گا جس پر لکھا ہو گا کہ یہاں پارکنگ کے ستر روپے فی گھنٹہ وصول کیے جاتے ہیں تو وہ یہ پرچی دیکھ کر بھونچکا سا رہ جائے گا۔ وہ پارکنگ والے سے جھگڑا کرے گا کہ آخری مرتبہ اس نے تیس روپے ادا کیے تھے اور وہ بھی چوبیس گھنٹے کے لیے تو کوئی اس کی بات نہیں مانے گا۔ اتنے میں اسے پیاس لگے گی تو وہ ایک دکان میں داخل ہو گا اور پانی کی آدھے لٹر کی بوتل کے لیے بیس روپے دے گا تو دکاندار ہنس کر بولے گا بیس روپے میں پانی نہیں آتا۔ اسی روپے کی چھوٹی بوتل ملے گی۔ وہ حیرانی سے بوتل کا سائز دیکھے گا اور اس کے بعد بوتل لے کر باہر نکل آئے گا۔ اتنے میں دیکھے گا کہ اس کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا ہے اور وہ ٹائر بدل کر قریبی پنکچر والی دکان میں جائے گا تو معلوم ہو گا کہ ایک پنکچر تین سو روپے کا ہو گیا ہے۔ وہ وہاں بھی جھگڑا کرے گا کہ ایک سو روپے کا پکا پنکچر اس نے خود لگوایا ہے تو دکاندار اس کی بات کو سنی اَن سنی کر دے گا کیونکہ ایسے گاہکوں سے روز اس کا سامنا ہوتا ہے جو اس سے پیسے کم کروانے کے لیے ایسا انداز اختیار کرتے ہیں۔ مہنگائی کی یہ لہر اس شخص کے دماغ کو ایسا گھما دے گی کہ وہ شخص شاپنگ کا ارادہ ترک کرکے گھر جانے میں ہی عافیت سمجھے گا۔ اس دوران گھر سے اسے فون آئے گا کہ آتے ہوئے پانچ روٹیاں لیتا آئے۔ راستے میں وہ ایک تندور پر رُکے گا اور پانچ روپے فی روٹی کے حساب سے پچیس روپے دے گا تو دکاندار اسے بتائے گا کہ پانچ روپے کی کون سی روٹی آتی ہے۔ وہ اس سے مزید ایک سو پچیس روپے کا تقاضا کرے گا اور اسے بتائے گا کہ روٹی تیس روپے کی ہے تم کون سے زمانے میں رہتے ہو جو پانچ روپے میں خریدنے آ گئے ہو۔ وہ سوچے گا بازار میں جان بوجھ کر مہنگائی کر دی گئی ہے‘ میں آٹا لے لیتا ہوں تاکہ آئندہ گھر میں ہی روٹیاں بنا لی جائیں۔ جب وہ آٹے کے فی کلو پچاس روپے ادا کرے گا تو آٹے والا بھی اسے جھاڑ پلا کر کہے گا کہ میاں کدھر آ نکلے ہو‘ آٹا کب کا ایک سو اسی روپے فی کلو ہو چکا ہے۔ پچاس روپے میں تو بمشکل ایک پائو ہی آئے گا۔ وہ حیرانی سے بولے گا کہ ابھی تین سال پہلے ہی وہ یہ چیزیں اتنے میں خریدتا رہا ہے تو لوگ ہنس کر کہیں گے کہ یہاں تو صبح اور شام کا ریٹ بدل چکا ہوتا ہے‘ قیمتیں یکدم کئی گنا بڑھ جاتی ہیں اور تم تین چار سال پرانی بات کر رہے ہو۔
یہ کوئی مذاق کی بات ہے نہ ہی کوئی افسانہ۔ یہ صورت حال آئے روز ہر اس شخص کے ساتھ پیش آرہی ہے جو تین چار سال سے سویا تو نہیں لیکن جس کی آمدنی میں تین چار سال سے رتی بھر کا اضافہ نہیں ہوا اور جس کی تنخواہ چار سال قبل بھی وہی تھی جو آج ہے اور جب ایسا شخص گھر سے قدم باہر نکالتا ہے‘ اسے مجبوری کے باعث ہسپتال جانا پڑتا ہے‘ کپڑے جوتے خریدنا ہوتے ہیں‘ روز کا سودا سلف لانا ہوتا ہے یا بچوں کی کوئی فرمائش پوری کرنی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ بھی یہی صورت حال پیش آتی ہے جو اصحابِ کہف کے ساتھ پیش آئی تھی کہ بازار میں کوئی اس کی بات پر یقین نہیں کرتا اور نہ ہی اسے خود بازار کی قیمتوں پر یقین آتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ یہ ابھی کل ہی کی تو بات تھی کہ جب وہ اتنے پیسوں میں اتنی چیزیں لے آتا تھا‘ آج اس سے ایک چوتھائی بھی نہیں خرید پاتا۔ جب وہ اپنے بجلی کے بل کو دیکھتا ہے کہ اسے اڑھائی سو یونٹس کا بل چار ہزار روپے آتا تھا لیکن آج اس کے یونٹس سوا دو سو چلتے ہیں لیکن بل اسے اٹھارہ ہزار روپے موصول ہو رہا ہے تو اس کے حواس اس کے قابو میں نہیں رہتے۔ اسے لگتا ہے وہ انسانوں کی بستی سے نکل کر درندوں کی بستی میں آ گیا ہے جہاں ہر کوئی اس کی جیب اور اس کا خون نچوڑنے کے لیے تیار ہے۔ جب بھی وہ کچھ خریدنے جاتا ہے تو سب اپنے نوکیلے دانت اور پنجے اس کے محدود سے بجٹ پر جما لیتے ہیں اور اسے کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ چاہے وہ بجلی ‘ گیس یا پانی کا بل ہو یا اشیائے خورونوش‘ سب کچھ تین تین‘ چار چار سو گنا بڑھ چکا ہے لیکن اس کی آمدنی وہیں کی وہیں ہے۔ وہ سوچتا ہے یا تو وہ اس معاشرے کا حصہ نہیں ہے اگر حصہ ہوتا تو اشیا کے ساتھ ساتھ اس کی آمدنی میں بھی اسی تناسب سے اضافہ ہوتا۔ وہ شخص‘ جو آج سے چار سال قبل ایک لٹر دودھ خرید سکتا تھا‘ آج صرف پائو دودھ خرید پاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کے گھر میں اگر تین بچے ہیں تو دو بچے دودھ سے محروم رہیں گے۔ یہ صورتحال انتہائی خوفناک اور الارمنگ ہے اور اس سے پانچ سات نہیں بلکہ ستر اسی فیصد طبقہ شدید متاثر ہو رہا ہے اور سسک سسک کر‘ اپنی اور اپنے بچوں کی خواہشات کو مار کر جینے پر مجبور ہے۔ کاش کہ ہمارے سیاستدان اقتدار کی رسہ کشی کی سرکس لگانے کے بجائے عوام کے حال پر رحم کریں اور ان کے بارے میں بھی سوچیں جو انہیں ووٹ دے کر اقتدار کی جنت میں داخل کر دیتے ہیں اور خود اگلے پانچ سال بھوکے پیاسے جلتے کڑھتے رہتے ہیں۔ میں یقین سے کہتا ہوں ان چار برسوں میں ایک بھی سیاستدان نہیں ہو گا جسے اس مہنگائی سے رتی بھر بھی فرق پڑا ہو‘ وہ اپوزیشن تو کیا جیل میں بھی ہوں تب بھی ان کے گھروں کے گیراجوں میں نئی نئی گاڑیاں آ رہی ہوں گی لیکن انہی کے کارکنوں اور عام لوگوں کے گھر نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہو گی۔ یہ ہے ہمارے ملک کا اصل چہرہ اور کڑوا سچ بھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں