وہ مسائل جو ہم عشروں سے دیکھ رہے ہیں‘ اکثر ان کے بارے میں ہمارا ردعمل ایسا ہوتا ہے جیسے پہلی مرتبہ یہ حادثہ رونما ہوا ہو۔ ترقی پذیر ممالک ویسے بھی مسائل میں خودکفیل ہوتے ہیں‘ وہی شکایات‘ وہی الجھنیں‘ وہی حادثات بار بار سامنے آتے اور خبروں کی زینت بنتے ہیں‘ جو پہلے بھی رونما ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان پر دوبارہ کچھ دیر بہت شور مچتا ہے‘ ایکشن لینے کے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں اور پھر جب گرد بیٹھ جاتی ہے یا پھر کوئی نیا حادثہ رونما ہو جاتا ہے تو پہلا واقعہ نظروں اور سکرین سے اوجھل ہو جاتا ہے۔
گزشتہ ہفتے لاہور میں ایک نوعمر لڑکے کی گاڑی کی ٹکر سے دوسری گاڑی میں موجود چھ افراد جاں بحق ہو گئے۔ لڑکے کی عمر اٹھارہ برس سے کم تھی‘ اس لیے اس کا لائسنس بھی نہیں بنا ہوا تھا؛ چنانچہ یہ مسئلہ گزشتہ کئی روز سے نہ صرف میڈیا میں جگہ لے رہا ہے بلکہ عدالت نے بھی اس حوالے سے سخت احکامات جاری کیے ہیں اور ٹریفک لائسنس نہ رکھنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ اچانک رونما ہوا ہے۔ کیا ہم روزانہ کم عمر بچوں کو گاڑیاں اور بائیکس چلاتے نہیں دیکھتے؟ یہ جو نچلا طبقہ ہے‘ اس میں تو ہر دوسرے‘ تیسرے گھر سے بارہ‘ چودہ سال کے بچے چنگ چی رکشے چلا کر گھر والوں کا پیٹ بھر رہے ہیں۔ آبادی اس قدر زیادہ ہے اور کوئی حکومتی منصوبہ بندی نہ ہونے کے باعث روزگار کے مواقع بھی ناپید ہیں‘ اس لیے یہ بچے قانون کو کھلے عام توڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
پاکستان میں تقریباً ہر شخص کسی نہ کسی طرح قانون توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر معاملہ چلتا رہے اور کوئی ایشو نہ بنے تو یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے۔ ابھی سردیاں آئی نہیں لیکن گیس کی قلت ہو گئی ہے اور کئی علاقوں میں لوگوں نے ایسی ڈیوائسز لگائی ہوئی ہیں جن کی مدد سے وہ اردگرد کے گھروں کی گیس بھی کھینچ لیتے ہیں اور اس وجہ سے ہمسائے کھانا بنانے کے لیے بھی گیس حاصل نہیں کر پاتے۔ اس طرح کی ڈیوائسز نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ انتہائی خطرناک بھی ہوتی ہیں اور اکثر اوقات پھٹ جاتی ہیں جس سے پوری پوری عمارتیں منہدم ہو جاتی ہیں اور قیمتی جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں۔ مگر جب اس قسم کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو سبھی ادارے ایکشن لینے کے لیے سامنے آ جاتے ہیں لیکن عام حالات میں کوئی بھی روک ٹوک کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ ملک میں پتنگ بازی پر پابندی ہے لیکن کچھ کالی بھیڑیں اس پابندی کو بھی پتنگ کے ساتھ ہوا میں اڑا دیتی ہیں اور پولیس بھی عام طور پر انہیں پکڑنے کے لیے اس طرح ایکشن نہیں لیتی جس طرح کسی حادثے کے بعد دوڑیں لگائی جاتی ہیں۔ تب پولیس سیڑھیاں لگا کر گھروں میں داخل ہو جاتی ہے اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی حوالات میں بند کر دیتی ہے لیکن سارا سال اس پابندی پر عملدرآمد کرانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ ہم ہر حادثے کے بعد اگلے حادثے کا انتظار کرتے ہیں اور درمیانی عرصے میں صرف خانہ پُری سے کام چلاتے ہیں۔
چند ماہ قبل یونان کے راستے یورپ جانے کے چکر میں میں کشتی ڈوبنے سے ڈیڑھ سو سے زائد پاکستانی جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس پر خوب پھرتی دکھائی گئی اور کئی انسانی سمگلروں کو پکڑا گیا۔ کیا یہ صرف ڈیڑھ‘ دو سو لوگ ہی تھے جو غیر قانونی راستوں اور طریقوں سے دوسرے ممالک میں جانے کی کوشش کر رہے تھے؟ کیا یہ سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری نہیں؟ کیا آج کل لوگ اس طرح باہر نہیں جا رہے؟ کیا پھر کوئی کشتی ڈوبے گی تب انہیں پکڑیں گے؟ کیا اتنی بڑی کارروائی اندرونی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن ہے؟ انسانی سمگلرز کے پاس جو چابی ہوتی ہے‘ وہ پیسے کی طاقت سے چلتی ہے اور سارے قفل کھولتی چلی جاتی ہے۔ یہ جو گروہ پکڑے جاتے ہیں‘ یہ سب کچھ اگل دیتے ہیں اور اس کے بعد ہماری آنیاں جانیاں کچھ دیر ہی چلتی ہیں اور بس۔
جہاں تک ٹریفک لائسنس کی بات ہے تو ہمارے ہاں جن افراد کا لائسنس بنا ہوا ہے‘ وہ بھی ٹریفک قوانین کے مطابق کب گاڑی چلاتے ہیں (الّا ماشاء اللہ)۔ نہ کسی کو لائن کی پروا ہے نہ لین کی۔ جدید ممالک میں ٹریفک لائسنس لینا آسان نہیں ہوتا۔ اکثر لوگ اس امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ٹریفک لائسنس کا ٹیسٹ پاس کرنے والا سمجھتا ہے کہ اسے ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانے کا لائسنس مل گیا ہے۔ اگر کوئی شریف بندہ ٹریفک قوانین پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بھی جلد ہی دیسی سٹائل میں گاڑی یا موٹر سائیکل چلانے پر مجبور ہو جاتا ہے کیونکہ اگر آپ اگلی گاڑی سے مناسب فاصلہ رکھ کر گاڑی چلائیں گے تو پچھلی گاڑی ہارن پہ ہارن مارنا شروع کر دے گی‘ بار بار ڈِپر مارے گی اور پھر آپ کے بائیں طرف سے اوورٹیک کر کے اچانک دائیں طرف آ گھسے گی اور اس کے بعد اگلی گاڑی کے ساتھ بھی یہی سلوک کرے گی۔ کچھ لوگ گاڑی لے کر یہ سمجھتے ہیں کہ سڑک بھی شاید ان کی ذاتی ملکیت ہے‘ ان کی مرضی جیسے چاہے چلائیں اور جہاں مرضی گاڑی پارک کر دیں‘ دوسرا جائے بھاڑ میں۔
ٹریفک پولیس کو بھی چاہیے کہ وہ صرف چالا ن کرنے پر ہی توجہ مرکوز نہ رکھے بلکہ دیگر معاملات کو بھی کنٹرول کرے جیسے کہ شہر میں ہزاروں گاڑیاں ایسی ہیں جن میں آنکھیں چندھیا دینے والی تیز لائٹس لگی ہوئی ہیں‘ جو ممنوع ہیں لیکن آج تک شاید ہی اس بنیاد پر کسی گاڑی کا چالان کیا گیا ہو۔ اس کی بھی مہم شروع ہونی چاہیے تاکہ یہ سلسلہ یہیں رک سکے۔ صرف کالے شیشے یا غیر نمونہ نمبر پلیٹیں ہی جرم نہیں اور بھی ایسے درجنوں جرائم ہیں جو کھلے عام کیے جاتے ہیں۔ دبئی اور خلیجی ممالک میں تو مٹی سے اَٹی گندی گاڑیاں سڑک پر لانے والوں کو بھی ہزاروں ریال جرمانہ کر دیا جاتا ہے۔ ہم دبئی اس لیے نہیں بن سکتے کیونکہ ہم دبئی بننا ہی نہیں چاہتے۔ لاہور میں گلاب دیوی ہسپتال کے سامنے فیروزپور روڈ پر انڈر پاس کے ختم ہوتے ہی غلط جگہ رکشے پارک ہوتے ہیں جبکہ پارکنگ کی جگہ کچھ فرلانگ آگے ہے مگر اس کی وجہ سے قصور کی سمت جانے والی گاڑیاں گلاب دیوی انڈرپاس سے چیونٹیوں کی رفتار سے حرکت کرتی ہیں۔ آگے جا کر پتا چلتا ہے کہ دو رکشے غلط جگہ کھڑے ہیں جس وجہ سے پوری ٹریفک جام ہو کر رہ گئی ہے۔ قریب ہی ٹریفک وارڈ ن اپنا روایتی چالان کوٹہ پورا کرنے میں مگن ہوتے ہیں۔ وہ اتنا بھی نہیں کرتے کہ ان رکشوں کو تھوڑا آگے‘ جہاں پارکنگ کا بورڈ لگا ہے‘ وہاں جانے کی ہدایت ہی کر دیں۔ اسی طرح جیل روڈ‘ فیروزپور روڈ‘ مولانا شوکت علی روڈ‘ گلبرگ مین بلیووارڈ جیسی سڑکوں پر سے سگنلز اور کراسنگ ختم کر کے یوٹرن بنا دیے گئے ہیں جس سے ٹریفک کی روانی بہتر ہوئی ہے۔ ان یوٹرنز پر سارجنٹ ہیلمٹ یا کمرشل چالان کرنے کے لیے مستعد کھڑے ہوتے ہیں لیکن انہی یوٹرنز سے موٹر سائیکل سوار حتیٰ کہ گاڑیوں والے بھی غلط مڑنے اور ون وے کے خلاف جانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ شارٹ کٹ مار سکیں اور انہیں اگلے یوٹرن سے مڑ کر نہ آنا پڑے مگر مجال ہے کہ کسی یوٹرن پر ایسی گاڑیوں یا موٹر سائیکلوں کو غلط یا شارپ ریورس ٹرن سے باز رکھنے کے لیے کوئی وارڈن کبھی کھڑا نظر آئے یا ایسی کوئی مہم چلائی گئی ہو۔ جیل روڈ پر پنجاب کارڈیالوجی‘ شادمان انڈرپاس اسی طرح فیروز پور روڈ پر شمع سینما و دیگر یوٹرنز پر بائیکس اور گاڑیاں کھلے عام یوٹرن سے غلط سمت میں جانے کی کوشش کرتی نظر آتی ہیں جبکہ سامنے سے ٹریفک کا ریلا آ رہا ہوتا ہے مگر بلاخوف و خطر یہ کوشش کی جا رہی ہوتی ہے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ ٹریفک پولیس کی اس طرف توجہ ہے نہ فکر۔ ایسے میں اگر کبھی کوئی بڑا حادثہ ہو گیا‘ کوئی موٹرسائیکل سوار یوٹرن سے غلط سمت کراس کرنے کے چکر میں کسی ٹرک یا گاڑی سے ٹکرا کر جان گنوا بیٹھا تو میڈیا پر شور مچ جائے گا اور پھر لائسنس کی طرح غلط سمت مڑنے والوں کے خلاف بھی کریک ڈائون کا آغاز ہو جائے گا لیکن یہ سب کچھ عام حالات میں نہیں ہو گا۔
بہتر یہی ہے کہ حادثوں کا انتظار کیے بغیر ہم اپنی ذمہ داریاں ادا کریں اور اگر ایسا نہیں کر سکتے تو غیر معمولی حادثوں پر مصنوعی بیانات اور لفاظی سے پرہیز کریں کیونکہ یہ مسائل کا مستقل حل ہے نہ سنجیدہ قوموں کا طرزِ عمل۔ ہر حادثے کے بعد وقتی مہم سے ہم مسلسل دائرے کا سفر ہی کرتے رہیں گے!