آسیب زدہ کیبن

رن وے پر پھسلتا ہوا طیارہ‘ ہنگامی لینڈنگ‘ چھت میں ہیروئین ‘ سامان میں منشیات‘ کیبن میں پراسرار عملہ۔ جی نہیں‘ آپ نے غلط سمجھا یہ کسی خوفناک فلم کا منظر نہیں بلکہ ہماری قومی ائیرلائن کی حالت ِزار کی ادنیٰ سی عکاسی ہے ۔ پاکستان انٹر نیشنل ایئرلائن کی خستہ حالی بتاتی ہے کہ اس ادارے کی کیا حالت ہے ۔ برس ہا برس کی نااہل مینجمنٹ اور انتہائی فعال بدعنوانی کی منہ بولتی تصویر ‘ کئی برسوں سے مالی طور پر مفلوک الحال یہ ادارہ ہر دور میں سیاسی مداخلت کا نشانہ رہا ہے ۔ قہر یہ کہ ہر حکومت نے اس کی بحالی کے منصوبے بنائے‘ ہر دور میں اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی‘ لیکن ہر مرتبہ اس کی سمت غلط رہی؛چنانچہ جب موجودہ حکومت نے اعلان کیا کہ وہ اس میں اصلاحات لانے کا ایک اور منصوبہ رکھتی ہے تو ماضی کے ہیولوں سے جان چھڑانا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔ شک ایک بھوت کی طرح ہر کوشش کے تعاقب میں ہے۔ 
اگرچہ یہ بات حوصلہ افزاہے کہ اس کے بعض شعبوں میںکچھ کانٹ چھانٹ کی جاری ہے ‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ محض سطحی ملمع کاری سے اندرونی زنگ دور نہیں ہوگا۔ اس تھکے ماندے ادارے میں تبدیلی لانے کے حوالے سے کیے گئے کچھ حالیہ اعلانات خوش آئند ہیں ۔ جعلی ڈگریاں رکھنے والے کچھ پائلٹوں کو ملازمت سے فارغ کیا گیا ۔ ایئرہوسٹس سے بھی کہا گیا کہ یا تو وہ اپنا وزن کم کریں یا گھر بیٹھیں۔ کیبن کا تمام عملہ‘ جن کا وزن طے شدہ حد سے تیس پائونڈ زیادہ ہے ‘ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ہر ماہ پانچ پائونڈ وزن کم کریں‘ اور یہ سلسلہ رواں سال جولائی تک جاری رکھیں۔ اگراکتیس جولائی 2019ء کو کسی سٹاف ممبر کا وزن تیس پائونڈ ز سے زیادہ پایا گیا تو اُسے فرائض سے سبکدوش کردیا جائے گا‘ یا میڈیکل جانچ اور ٹریٹمنٹ کے لیے ائیرکریو میڈیکل سنٹر بھیجا جائے گا‘ یہاں تک کہ اُس کا وزن کم ہوکر معیار کے مطابق نہ ہوجائے ۔ 
اگرچہ وزن کم کرنے کی یہ کاوش اہم ہے ‘ لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ بہتری کا سلسلہ یہیں نہیں رکے گا۔ جہاز میں مسافروں کی خدمت کرنے والے عملے کی سمارٹ شکل و شباہت ضروری ‘ لیکن ا س سے بڑھ کر سمارٹ رویے‘ برتائو ‘ طرز ِعمل‘ کارکردگی اور فعالیت درکار ہے ۔ تبدیلی کی گزشتہ کاوشیںکیوں ناکام ہوگئیں؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کا دائرہ کار محض فضائی میزبانوں کے یونیفارمز کے ڈیزائن ‘ یا طیاروں کے بیرونی مونوگرام کی تبدیلی تک محدود تھا۔ اگر بیرونی شکل تبدیل کرنا کافی ہوتی تو ایئرلائن سبسڈی کی اتنی بھاری بھرکم رقوم ہڑپ نہ کرجاتی‘ اور اس میں ہونے والا مالی خسارے سے نمٹنا محال نہ ہوتا۔ پی آئی اے کو مجموعی طور پر 414.3 بلین روپوں کے خسارے کا سامنا ہے ۔ اس میں 247 بلین روپوں کے قرضے اور 144.7 بلین روپوں کے بقایا جات‘ اور ماہانہ اقساط کی صورت چار بلین روپوں کی ادائیگیوںکاقرضہ شامل ہے۔ 1.5 بلین روپے ماہانہ سود کی ادائیگی اس کے علاوہ ہے ۔ یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اس ادارے کے محض زخموں سے خون نہیں رس رہا‘ بلکہ یہ انتہائی قیمتی انتقال خون پر زندہ ہے ۔ کیا مستقل طور پر اتنی بھاری رقم ہڑپ کرنے والا ادارہ زندہ رہ سکتا ہے ؟ہر گز نہیں۔ اس میں تبدیلی ناگزیر ہے ‘ اور تبدیلی کے لیے تکلیف دہ جراحت درکار ہے ۔ سب سے پہلے تو ہمیں ان سوراخوں کو بند کرنا ہے جہاں رقم ضائع ہورہی ہے ۔ کچھ علامتی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔گزشتہ دو ماہ کے دوران 194گھوسٹ ملازمین کو ملازمت سے فارغ کیا گیا ہے ۔ یہ ایک اچھی شروعات ہے ۔ لیکن اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ جو ملازمین اس ائیرلائن کے لیے کام نہیں کررہے تھے‘ یاجن کا وجود ہی نہیں تھا‘ وہ کس طرح تنخواہیں وصول کرتے رہے ؟اس جرم کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ؟ گھوسٹ ملازمین کا مطلب ہے جعلی ناموں‘ جعلی درخواستوں ‘ جعلی دستخطوں اور جعلی شناختی کارڈز سے کروڑوں روپوں کی تنخواہیں وصول کرنا۔ برس ہا برس سے یہ سلسلہ کس طرح چلتا رہا؟ اس لوٹ مارکا احتساب ضروری ہے ۔گھوسٹ سی ای اوز کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ اس کی ایک کلاسیکی مثال سابق سی ای اوبرینڈ ہلڈن برانڈ (ایک جرمن شہری) تھا ۔ اس کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا‘ لیکن وہ ملک سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگیا۔ اُس کا ابھی تک تعاقب کیا جارہا ہے ۔ اُسے نہ صرف کسی طے شدہ طریق ِکار کے بغیر ملازمت پررکھا گیا تھا‘ بلکہ وہ پی آئی اے کا ایک طیارہ بھی لے اُڑا‘ اور تمام تر قواعد وضوابط کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اُسے نہایت اونے پونے داموں ایک جرمن میوزیم کے ہاتھ فروخت کردیا۔ ایک غیر فعال طیارہ‘ A 310 جس کا رجسٹریشن نمبر AP-BAQ تھا‘ کو 47,500 یورو (59,09,912 روپوں) میں جرمنی کے ایک میوزیم کو فروخت کردیا گیا۔ اس کی منظوری ہلڈن برانڈ نے دی تھی ۔ اُس پر دوسرے ممالک سے دگنے نرخوں پر طیارے کرائے پر لینے کا بھی الزام ہے ۔ اُس نے پی آئی اے کے لیے سری لنکن ایئرلائن سے 8,000 ڈالر فی گھنٹہ پر طیارہ حاصل کیا‘ جبکہ معمول کے نرخ 4,000 ڈالر فی گھنٹہ ہیں۔
اُن افرادکے بارے میں کیا خیال ہے جو قانونی طور پر درست اور جسمانی طور پر حاضری پر موجود ہوتے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود وہ کام نہیں کرتے ۔ ایسے دکھائی دینے والے بھوت عام طور پر چیک ان کائونٹرز‘ تلاشی لینے والے کمروں‘ خریداری کرنے والے دفاتر یا انجینئرنگ کے شعبوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا کام محض تنخواہ وصول کرنا ہوتا ہے ‘ لیکن وہ ایئرلائن کے امور سے بالکل لاتعلق رہتے ہیں۔ یہ افراد مسافروں کے ساتھ اگر توہین آمیز طریقے سے نہیں تو بھی رکھائی سے ضرور پیش آئیں گے ۔ کیا اس کی وجہ ان میں صلاحیتوں کا فقدان ہے ‘ یا پھر وہ ملازمت پر بھرتی کرنے اور ترقی دینے کے طریق ِ کار میں بے اعتدالی دیکھ دیکھ کر تنگ آچکے ہیں؟
سنجیدہ اصلاحات کے لیے دو محاذوں پر سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے ۔ پہلے تو ایئرلائن کو تمام بدعنوان افراد سے پاک کریں۔ اس سلسلے میں جعلی ڈگریاں رکھنے والوں اور گھوسٹ ملازمین کو فارغ کرنا ایک اچھی شروعات ہے ‘ تاہم یہ لوگ چھوٹی مچھلیاں ہیں۔ بڑی مچھلیاں‘ جنہوںنے تمام جَل گندا کیا تھا‘ وہ بورڈ آف ڈائریکٹرز میں موجود ہیں۔ اکتوبر2018ء میں اٹارنی جنرل آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں آڈٹ کی ایک جامع رپورٹ جمع کرائی تھی ۔ یہ رپورٹ ایئرلائن کے مالی معاملات کی افسوس ناک منظرکشی کرتی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ 2008 ء سے لے کر 2017 ء تک مختلف حکومتوں نے پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں چوالیس ارکان کو تعینات کیا‘ لیکن ان میں سے کسی ایک کے پاس بھی ہوابازی کے شعبے کا تجربہ نہ تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اُنہیں نہ صرف عہدوں سے ہٹانا ہوگا‘ بلکہ اُن سے ٹیکس دہندگان کی رقوم بھی نکلوانی ہوں گی۔ ایسے سی ای اوز‘ ایڈوائزرز اور ڈائریکٹرز کی وجہ سے ہی پی آئی کے خسارے کا حجم 414 بلین روپوں تک پہنچا ہے ۔ 
دوسرا اقدام پیشہ ور پس ِ منظر رکھنے والے فنی ماہرین کو اس کے عملے میں شامل کرنا ہے ۔ ائیرلائن کے موجودہ سربراہ کا تعلق ایئرفورس سے ہے۔ روایتی طور پر پی آئی اے نے ائیرفورس سے تعلق رکھنے والے دو افسران کی قیادت میں ہی ترقی کی تھی۔ یہ افسران نور خان اور اصغر خان تھے ۔ ہمیں اس بات کو بھی یقینی بناناہے کہ نجی شعبے سے مارکیٹنگ ‘ افرادی قوت اور دیگر شعبوںکے ماہرین کو حاصل کیا جائے ۔ امارات ائیرلائن بھی ایک قومی ایئرلائن ہے ‘ لیکن یہ دنیا بھر سے ہوا بازی کے شعبے سے بہترین ماہرین کی خدمات حاصل کرتی ہے ۔ امارات ایک بہترین مثال ہے کہ کس طرح ایک ائیرلائن ایک ملک کا نام روشن کرسکتی ہے ‘ ملک میں سیاحت کو فروغ دے سکتی ہے اور صحرا کو دنیا بھر میں تجارت اور تفریح کا مرکز بنا سکتی ہے ۔ اس مثال کی پیروی کرتے ہوئے پی آئی اے کی انتظامیہ کو ایئرلائن بزنس کی ذہنیت سے چھٹکارا پاتے ہوئے میزبانی اور سروسز کا رویہ اپنانا ہوگاتاکہ ایئرلائن میں سفر کرنے والا ہر مسافر خاص توجہ‘ آرام او ر را حت کو محسوس کرے۔ مسافروںکی طمانیت ا ور انسیت ہی حقیقی تبدیلی ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں